• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجیب لوگ ہیں یہ انگلستان والے۔ ہر روز اُٹھتے بیٹھتے کورونا کے ہاتھوں مارے جانے والوں کے اعداد و شمار سن رہے تھے۔ تعداد بڑھتی چلی جا رہی تھی ، یہی حالت تشویش کی بھی تھی کہ اچانک ایک انکشاف ہوا کہ وائرس کی زد میں آکر مرنے والوں کی جو تعداد روز کے روز بتائی جارہی تھی اس میں وہ بوڑھے، نڈھال، نحیف و نزار لوگ شامل نہیں تھے جو بوڑھے لوگوں کے نرسنگ ہومز میں رہتے ہیں۔ پتا چلا کہ صرف ان لوگوں کی تعداد بتائی جارہی ہے جو اسپتالوں میں اپنی جان سے جارہے ہیں۔ اس پر تو پوری قوم بھڑک اٹھی۔ اخباروں نے بڑی بڑی سرخیاں لگائیں: بوڑھے کسی شمار قطار میں نہیں؟ کیا ان کو ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے؟ ہماری بزرگ نسل چشم پوشی کا شکار ہے۔ ایک ٹیلی وژن چینل پر کہا گیا: کسی کمزور میمنے کو قصائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے بعد حکومت کے اہل کار طرح طرح کی صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔ جب معاملے کی چھان بین شروع ہوئی تو تشویش ناک انکشاف ہوئے۔ مثلاً بوڑھوں کے نرسنگ ہومز میں ضعیفوں کا جو حال ہے سو ہے، ان کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کو جس طرح حالات کے حوالے کرکے بھُلا دیا گیا ہے وہ تو اور زیادہ افسوس ناک ہے۔ نہ ان کو حفاظتی لباس دیا گیا ہے، نہ موزوں ماسک دستیاب ہیں، سب کے سب وائرس کے نشانے پر ہیں، کتنے ہی مر کھپ گئے، کسی کو خبر تک نہیں۔ پھر اور خبریں ملیں۔ ان اقامت گاہوں کے اہل کاروں اور کارکنوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو معلوم ہوا کہ انہیں حفاظتی لباس نہ صرف قیمتاً دیا جارہا ہے بلکہ اوپر سے وہ ٹیکس تک لیا جارہا ہے جو یہاں وی اے ٹی کہلاتا ہے یعنی ایک قسم کا سیلز ٹیکس۔ لوگوں کو پہلی بار پتا چلا کہ برطانیہ میں ضعیف مردوں اور عورتوں کی دیکھ بھال کے سنٹر ہزاروں میں ہیں اور ان میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں۔

جن دنوں یہ وبا نمودار ہوئی اور اس نے برطانیہ میں پنجے گاڑنا شروع کیے اس وقت بھی ایک بحث چلی تھی مگر فوراً ہی دب گئی تھی۔ بحث یہ تھی کہ اسپتالوں میں ہر عمر کے مریض آرہے ہیں ان میں جوان بھی ہیں اور ضعیف بھی۔ اب علاج کرنے والے کیا کریں۔ وقت اور وسائل دونوں پر لگائیں یا بوڑھوں کو ان کے حال پر چھوڑیں اور جوان مریضوں پر دھیان دیں؟ اس وقت ذرا دھیمے لہجے میں یہ جواب ملا تھا کہ اگر مقابلہ سخت ہو تو جوانوں کو پہلے بچایا جائے۔ بات آئی گئی ہوئی۔ مگر اب جو حال کھلا تو علمِ طب کے سارے نئے پرانے اصول یاد آنے لگے۔ مثلاً مریض مریض ہوتا ہے، رئیس ہو چاہے گداگر۔ دوسرے یہ کہ چاہے اس کی سانس اکھڑ رہی ہو، اس کو بچانا معالج کا فرض ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم پر کورونا کا حملہ ہوا اور انہیں آئی سی یو میں جانا پڑا مگر یہ بات بار بار جتائی گئی کہ ان کی جگہ کوئی بےگھر مفلس ہوتا تو اس کی دیکھ بھال اسی طرح ہوتی لیکن اس بوڑھوں کے قصے نے کئی راز کھول دیے۔ ایک یہ کہ اسپتال میں مرنے والے بوڑھوں کی آل اولاد کو ان کے پاس آنے کی اجازت نہیں، خاندان کے افراد آخری لمحوں میں ان کو خیر باد کہہ سکیں، یہ بھی ممکن نہیں، بوڑھی بیوی آخری لمحوں میں شوہرکا ہاتھ تھام سکے، یہ نہیں ہو سکتا۔ جب اس پر اعتراض ہونے لگے تو اتنی سہولت دی گئی کہ جب بزرگ آخری سانسیں لے رہا ہو تو دو نرسیں اس کے سرہانے موجود رہیں اور اسے خدا حا فظ کہیں۔ یہ منظر اب بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ضعیف مریض کے رشتے دار شیشے کی کھڑکیوں میں جھانک رہے ہیں کہ شاید کہیں اس کی جھلک نظر آجائے۔ بعض اولڈ پیپلز ہومز میں مرتے ہوئے مریضوں کو ٹیلی فون کی سہولت دے دی جاتی ہے۔ قریب آنے کا مطلب یہ ہے کہ بزرگ کے سرہانے موجود رہنے والوں کی جانیں خطرے میں ہیں۔

لوگوں نے اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے مگر خطر ناک حل۔ وہ مریض کو گھر ہی میں رکھتے ہیں، وہیں دیکھ بھال کرتے ہیں، سینے سے لگاتے ہیں، ہاتھ تھامتے ہیں اور اپنے ہاتھوں اس دارِ فانی سے رخصت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی برادری ہی میں رہ کر چل بسے۔ مرنے والوں کی بڑی تعداد میں ان کو بھی شمار نہیں کیا جاتا۔ رنگ دار نسل کی آبادیوں میں اس طرح آخری الوداع کہنے کا چلن عام ہو چلا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ بعد میں ان کے اہلِ خانہ کو ان کے حال پر چھوڑا جاتا ہے یہ پھر کوئی قرنطینہ ان کا ٹھکانا بنتا ہے۔

برطانوی قوم زیادہ جذباتی نہیں لیکن گھر کے بزرگوں سے ان کا لگاؤ ہم لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔ انہیں سنبھال کر رکھتے ہیں، ان کے بعد ان کی تصویریں سنبھالتے ہیں اور آج بھی ان کے قبرستانوں میں بےشمار قبروں پر تازہ پھول رکھے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی باقاعدگی سے آتے رہتے ہیں، اور یہی نہیں، بزرگ کا چہیتا کتّا بھی قبر پر حاضری دیتا ہے۔

عجیب لوگ ہیں یہ انگلستان والے۔

(تازہ خبر یہ ہے کہ حکومت کو اپنا رویہ بدلنا پڑا ہے۔ اب جاں بلب مریضوں کے رشتے داروں کو آخری لمحات میں ان کے سرہانے موجود رہنے کی اجازت ہوگی۔ سب ہی کا مطالبہ تھا کہ جن پر نزع کا عالم ہو انہیں خدا حافظ کہنے کا رشتے داروں کو حق ہونا چاہئے)

تازہ ترین