• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل سب کے ذہنوں پر ایک ہی سوال سوار ہے کہ یہ لاک ڈاؤن کب ختم ہوگا اور زندگی معمول پر کب لوٹے گی۔ لگتا ہے کہ باقی ساری سیاست، باقی تمام مسائل اور باقی سب موضوع معمول کی زندگی کی طرح ایک پرانی یاد بن گئے ہیں۔ ایک گزشتہ کالم میں کورونا وائرس کے منطقی انجام پر بات کی تھی کہ کس کس طرح یہ وبا اپنے اختتام کو پہنچ سکتی ہے لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ سوال شاید زیادہ اہم ہے کہ ہم عام لوگوں کی عام زندگی کب واپس لوٹے گی۔ حالات نارمل کب ہوں گے؟ اِس سوال کا صحیح جواب تو صرف خالقِ حقیقی ہی جانتا ہے لیکن کچھ باتیں اب واضح ہونے لگی ہیں۔

پیر کو لاک ڈاؤن کے بارے میں اگلا فیصلہ کیا جانا تھا تاہم یہ فیصلہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کو سونپ دیا گیا، آج (منگل) کو اس حوالے سے کوئی نئی حکمت عملی سامنے آنے کا امکان ہے، تاہم لگتا یہ ہے کہ کچھ نرمی کے ساتھ لاک ڈائون جاری رکھا جائے گا کیونکہ ایسا اب ناممکن سا ہے کہ حکومت یکدم کہے کہ کل سے لاک ڈاؤن نہیں ہوگا۔ سب کچھ آہستہ آہستہ کھولا جائے گا اور ساتھ ہی اِس بات کا خیال بھی ضرور رکھا جائے گا کہ پاکستان میں مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ تیزی سے تو نہیں بڑھ رہی؟ وائرس کا پھیلائو صرف ایک دفعہ کا ماجرا نہیں ہے بلکہ یہ خطرہ مستقلاً موجود ہے اور موجود رہے گا کہ اگر لوگوں نے احتیاطی تدابیر چھوڑ دیں تو دوسری لہر بھی آ سکتی ہے جو زیادہ شدید ہو گی۔ اس لیے شاید مستقبل قریب تک ہمیں مکمل احتیاط اور اجتماعات سے مکمل پرہیز کرنے کے ضرورت ہوگی۔ ہمارے ہاں لاک ڈاؤن ویسے بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے کہ لوگوں کی سڑکوں پر آمد و رفت جاری ہے اور احساس پروگرام کے پیسوں کی وصولی سے لیکر دیگر زندگی کے مسائل تک‘ لوگ گھروں کے اندر نہیں رہ سکتے۔ بالخصوص ہمارا مزدور طبقہ یہ لاک ڈاؤن زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا، جس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں نرمی ضروری ہونے لگی ہے۔

دنیا میں پانچ ممالک ایسے ہیں جو اِس ہفتے اپنے اپنے لاک ڈاؤن میں نرمی لا رہے ہیں۔ چین نے ووہان (جہاں سے یہ وبا شروع ہوئی تھی) میں لاک ڈاؤن ختم کر دیا ہے۔ چیک ریپبلک نے ہارڈویئر اور دیگر دکانیں کھول دی ہیں اور لوگوں کو اسپورٹس کی اجازت دیدی ہے۔ آسٹریا نے تمام چھوٹی دکانیں کھولنے کا کہہ دیا ہے، ڈنمارک اور ناورے اسکولوں کو دوبارہ کھول رہے ہیں۔ اب ان ممالک پر پوری دنیا کی نظر ہو گی اور ان کے اس فیصلے کا بغور جائزہ لینے کے بعد سوچا جائے گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ معیشت دوبارہ رواں کرنے اور لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ ان کی صدارت کا سب سے بڑا فیصلہ ہوگا، یقیناً دنیا کے تمام لیڈران کے لیے یہ ایک بڑا فیصلہ ہے۔ آخر ایک وقت آئے گا کہ لوگ شدید تنگ پڑ جائیں گے بلکہ کچھ لوگ تو سمجھتے ہیں کہ یہ وقت آ چکاہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اگر پوری دنیا پر کوئی معاشی بحران آیا ہے تو وہ یہ ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھی ورلڈ بینک نے خبردار کیا ہے کہ ریسیشن (معاشی گراوٹ) آنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے، جو اگر آیا تو مزید بیروزگاری اور معاشی بد حالی کو جنم دے گا اور حکومت کا اعلان کیا گیا پیکیج بہت کم ثابت ہوگا۔ اگر اِس سطح پر معاشی بد حالی نہ بھی ہو تو بھی جو حالات ہیں، لوگوں کو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کافی وقت لگ جائے گا۔ جو کاروبار بند ہوں گے وہ فوراً دوبارہ نہیں کھل سکیں گے، جو لوگوں کا نقصان ہوگا اس کا ازالہ راتوں رات ممکن نہیں ہو گا، اور جو نوکریاں ختم ہوں گی وہ بھی اتنی جلدی واپس نہیں آئیں گی۔ معاشی طور پر شاید مکمل ریکوری میں کئی سال لگ جائیں۔

دنیا کو اور ہم سب کو ذہنی طور پر اِس بات کے لیے بھی تیار ہو جانا چاہیے کہ اِس کے بعد اِس طرح کی وبا آنے کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں۔ جس رفتار سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اور جیسے ہم ایک مربوط دنیا میں رہ رہے ہیں اِس طرح کی مزید وبائیں بھی آ سکتی ہیں۔ اب ہمیں اپنے صحت کے نظام اور لوگوں کی فلاح کے لئے کام کرنے کو قومی ترجیح بنانا ہو گی ورنہ ہم جیسے ممالک کے سر پر یہ خطرہ مسلسل منڈلاتا رہے گا۔

نفسیاتی طور پر بھی اِس وبا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات نے ہم پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، ہمارے مقدس مقامات لاک ڈاؤن میں ہیں، سعودی عرب نے تو یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ نمازِ تراویح مساجد میں پڑھنے کی اجازات نہیں دی جائے گی، ہمارے یہاں بھی دو ہفتوں سے لوگوں نے نمازِ جمعہ ادا نہیں کی، اِس سے ہٹ کر بھی انفرادی طور پر جن لوگوں کے پیارے اِس وبا کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، یہ سب ایک ’’نیو نارمل‘‘ ہے۔ ہماری زندگی کبھی واپس اُس معمول پر نہیں جائے گی جہاں ہم نے چھوڑی تھی، لیکن ہم وہ قوم ہیں جس نے دہشت گردی سے لیکر زلزلوں اور سیلاب جیسی آفتوں کا مقابلہ کیا ہے اور ہم اِس نئی دنیا میں اور ’’نئے نارمل‘‘ میں بھی ان شاء اللہ کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن اِس کے لیے صبر اور تحمل سے کام لینا اور اپنی جگہ زیادہ سے زیادہ اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین