• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے یہ واقعہ پڑھا اور تھوڑا سا تدبر کیا تو یوں لگا جیسے اس میں علم و حکمت اور معرفت کا دریا بہہ رہا ہے۔ یہ مسلمہ حکمت صرف دنیاوی مسائل کا حل ہی نہیں بتاتی بلکہ عاقبت سنوارنے کا نسخہ بھی سمجھاتی ہے۔

یوں تو حضرت علیؓ علم کا باب بلکہ علم کا سمندر ہیں ان کا بیان کردہ ہر لفظ حکمت کا امین ہوتا ہے اور اپنے اندر معانی کا سمندر رکھتا ہے لیکن یہ واقعہ قدرے منفرد ہے اور کلامِ الٰہی کی منفرد تشریح و توضیح ہے۔ ایسی تشریح اور توضیح صرف اور صرف وہی مردانِ حق کر سکتے ہیں جن پر کلامِ الٰہی بیت گیا ہو۔

جنہوں نے حکمتِ الٰہی سمجھنے کے لئے زندگی وقف اور صرف کر دی ہو، جنہیں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے یہ توفیق عطا کی ہو اور اپنے خزانوں سے علم عطا کیا ہو۔ اس واقعے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن مجید تو مسلمانوں کی اکثریت پڑھتی اور تلاوت کرتی ہے لیکن کلامِ الٰہی میں پوشیدہ حکمت کے انمول موتی اور خزانے ان کو سمجھ آتے ہیں بلکہ ان پر منکشف ہوتے ہیں جن پر اللہ پاک کا خاص کرم ہوتا ہے۔

قرآن پاک کے الفاظ پر تدبر، گہرا تدبر اس کی پہلی شرط ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ تدبر کے باوجود انسان ان الفاظ میں پوشیدہ حکمت تک رسائی حاصل کر سکے کیونکہ عام طور پر دلوں پر تالے یا مہریں لگی ہوتی ہیں۔

وہ پردہ اللہ پاک کے خاص فضل وکرم اور پرخلوص مجاہدات و عبادات سے ہٹتا ہے یا پھر کسی صاحبِ نظر کی دعا سے، یا پھر نگاہ سے ...انسانیت کے افضل ترین مقام پر متمکن صحابہ کرامؓ کو یہ مرتبہ حاصل تھا کہ ان کے ذہن، باطن اور قلب ہر قسم کی مہر، تالے اور پردے سے صاف ہو کر منور ہو گئے تھے اور ان پر کلامِ الٰہی کی حکمت اپنے پورے جلوئوں کے ساتھ بے نقاب ہوتی تھی لیکن اس حوالے سے ان کے بھی اپنے درجے تھے اور ہر صحابیؓ کا اپنا اپنا مقام تھا۔حضرت علی ؓتو مولا علیؓ ہیں، ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنا ہم جیسے دنیاداروں کے بس کا روگ نہیں۔

واقعہ یوں ہے کہ حضرت علیؓ چند احباب کے ساتھ مدینہ منورہ میں تشریف رکھتے تھے۔ ملاقاتیوں اور علم و حکمت کے طلب گاروں کے لئے دروازے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔

ایک شخص آیا اور کہا ’’علیؓ بہت گناہ گار ہوں۔ کیا کروں کہ گناہ معاف ہو جائیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’استغفار کرو‘‘ اس نے سنا، سمجھا اور مطمئن ہو کر چلا گیا۔

دوسرا شخص آیا کہا مفلسی اور غربت بہت ہے، فرمایا استغفار کرو۔ وہ سن کے واپس لوٹ گیا، پھر تیسرا شخص آیا اس نے کہا علیؓ اولاد نہیں ہے جواب دیا استغفار کرو۔ وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔

چوتھا شخص آ گیا پریشان اور مغموم چہرے کے ساتھ عرض کیا ’’علی ؓبڑی مشقت سے باغ لگایا تھا اس پر دن رات محنت کی، باغ خوب سرسبز ہوا اور خوب پھل لگا۔ پھر بادِ سموم چلی اور باغ مرجھا گیا، پھل برباد ہو گیا‘‘ حضرت علی ؓ نے جواب دیا ’’استغفار کرو۔ اللہ پھل دے گا‘‘۔ وہ بھی سن کر رخصت ہو گیا۔

اتنے میں ایک اور شخص مدینہ منورہ کے کسی قریبی گائوں سے آن پہنچا۔ کہا، علیؓ ہم گائوں والوں نے بڑی محنت سے نہر کھودی تھی۔ وہ اچانک خشک ہو گئی ہے۔ کیا کریں؟ حضرت علیؓ نے اسے بھی کہا ’’استغفار کرو‘‘ وہ ابھی نکلا ہی تھا کہ پاس بیٹھے ہوئے احباب میں سے ایک نے حضرت علیؓ کا گھٹنا دبایا اور کہا کہ آپ کیا کر رہے ہیں، ہر کسی کے مسئلے کا ایک ہی حل بتا رہے ہیں۔

اب یہ ہے وہ جواب جو صرف ایسی ہستی دے سکتی تھی جس پر قرآن مجید کلامِ الہٰی کا اصل مفہوم، حکمت اور علم منکشف ہو چکا تھا اور جو منشائے الٰہی کو سمجھتا تھا۔

حضرت علیؓ نے اپنے ساتھی سے کہا ’’کیا آپ نے قرآن مجید نہیں پڑھا۔ ذرا سورہ نوح کی آیات 10تا 12پڑھو اور دیکھو کہ اللہ پاک نے کیا وعدہ کیا ہے۔

ان آیات میں اللہ پاک نے فرمایا ’’سو میں نے کہا استغفار کرو (معافی مانگو) اپنے رب سے، یقیناً ہے وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا۔ برسائے گا وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش، نوازے گا تمہیں مال و اولاد سے اور پیدا کرے گا تمہارے لیے باغ اور جاری کر دے گا تمہارے لیے نہریں۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں کہ نہیں امید رکھتے تم اللہ سے بڑائی کی‘‘۔

جس ساتھی نے گھٹنا دبایا تھا، حیران ہو کر ہلا کہ یوں لگتا ہے جیسے سورہ نوح آج پہلی بار سنی ہے۔ حضرت علیؓ کا جواب تھا، نہیں! سنی پہلے بھی تھی لیکن دل پہ تالے لگے ہوئے تھے، اس لئے سمجھ نہیں آئی۔

سچ یہ ہے کہ استغفار کنجی ہے بخشش کی، دنیاوی کامیابیوں اور مشکلات و مسائل کے حل کی اور استغفار کنجی ہے اللہ پاک کے خزانوں کی۔ انسان استغفار کی کنجی سے اللہ پاک کے خزانے کھول کر جو چاہے لے سکتا ہے، جن میں مال و دولت اور اولاد بھی شامل ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ نبی تو معصوم اور پاک ہوتے ہیں۔

اس کے باوجود ہمارے نبی کریمﷺ دن میں ستر بار استغفار کرتے تھے۔ وہ اللہ کے حبیب، رحمۃ للعالمین اور نبی آخر الزماں تھے لیکن اس کے باوجود خود اللہ پاک نے انہیں سورۃ النصر میں فتح کی خوشخبری سنا کر فرمایا ’’اور دیکھ لو تم نبیؐ لوگوں کو کہ داخل ہو رہے ہیں وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج، تو تسبیح کرو تم اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور استغفار کرو (بخشش مانگو)، بےشک وہی ہے توبہ قبول کرنے والا‘‘ عذاب بھی اللہ پاک کی جانب سے ہوتا ہے، حدیث نبوی ؐ کے مطابق رسول اکرمؐ نے جن پانچ چیزوں سے پناہ مانگی ان میں سب سے پہلی وبا تھی۔

فرمایا، جس قوم میں بےحیائی پھیلتی ہے وہ طاعون اور طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ سورہ انفال کی آیت 33کے مطابق اللہ عذاب دینے والا نہیں جبکہ لوگ استغفار کرتے ہوں۔

مختصر یہ کہ استغفار صرف گناہوں اور سزائوں کی معافی ہی کا قرآنی نسخہ نہیں بلکہ اللہ پاک کی برکات، رحمتوں اور انعامات کے حصول کا بھی بہترین ذریعہ ہے اور وبائوں اور عذاب سے نجات حاصل کرنے کا مجرب وظیفہ بھی۔

تازہ ترین