اخباروں اور میڈیا کی خرابی یہ ہے کہ جو کچھ حکومتیں ظاہر نہیں کرتیں وہ سب سے زیادہ ان پر خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعہ ظاہر ہو جاتا ہے مثلاً اٹلی میں 60ڈاکٹر اور اسی قدر نرسیں نگہداشت وارڈوں میں کورونا کا لقمہ بن گئیں۔
وجہ یہ ہے کہ چاہے پاکستان ہو کہ اسپین یا اٹلی، وائرس کے شکار مریضوں کے ساتھ، نرسیں خاص کر باقاعدہ یونیفارم اور تحفظ نہ ملنے پر خود وائرس کا شکار ہو جاتی ہیں۔ حال ہی میں لندن میں دو نرسیں جو تین تین بچوں کی مائیں تھیں، وائرس کا شکار اس لئے ہو گئیں کہ تحفظ کا پورا اہتمام نہ تھا۔
پاکستان میں پیرا میڈیکل اسٹاف کے علاوہ وہ سارے خاکروب جو دن رات مصروف رہتے ہیں، کو بھی مخصوص یونیفارم نہیں دیے گئے۔
بی بی سی نے ایک نرس کا انٹرویو لیا ہے کہ وہ روتے ہوئے کہہ رہی ہے میں نے دوسری دوستوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پاکستان میں حکومت کے بقول 9لاکھ بندے بغیر کسی رجسٹریشن کے گھوم رہے ہیں، اسی سیلاب کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کو خوف ہے کہ یہ تعداد بہت بڑھ سکتی ہے۔
یہ تو جسمانی موت کی کہانیاں ہیں مگر وہ جو ریڑھی یا رکشہ چلاتے تھے یا سڑک پر درخت کے نیچے کرسی رکھ کر لوگوں کے بال اور داڑھیاں بناتے یا وہ جو میرے جیسوں کے سڑک کنارے جوتے گانٹھتے تھے، پٹھان اور افغان جو جوتے پالش کرتے اور پھلیاں بیچ کر اپنا گزارا کرتے تھے۔
رکشہ، ٹیکسی چلانے والوں کے علاوہ سفیدی کرنے والے، سڑک کنارے مشین رکھ کر فوٹو کاپی کرنے والے، ٹیلیفون سم بیچنے والے یا چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹس کیلئے سڑک پر کھڑے نوجوان گاڑیوں کو روک کر آرڈر لینے کیلئے دوڑتے‘ یہ سب گھر کی روٹی کیسے چلا رہے ہیں؟
مجھے یہ تو بتائیں کہ سرکاری پٹواری، مقامی حکومتوں کے نمائندے، زراعت، اریگیشن کے محکمے کے ملازمین، ہر محلے کی مسجد کے امام کیوں نظر نہیں آرہے؟ یہ سب لوگ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اندرونِ خانہ جانتے ہیں، یہ جو ستر ہزار یونیفارم رضاکاروں کیلئے سلوائی جارہی ہیں، یہ ان گھروں میں تقسیم کریں جہاں پہننے کو دوسرا جوڑا نہیں ہے۔
چلیں آپ میری تلخ باتیں نہیں سننا چاہتے، پریوں کی کہانیاں مجھے آتیں نہیں، اپنی ہی یادداشت کا کٹورا الٹا کرتی ہوں کہ اب تو ٹی وی کے پروگرام بھی نہیں رہے۔ مجھے یاد ہے ہم لوگ انڈیا مشاعروں میں جارہے تھے، عباس تابش کے ساتھ ایک نوجوان آیا، سہما سہما سا، جلدی جلدی ویزا فارم بھرتا اور عباس کی آواز باربار ابھرتی، یار گھبرائو مت۔
آپا یہ بہت اچھا شاعر ہے۔ میں نے مسکرا کر عباس کی شاباش کی شہادت دی۔ یہ بات ہے آج سے 13برس پہلے کی۔ وہ نوجوان اور خوبصورت شاعر جو بعد میں میرا باقیوں کی طرح چھوٹا بھائی بن گیا، اس کی شاعری کبھی چندی گڑھ، کبھی شملہ اور کبھی امرتسر میں، کنول جیت اور امرپال بھائی کے ساتھ ساری ساری رات سنی۔ اس قافلے میں جتنے شاعر تھے، وہ سب گفتگو کے بھی غازی تھے۔ فقرے پر فقرہ اور شعر پر شعرآرہا تھا، سفر کٹ رہا تھا۔
وہ ذہین شاعر شکیل جاذب تھا جو دنیا کیلئے تو بہت بڑا افسر ہے مگر نمی دائم کے خالق سے آپ کی ملاقات کرواتی ہوں۔ ویسے تو بہت سی خواتین کے علاوہ کئی نوجوانوں کا استاد عباس تابش ہے،اس لئے غزل میں وزن کی ساری ذمہ داری اس کے سر۔
البتہ غزل میں شکیل نے خود کو جگہ جگہ اشارے دے رکھے ہیں کہ وہ کلاسیک سے آشنا ہے اور سلیقے سے لفظوں اور تراکیب کو استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ مثلاً جب وہ کہتا ہے کہ سبزہ خط کی چھلکتی ہے طراوت ان میں؍ تیری آنکھوں سے مریضوں کو شفا ملتی ہے۔ یہ شعر پڑھ کر غالب اور صحیفی کا سبزہ خط کا استعمال یاد آتا ہے۔ شکیل کی غزل یہ گفتگو کرتے ہوئے مجھے امریکہ میں انگریزی میں کہنے والے شاعر آغا شاہد علی یاد آجاتے ہیں۔
ان کی انگریزی غزلوں کے دو مجموعے ہی شائع ہوئے اور ان کی غزل گوئی مقبولیت حاصل کررہی تھی کہ وہ 2002میں دماغ میں ٹیومر کے باعث انتقال کر گئے، مجھ سے ملاقات میں کشمیر کو بار بار یاد کرتے رہے کہ ان کی پیدائش سری نگر کی تھی۔ تو وہاں کی ادبی سوسائٹی نے انگریزی میں غزل کا سیشن منعقد کیا۔ مجھ سے اردو میں غزلیں بار بار سنی گئیں۔
کہنے کا مطلب یہ کہ غالبؔ اور فیضؔ کے زمانے تک سیکھنے والوں کیلئے بہت نشانیاں تھیں۔ اس لئے رنج بےادائی، آپڑی پائوں میں زنجیر بیابانی کی۔ بس یونہی اک ضد میں ساری زندگی برباد کی۔ قتل کرکے برسرِ بازار اپنی بیٹیاں کیا جنہیں دنیا میں عزت دار ہونا تھا ہوئے۔ اس لئے پھر اشارہ کرتا ہے۔ میں کہیں اور بھی بسر ہوا ہوں۔
اسی تاثر کو حمدیہ انداز میں لکھا۔ میں تیرے تصور سے تھا بیزار نہ اب ہوں۔ اس طرح حمد، سلام اور منقبت بھی لفظوں کی تراش لئے ہوئے ہے۔ اگر اس قیدِ تنہائی میں کچھ اور نہیں تو یہ شاعری ہی پڑھ لیں۔
شکیل جاذب کی طرح ادل سومرو، خیرپور یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ کافی عمر گزار کر شعری مجموعہ ’میں اپنا وقت بیچتا ہوں‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔کمال مخاطب ہے، جب وہ کہتا ہے شاعری کو فقیر کا کاسہ مت بنائو، الفاظ کی حرمت اور تخلیق کا تقدس ضروری ہے۔
ڈاکٹر سومرو نےکیونکہ سندھ کی دھرتی میں جنم لیا، مگر ذہنی طور پر ترقی پسند ہونے کے ناتے نظم کا عنوان رکھتے ہیں کہ ہر مقبرہ قابلِ تعظیم نہیں ہوتاہے۔ وہ جب نظم لکھتا ہے بچے ووٹ نہیں دیتے اور تھر کے بارے میں یوں کہا تھرپارکر درد کا استعارہ ہے۔
منچھر جھیل، ایشیا کی سب سے بڑی جھیل ہے مگر ہماری بے توجہی کے باعث، اس جھیل کا پانی زہر آلود ہو چکا ہے۔ کورونا جیسی وبائوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسے خدشہ ہوتا ہے کہ شہر بھر قبرستان جیسے ہوتے جارہے ہیں۔ وہ محبت سے یاد کراتا ہے۔ کتابوں سے باہر بھی روشنی ہے۔
کورونا جیسے آشوب میں انجم الطاف کو فیضؔ صاحب یاد آتے ہیں اور انہیں انگریزی کا پیرہن پھیلاتا ہے۔ وکٹر کیرنین سے لیکر کم ازکم 20تخلیق کاروں نے فیضؔ صاحب کا ترجمہ کیا ہے۔