• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت پاکستان جمہوری سیاست کے ارتقاء کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے۔الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی ہیئت ترکیبی سے لے کر عمران خان کے جلسے تک یہ حقیقت واضح ہوتی جا رہی ہے کہ درمیانہ طبقہ سیاست میں اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ تاریخی حقیقت بھی یہی ہے کہ درمیانے طبقے کی وسعت،گہرائی اور فیصلہ سازی میں حصہ داری جمہوری اداروں کی اساس بنتی ہے۔الیکشن کمیشن اور نگران سیٹ اپ میں درمیانے طبقے کے نسبتاً شفاف اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مزین افرادکی شمولیت خوش آئند قدم ہے۔
روایتی سیاستدانوں کی ناکامی کے بعد ایک لحاظ سے تو اچھا ہی ہوا کہ آخرکار الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعظم کا انتخاب کیا۔ اس سے درمیانے طبقے کی پیشہ ورانہ فیصلہ سازی کی اہمیت مزید اجاگر ہوئی۔ اگرالیکشن کمیشن نے بھارت کی طرح کے نتائج دیئے تو شاید نگران حکومتیں قائم کرنے کی مستقبل میں ضرورت ہی نہ پڑے۔ دنیا کی ہر بڑی جمہوریت میں برسراقتدار حکومتوں کی موجودگی میں ہی الیکشن ہوتے ہیں اورکسی نگران سیٹ اپ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بھارت ہو یا برطانیہ حکومتی پارٹیاں ریاستی کاروبار کو اگلی حکومت کے آنے تک چلاتی رہتی ہیں اور امریکہ میں تو الیکشن کے دو ماہ بعد تک پرانا صدر ہی حکومتی معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
ان ممالک میں نگران حکومت کی ضرورت اس لئے محسوس نہیں ہوتی کہ ریاست کے دوسرے ادارے بالخصوص الیکشن کرانے والے ادارے آزاد اور بااختیار ہوتے ہیں۔ اگر امریکہ میں کوئی امیدوار قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پہلے تو الیکشن کمیشن اس کے لتّیلیتا ہے اس کے بعد عدالتیں اس کا ناطقہ بند کر دیتی ہیں۔ بھارت میں تو الیکشن کمیشن اتنا بااختیار ہے کہ کلیدی پوزیشنوں پر لوگوں کے تبادلے کر سکتا ہے،کسی بھی ادارے کو مخصوص حکم یا طرزعمل اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ وہ پارٹیوں اور امیدواروں کے اخراجات کی مسلسل پڑتال کرتا ہے اور اگرکوئی خلاف ورزی کرتا پکڑا جائے تو اسے سزا دیتا ہے۔
پاکستان میں الیکشن کمیشن کے آزاد و بااختیار ہونے کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ عملاً فوج ہی نگران وزرائے اعظم لاتی رہی ہے وہ معراج خالد ہوں، معین قریشی ہوں یا بلخ شیرمزاری وغیرہ۔ یہ نگران حکومتیں جو بھی کرتی رہی ہیں ان کے بارے میں درست یا غلط تاثر یہی رہا ہے کہ وہ فوج کے ایجنڈے کو پورا کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ عین الیکشن کے دوران مخصوص سیاسی پارٹیوں کی کردارکشی کے لئے منفی فائلیں عوام کے سامنے لانا یا پرانے مقدمات کو زندہ کرنا ان حکومتوں کا دستور رہا ہے لیکن اب جب الیکشن کمیشن کو آزاد ادارہ بنا دیا گیا ہے تو ماضی کے تجربات کے پیش نظر ہر پارٹی اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ چاہتی تھی۔ ان کو خوف تھا کہ اگر مرکز یا صوبوں میں متحارب سیٹ اپ قائم ہو جاتا ہے تو وہ ان کی زندگی حرام کر دے گا، ان پارٹیوں میں سے بعض اپنی مرضی کے سیٹ اپ سے ناجائز فوائد بھی حاصل کرنا چاہتیہوں گی۔بعض حلقوں میں یہ تاثر گہرا ہے کہ نگران حکومت چند مہینوں میں الیکشن کروا کر فارغ نہیں ہو جائے گی بلکہ وہ کچھ سال تک موجود رہے گی۔ اس تاثر کے پیش نظر بھی بہت سی پارٹیاں نگران سیٹ اپ کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لے رہی تھیں۔ ہمارے خیال میں ایسا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، الیکشن وقت پر منعقد ہوں گے اور نگران سیٹ اپ ختم ہو جائیں گے۔
نگران سیٹ اپ الیکشن کمیشن کے مستقبل کے لئے بہت اہم ہے۔ ابھی تک الیکشن کمیشن آزاد تو ہو گیا لیکن وہ بااختیار نہیں ہوا مثلاً وہ بھارت کے الیکشن کمیشن کی طرح غیر موزوں افسروں کے تبادلے نہیں کر سکتا یا قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزاوار نہیں ٹھہرا سکتا۔ اگر ماضی کے تجربات کے برخلاف نگران حکومتوں نے الیکشن کمیشن کو کاغذی شیر میں تبدیل نہ کر دیا اور اسے بھارت کی طرح کے اختیارات دے دیئیگئے تو یہ عمل پاکستانی جمہوریت کے ارتقاء کے لئے بڑااور اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔
نگران حکومتوں،الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا آپس میں رشتہ کافی پیچیدہ ہو سکتاہے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس طرح سابق حکومت عدلیہ کے احکامات کو نظر اندازکرتے ہوئے اس کے الٹ چال چلنا شروع کر دیتی تھی اگر نگران حکومت نے ایسا نہ کیا تو سابق حاکموں کے لئے کافی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں مثلاً اگر سپریم کورٹ نے رحمن ملک کی توہین عدالت پر معافی کو رد کرتے ہوئے ان پر چارج شیٹ عائدکر دی (ہے؟) تو پیپلزپارٹی کی حکومت ان کو بچانے کے لئے کوئی ترکیب نکال سکتی تھی لیکن اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ نگران حکومت کا اس پر کیا ردعمل ہو گا۔ اسی طرح کے نگران حکومتوں اور ان کے تحت چلنے والے اداروں کے فیصلے ازخود الیکشن کمیشن،سپریم کورٹ اور الیکشن کے امیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل میں بھی بہت کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ویسے تو نگران حکومتوں میں درمیانے طبقے کی باصلاحیت شفاف شخصیات کی شمولیت جمہوریت کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اصل آزمائش الیکشن کمیشن کی ہے کہ کیا وہ سپریم کورٹ کی طرح کا آزاد اور بااختیار ادارہ بن سکتا ہے یا نہیں؟ بظاہر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو حکومت کے شعبوں میں انتظامی اختیارات میں دخل اندازی کا حق دینے کے لئے تیار نظر آتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نگران حکومت کا ردعمل کیا ہوگا، کیا وہ اس کی مزاحمت کریں گی یا اس کو تسلیم کر لیں گی۔ اس پہلو سے نگران حکومتوں کا کردار تاریخی ہو گا اگر وہ الیکشن کمیشن کو بااختیار ادارے کے طور پر کام کرنے دیتی ہیں تو وہ ملک میں ایک اور بنیادی ادارہ قائم کر دیں گی وگرنہ یہ عمل مستقبل میں سرانجام پائے گا۔
نگران حکومتوں کو مستقبل کی جہت کا اندازہ عمران خان کے23 مارچ کے کامیاب جلسے سے بھی ہو جاناچاہئے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ تحریک انصاف کا یہ جلسہ پہلے سے زیادہ بڑا یا چھوٹا تھا،اس میں جوش وخروش کم یا زیادہ تھا لیکن ایک امر یقینی ہے کہ یہ درمیانے طبقے کے لوگوں کا بہت موثر سیاسی اظہار تھا۔ ستّر کی دہائی کے بہت سے سیاسی خواب دیکھنے والے (آئیڈلسٹ) اس پارٹی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اس میں جمعیت طلبہ کے پینل سے پنجاب یونیورسٹی میں الیکشن لڑنے والے جاوید ہاشمی بھی ہیں اور بائیں بازو کے پینل سے ان کے مدمقابل انور چوہدری بھی ہیں جو اب گوجرہ سے ایم این اے کا الیکشن لڑنے کے لئے عزم کر رہے ہیں۔ ویسے تو مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی کمیٹی کے پرویزرشید، خواجہ آصف،خواجہ سعد رفیق وغیرہ بھی درمیانے طبقے سے ہی ہیں۔ یہ مزید ثبوت ہے کہ درمیانہ طبقہ ریاستی فیصلہ سازی میں آگے بڑھ رہا ہے۔ نگران حکومتوں کا بنیادی فرض ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو بااختیار تسلیم کرنے میں مدد کریں اور ابھرتے ہوئے درمیانے طبقے کے خوابوں کو مسمار نہ ہونے دیں۔
تازہ ترین