• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چینی اور آٹے کے بحران پر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں وزیراعظم کے قریبی رفقا کو چینی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور یہ انکشاف سامنے آیا کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر ملوں نے سبسڈی اور چینی کی ایکسپورٹ سے پیدا ہونے والے بحران میں اربوں روپے کا منافع کمایا۔ واضح رہے کہ کچھ ماہ قبل چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف عوام اور اپوزیشن کے احتجاج پر وزیراعظم عمران خان نے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں 6رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا جس کی رپورٹ گزشتہ دنوں منظر عام پر آئی۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ چینی کی ایکسپورٹ کے نتیجے میں ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور چینی کی قیمت 20روپے اضافے سے 76روپے فی کلو تک پہنچ گئی جس سے مذکورہ بالا افراد کی شوگر ملوں کے علاوہ دیگر شوگر ملوں نے بھی اربوں روپے کا ناجائز منافع کمایا۔

کسی نے سچ کہا ہے کہ لالچ اور ہوس کی کوئی حد نہیں۔ اگر شوگر ملز مالکان صرف سبسڈی تک ہی محدود رہتے اور مزید لالچ کرکے چینی کا مصنوعی بحران پیدا نہ کرتے تو شاید تحقیقات کی نوبت نہ آتی۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ پی ٹی آئی کے برسر اقتدار آنے کے کچھ ہی ہفتوں بعد ای سی سی نے ایک ملین ٹن شوگر ایکسپورٹ کرنے کی سمری منظور کی جس کی منظوری وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ سے لے لی گئی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ گنے کی پیداوار کم ہونے کے باعث چینی ایکسپورٹ ہونے کی صورت میں ملک میں چینی کی قلت کا اندیشہ تھا۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پنجاب کابینہ کے جلد بازی میں بلائے گئے اجلاس میں شوگر کی ایکسپورٹ پرسبسڈی کو صوبائی وزیر خزانہ اور خوراک کی مخالفت کے باوجود منظور کروایا اور من پسند شوگر ملز مالکان نے پنجاب حکومت سے چینی کی ایکسپورٹ کے نام پر 3ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی جبکہ 70فیصد چینی افغانستان ایکسپورٹ ظاہر کی گئی۔ اس طرح جہانگیر ترین کی شوگر ملز کو 78کروڑ روپے، خسرو بختیار کے بھائی کی ملز کو 45کروڑ روپے اور مونس الٰہی سمیت دیگر افراد کی ملز کو کروڑوں روپے پنجاب حکومت کے خزانے سے ادا کئے گئے۔ اسکینڈل میں ملوث جہانگیر ترین کا شمار عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے اور وہ ڈی فیکٹو ڈپٹی پرائم منسٹر تصور کئے جاتے تھے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ جہانگیر ترین نے اپنے عہدوں کو ناجائز اور ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا اور ان کے اثر و رسوخ سے چینی پر سبسڈی کی سمری جلد بازی میں منظور ہوئی۔ جہانگیر ترین ٹاسک فورس برائے زراعت کے چیئرمین بھی رہے اور ان کی بنائی گئی پالیسیوں کے باعث پاکستان سے کاٹن ختم ہو گئی جس کی جگہ شوگر کین نے لے لی۔ جہانگیر ترین نے جب مشرف دور میں سیاست میں قدم رکھا تو ان کی صرف ایک شوگر مل تھی جو اب بڑھ کر 6سے زائد ہو چکی ہیں۔ حالیہ اسکینڈل سے قبل سپریم کورٹ انہیں اثاثے چھپانے کے الزام میں نااہل قرار دے چکی ہے جبکہ اس سے قبل وہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی انسائیڈر ٹریڈنگ میں بھی ملوث رہے جس پر SECPنے ان پر جرمانہ بھی عائد کیا۔

جہانگیر ترین کو چیئرمین ٹاسک فورس برائے زراعت اور خسرو بختیار کو وفاقی وزارت فوڈ سیکورٹی کا عہدہ دینا Conflict of Interest (ذاتی مفاد) کے زمرے میں آتا ہے۔ اِسی طرح ندیم بابر جو خود آئی پی پیز کے مالک ہیں، کو معاون خصوصی برائے انرجی اور عبدالرزاق دائود جن کی اپنی کمپنیوں نے سی پیک کے ٹھیکے لے رکھے ہیں اور وہ وزیراعظم کے ہمراہ چین جاکر اپنی کمپنیوں کو پروموٹ کرتے ہیں، کو وزارت تجارت کا عہدہ دینا بھی ذاتی مفاد کے زمرے میں آتا ہے۔ دنیا میں یہ اصول وضع ہیں کہ اگر کوئی بزنس کرنے یا اپنے کاروبار کو توسیع دینے کا خواہشمند ہو تو وہ کوئی عوامی عہدہ نہ رکھے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرے کیونکہ ایسے افراد کو عہدہ دینا بلے کو دودھ کی رکھوالی پر مامور کرنے کے مترادف ہے۔

حالیہ اسکینڈل کا ذمہ دار صرف جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے بھائی کو ٹھہرانا کافی نہیں بلکہ اس کا ذمہ دار وہ شوگر کارٹل مافیا بھی ہے جو برسہا برس سے ملک کے غریب عوام کو لوٹ رہا ہے اور یہ کارٹل اپنے بے پناہ سیاسی اثر و رسوخ کی بناپر ہر دور میں سبسڈی بھی لیتا رہا ہے اور مصنوعی بحران پیدا کرکے چینی کی قیمتیں بڑھاکر عوام سے اربوں روپے بھی بٹورتا رہا ہے۔ حکومت ابھی تک ان باتوں کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکی کہ جب اسے یہ علم تھا کہ ملک میں چینی کی قلت پیدا ہوسکتی ہے تو چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے کردار پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں جنہوں نے مخالفت کے باوجود چینی پر سبسڈی کو جلد بازی میں منظور کروایا۔ایف آئی اے کی حتمی رپورٹ 25اپریل کو متوقع ہے تاہم اس دوران شوگر مافیا کے اپنے ذاتی ملازمین، ڈرائیور اور سیکورٹی گارڈز کے ناموں پر بے نامی اکائونٹس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن بھی سامنے آئی ہے۔ یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں سبسڈی کلچر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ملک کا امیر طبقہ اور صنعتکار مختلف حیلے بہانوں سے سبسڈی کی مد میں حکومت سے اربوں روپے بٹور رہا ہے جس کا بوجھ غریب عوام اٹھارہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت ہمیشہ کیلئے ان کارٹلز کو سبسڈیز دینا بند کرے اور ماضی میں انہیں دی گئی سبسڈیز اُن سے سود سمیت واپس لی جائے کیونکہ اِسی طرح پاکستان میں معاشی ترقی ممکن ہے۔

تازہ ترین