• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کتنی عجیب و غریب صحافت ہے کہ جس جلسے میں دو لاکھ کرسیاں لگائی گئیں اور جہاں ہر پانچ میں سے ایک آدمی کو کرسی نصیب ہوئی وہاں رپوٹنگ یہ کی گئی کہ جلسے میں ستر ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک لوگ تھے اورجنرل پرویز مشرف کے استقبال میں آنے والے دو چار ہزار لوگوں کو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر قرار دیا گیا۔ایک تجزیہ نگار نے تو یہاں تک فرمادیاکہ” جلسے میں کچھ لوگ جمع ہو گئے تھے مگرعمران خان کو ووٹ کسی نے نہیں دینا “۔ایسے تجزیوں پر قربان ہونے کو جی چاہتاہے ۔
ہم کو معلوم ہے ”جلسے“ کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے
میں انہیں کیا کہوں ۔کیسے سمجھاؤں کہ دہشت گردی کے اس موسم میں کسی جلسے میں جانے والے سر پر کفن باندھ کر گھروں سے نکلتے ہیں اور عمران خان کیلئے ایسے موسم میں گھروں سے نکلنے والے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے ۔عمران خان کے گذشتہ جلسے پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس جلسہ کے پیچھے آئی ایس آئی کے چیف تھے ۔اب پھر وہی الزام دھرایا جا رہا ہے۔نون لیگ کے شیخ روحیل اصغر نے کہا ہے کہ” طاہر القادری اور عمران خان کے جلسے کامیاب کرانے والوں کو ہم جانتے ہیں“ ۔میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ فوج،جس نے پچھلے پانچ سال کے دوران ہر مشکل ترین موقع پر بھی صبر سے کام لیااس پر اس وقت یہ الزام کہ وہ عمران خان کے جلسے کامیاب کراتی پھر رہی ہے بہت افسوس ناک ہے ۔
ہیں کواکب کچھ ،نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ ۔۔یہ بازی گر کھلا
اقتدار کی بھی کیسی مجبوری ہے نواز شریف، پرویز مشرف کی آمدپر ان کے خلاف کچھ اور تو کجا تقریر بھی نہیں کر سکے۔عمران خان کے جلسے کے بعداور پرویز مشرف کے آنے کے بعد تواس بات کا خطرہ اور بڑھ گیا ہے کہ کہیں یہ انتخابات ملتوی نہ ہو جائیں کیونکہ نواز شریف ذہنی طور پر شکست تسلیم کر چکے ہیں ۔ ان کے اس بیان سے اس بات کا واضح اظہار ہورہا ہے کہ مجھے وزیر اعظم بننے کا شوق نہیں میں پاکستان کی بہتری کیلئے کسی کے پیچھے اورکسی کے ساتھ بھی چلنے کو تیار ہوں۔پیپلز پارٹی کوعلم ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس کے بعد عوام انہیں ووٹ دینے سے رہی۔سو خطرہ ہے کہ جیسے جیسے الیکشن قریب آئیں گے دونوں پارٹیاں مایوسی کے عالم میں کسی تیسرے راستے کی طرف دیکھنے نہ لگ جائیں اور جتنی جنگ نگران وزیراعظم بنانے پر ہوئی اس سے بھی لگتا ہے کہ یہ چالیس پچاس دنوں کا وزیر اعظم نہیں۔
ڈرا ہوا ہوں میں ان کے مزاج سے منصور
جو ان کی ہو نہ سکے شے ، یہ توڑ دیتے ہیں
نون لیگ نے جماعت اسلامی کو اتحاد کا عندیہ دیا تھامگر اس جلسے کے بعد جماعت اسلامی نے نون لیگ کی آفرکو ٹھکرا کرتحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔یہ بات بھی نون لیگ کیلئے خاصی پریشان کن ہے۔ماضی میں جماعت اسلامی نے زیادہ تر نون لیگ کا ہی ساتھ دیا ہے گذشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے بائیکاٹ سے بھی نون لیگ کو فائدہ ملا تھا۔پنجاب میں تقریباً ایم این اے کی ہر سیٹ پر جماعتِ اسلامی کے پاس دس ہزار سے زائد ایسے ووٹ موجود ہیں جنہیں کوئی خرید نہیں سکتایعنی پنجاب میں تحریکِ انصاف کے ہر امیدوار کو دس ہزارکے قریب اضافی ووٹ مل گئے۔پھرنون لیگ کامضبوط قلعہ جسے لاہور کہتے ہیں۔وہاں جماعت ِ اسلامی کابھی خاصا ووٹ ہے۔یعنی لاہور میں تحریک انصاف جماعت اسلامی کی مدد سے نون لیگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے ۔صوبہ پختون خواہ اور کراچی میں بھی جماعت اسلامی کا ووٹ بنک موجود ہے۔اگرچہ شاہ محمود قریشی اور کچھ اور احباب جماعتِ اسلامی کے ساتھ اتحاد کے حق میں نہیں تھے مگر سچ یہی کہ عمران خان کا یہ فیصلہ تحریکِ انصاف کیلئے بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔اس وقت پاکستان میں دینی سیاست کا دوسرا بڑاگروپ ڈاکٹر طاہر القادری کا ہے اورڈاکٹر طاہر القادری کے ماننے والے لوگ پہلے ہی دل و جان سے عمران خان کے ساتھ ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ بہت جلدڈاکٹر طاہر القادری انتخابات سے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے کر عمران خان کی حمایت کا اعلان کر دیں گے۔انہوں نے جلسے کی کامیابی پر باقاعدہ عمران خان کو فون کیاہے اور مبارک باددی ہے۔
نون لیگ کے ترجمان نے کھل کر اس بات اظہار کیا ہے کہ عمران خان نوجوانوں کے کندھوں پر سوار ہو کر وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں ۔نون لیگ کو اس بات کا احساس بہت پہلے ہو گیا تھا اسی لئے تو شہباز شریف نے نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی سکیم شروع کی کہ پنجاب حکومت کے خرچے پر نوجوانوں کے دل جیتے جائیں مگرلیپ ٹاٹ لینے والے نوجوان نون لیگ کے حق میں نہیں ہو سکے انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان کے خاندانوں کو اس مقام تک لے آئے ہیں وہ انہیں خود لیپ ٹاپ نہیں لے کر دے سکتے ۔اور یہ لوگ ہماری رقم سے ہمیں لیپ ٹاپ دے کرچاہتے ہیں کہ ہم ان کے حق میں ہوجائیں جنہوں نے ہمیں غربت دی ہے ۔ ہمارے بڑوں سے روزگار چھین لیا ہے ہمارے ملک کوتباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔اگرچہ نواز شریف نے مانسہرہ سے اپنے جلسوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور کامیاب جلسہ کیا ہے مگر نواز شریف کے جلسوں کی کامیابی کے پیچھے ان کی روایتی سیاست کار فرما ہے جہاں جلسے میں شریک ہونے والے اپنے چوہدریوں ،ملکوں سرداروں اور وڈیروں کے کہنے پر شامل ہوتے ہیں ۔اور ان میں سے اکثریت میں ووٹ بھی انہی کے کہنے پر دینے والے ہوتے ہیں ۔مگر سر پھرے نوجوان اس مرتبہ اس روایتی سیاست کے خاتمہ پر پوری طرح کمر بستہ ہیں ۔یقینا یہ انتخابات تبدیلی کی بشارتیں اپنے دامن میں بھر لائے ہیں ۔
تازہ ترین