• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرور پکوڑے بیچتا ہے ۔ میرا کبھی اسکے علاقے کی طرف گزر ہوتو میں اس کے پکوڑے کھائے بغیر رہ نہیں سکتا۔اسکے پکوڑے بڑے ذائقہ دار ہوتے ہیں ۔بیسن اور پیاز سے بنے پکوڑوں کے ہمراہ اسکی بنائی ہوئی چٹنی بڑی مزیدار ہوتی ہے ۔ کافی عرصہ سے اسکا گاہک ہونے کی وجہ سے نہ صرف سرور سے میری جان پہچان ہوچکی ہے بلکہ تھوڑی بہت بے تکلفی بھی پیدا ہوچکی ہے ۔پکوڑوں کے علاوہ اسکی کچھ اور عادات ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں۔وہ خود صاف ستھرا رہتا ہے ۔ اسکے کپڑے اجلے نیپکن صاف ہوتا ہے اور وہ اپنا سامان بیچ کر 3 بجے چھٹی کرجاتا ہے۔میں اس سے اکثر کہتا ہوں کہ تم شام کو چھٹی کیوں کرلیتے ہو ۔ شام کو تو لوگوں میں پکوڑوں کی زیادہ مانگ ہوتی ہے لوگ چائے کے ساتھ پکوڑے کھانا پسند کرتے ہیں ۔ وہ ہنس کر جواب دیتا ہے سرجی بندہ ساری عمر محنت کرتا ہے اخراجات پھر بھی پورے نہیں ہوتے بس میری دیہاڑی 3 بجے تک لگ جاتی ہے ۔ بس اسکے بعد کچھ وقت گھر والوں کو بھی دیتا ہوں ریسٹ بھی کرنا ہوتا ہے اور پھر دوسرے دن کیلئے سامان لانا اور تیار کرنا بھی کام ہے جو میں خود کرتا ہوں اور کبھی کبھی پارٹیوں کا بڑا آرڈر بھی مل جاتا ہے تو اسکے لئے ایکسٹرا کام کرنا پڑتا ہے اس لئے میں نے اپنی دکان کا وقت 3 بجے تک مقرر کرلیا ہے اور اللہ کا شکر ہے اچھی آمدنی ہوجاتی ہے ۔ میرے پکے گاہک لگے ہوئے ہیں ۔ گزشتہ روز بارش اور ایک مرتبہ پھر جاتی ہوئی موسم کی سردی کی واپسی پر میں نے کہیں جاتے جاتے اپنی گاڑی کا رخ سرور پکوڑوں والے کی طرف موڑ لیا۔ہلکی ہلکی بارش اور سردی میں سرور کے پکوڑے اور بھی زیادہ ذائقہ دار لگتے ہیں ۔ میر ے ساتھ میرا ایک دوست بھی تھا اور میں اپنے دوست کو بھی سرور کے پکوڑوں کا رسیابنانا چاہتا تھا لیکن جب سرور کی دکان پر پہنچے تو یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ سرور کا پکوڑوں والا تھال خالی تھا۔ میں نے سرور سے کہا کہ ابھی دو بھی نہیں بجے اور تمام سامان لپیٹ رہے ہو۔ سرور نے ہنستے ہوئے جواب دیا سر جی جس دن بارش والا موسم ہو اس دن پکوڑوں کیلئے سی این جی اسٹیشن کی طرح لائنیں لگ جاتی ہیں اور مال جلدی ختم ہوجاتا ہے لیکن آپ ناراض نہ ہوں میں نے تھوڑے سے پکوڑے گھر کیلئے بچا کررکھے ہیں وہ ابھی ابھی نکالے ہیں اور گرم بھی ہیں وہ کھالیں۔ میں دوست کی وجہ سے انکار نہ کرسکا اور اسی کی دکان میں لگی کرسیوں پر بیٹھ کر دوست کے ہمراہ پکوڑے کھانے لگا کہ سرور نے ایک عجیب بات کی کہنے لگا سر جی یہ جو 23 مارچ کوصدر ایوارڈز دیتے ہیں ایک ایوارڈ مجھے بھی دلا دیں۔ میں ہنس پڑا، میں نے سرور سے کہا کہ میرے بھائی یہ تو ان لوگوں کو ملتا ہے جنہوں نے کسی شعبے میں خاص کارنامہ انجام دیا ہو۔ تم نے کونسا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ سرور جو پکوڑے نکالنے والا کف گیر صاف کررہا تھا اسی تیزی سے میری طرف مڑا کہ مجھے لگا کہ وہ ہاتھ میں اٹھایا ہوا کف گیر مجھے دے مارے گا۔کہنے لگا سر جی یہ جو ایوارڈ ز دیئے جاتے ہیں کیا یہ واقعی کارنامہ انجام دینے والوں کو ملتا ہے ؟ میں نے اثبات میں سرہلایا تو سرور کہنے لگا تو پھر تو میرا حق بنتا ہی بنتا ہے ۔ میں نے کہا وہ کیسے کہنے لگا میں نے پکوڑے بیچ کر اپنی چار بیٹیوں کی شادی کی ہے اپنے اکلوتے بیٹے کو یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم دلوا رہا ہوں، پانچ مرلے کا مکان بنالیا ہے، کیا اس دور میں یہ کارنامہ نہیں ہے۔میں لاجواب سا ہوگیا ۔ میں اسے مزید دلائل دینے کیلئے ابھی پرتول ہی رہا تھا کہ سرور نے کہا کہ پچھلے سال آپ نے وزیر داخلہ رحمن ملک کو سول ایوارڈ دے دیا اس مرتبہ گورنر سندھ عشرت العباد کو یہ ایوارڈ دے دیا۔ یہ لوگ بڑے بڑے سرکاری گھروں میں رہتے ہیں، نوکر چاکر بڑی بڑی گاڑیاں  سرکاری پروٹوکول پر حکومت کے کروڑوں روپے کے اخراجات  سرجی پھر بھی ایوارڈز ان کے لئے ۔ مجھے آپ ہی بتائیں انکا کارنامہ کیا ہے۔ کراچی میں بندے مر رہے ہیں ۔ سارے ملک میں امن وامان کا مسئلہ آپ کے سامنے ہے، اگر یہ کارنامہ ہے تو انہیں صدارتی ایوارڈز بانٹتے رہیے ۔ میں نے سرور کی گفتگو کا رخ موڑنے کیلئے پکوڑوں کی تعریف کرنا شروع کردی اور اس سے کہا سرور میں تمہیں ایوارڈ تو نہیں دلاسکتا لیکن آج تمہارے زبردست اور ذائقہ دار پکوڑوں کا انعام ضرور دوں گااور میں نے ایک ہزار روپے کا نوٹ اسکی طرف بڑھادیا۔سرور نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا سرجی آ ج تو میں پکوڑوں کے پیسے بھی نہیں لوں گا کیونکہ یہ پکوڑے میں نے بیچنے کیلئے نہیں بلکہ گھر کیلئے رکھے تھے اور آپکی تعریف ہی میرا انعام ہے اور اس نے ایک ہزار روپے کا نوٹ لینے سے انکار کردیا۔
\
تازہ ترین