• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آنے والے پچاس ساٹھ دنوں میں پاکستان کے بالغ ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں جوالفاظ سب سے زیادہ استعمال کریں گی ان میں سرفہرست لفظ ”تبدیلی“ ہوگا اور گزشتہ 65 سالوں میں بھی یہی بدنصیب لفظ سب سے زیادہ استعمال کیاگیا ہے اوربتایا جاتا ہے کہ یہ لفظ اپنے بے جا اور غلط استعمال کی کثرت سے اپنے معانی سے محروم ہوچکاہے۔ جس زمانے میں لفظ ”تبدیلی“ کے کچھ معانی ہوتے تھے اس زمانے کے اخترحمید خان مرحوم آف اورنگی پراجیکٹ کے شاگرد اورکراچی کے معروف ”ٹاؤن پلانر“ جناب عارف حسن کا کہنا ہے کہ اب ضرورت پاکستان کے منصوبہ سازوں اور منصوبہ بازوں کی غریب عوام سے نفرت میں تبدیلی لانے کی ہے۔ جب تک یہ تبدیلی نہیں آئے گی کوئی تبدیلی نہیں آسکے گی۔
غریبوں کو سیاست دانوں کی طرف سے اورمنصوبہ سازوں کی جانب سے اظہار عشق کی ضرورت نہیں ہمدردی کی ضرورت ہے جبکہ منصوبہ سازوں کے پاس غریبوں کے لئے صرف ”ٹریکل ڈاؤن اکانومی“ یعنی چھلک جانے والی معیشت ہے جس کے تحت امیر طبقوں کوزیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے والی منصوبہ سازی ہوتی ہے اوریہ امید رکھی جاتی ہے کہ امیرطبقوں کو پہنچنے والے فائدے چھلک جانے سے غریبوں تک پہنچ جائیں گے جیسے چھلک جانے والی خوراک کیڑوں مکوڑوں تک پہنچ جاتی ہے مگر چھلک جانے والی معیشت سے کیڑے مکوڑے، کیڑے مکوڑے ہی رہتے ہیں جبکہ معروضی حالات میں کچھ کیڑے مکوڑے سانپ اور بچھو بھی بن جاتے ہیں چنانچہ منصوبہ سازوں کو خوداپنے تحفظ کے لئے بھی غریبوں کو غربت سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔جناب عارف حسن کاکہنا ہے کہ ہمارے معیشت دانوں کوغریبوں سے نفرت کارویہ تبدیل کرنا چاہئے ان کے خیال میں غریبوں سے نفرت کا رویہ ہمیں نئی آبادیوں کی تعمیر، ہاؤسنگ ا ور سڑکوں کی تعمیر سے بھی دکھائی دیتا ہے۔ عارف حسن کے مطابق بڑے شہروں میں غریبوں کے لئے رہائشی سہولتوں کی تعمیر عام طور پر وہاں کی سب سے قیمتی اراضی پرکی جاتی ہے۔ اصل مقصد یہ ہوتاہے کہ یہ رہائشی سہولتیں غریبوں کے کام نہ آئیں اورامیر طبقوں کی ملکیت میں چلی جائیں۔ مثال کے طور پر کراچی میں پورٹ ٹرسٹ اور ریلویز کے قبضے کی بے شمار اراضی غریبوں کے تصرف میں نہیں آسکتی۔ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے قواعد وضوابط بھی ناداروں اور غریبوں کے حق میں نہیں ہوتے صرف اورصرف مستقل معقول ملازمت حاصل کرنے والوں کے حق میں جاتے ہیں چنانچہ غریب طبقہ مسلسل اور متواتر غربت کی آخری لکیر سے نیچے غرق ہوتاچلاجاتا ہے۔بلاشبہ کراچی میں کم و بیش دولاکھ ہاکرز، چھابڑی فروش اور خوانچے والے ہوں گے مگر ان کے بچوں کے سر چھپانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ان کے حالات کی ”تبدیلی“ کاکسی کو کوئی خیال نہیں آتا۔ انہیں پارکوں، باغوں، بازاروں اور شاہراہوں سے زبردستی ہٹایاجاتا ہے تاکہ امیروں کو حاصل ہونے والے فائدے سے چھلک جانے والی کوئی چیزبھی ان غریب لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔آنے والے عام انتخابات میں تبدیلی کے منشور پیش کرنے والوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو ”ٹریکل ڈاؤن اکاونومی“ (چھلک جانے والی معیشت) کو تبدیل کرنے کے کسی ارادے یا فیصلے کا اعلان کرسکے۔ موجودہ سسٹم میں رہ کر انقلاب اگر مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور وینزولا کے ہوگوشاویز برپا نہیں کرسکے تو اپنے انتخابی منشور میں تبدیلی لانے کا ارادہ ظاہر کرنے والے بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ موجودہ نظام معیشت میں رہتے ہوئے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ ہورہا ہے اور ایک خاص حد سے آگے نہیں جاسکتا اور تبدیلی اس خاص حد سے آگے ”نوگو ایریا“میں ہوتی ہے۔
تازہ ترین