• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل عوام میں تین نعرے بہت مقبول ہیں۔ پہلا،پینسٹھ برسوں میں کچھ نہیں بدلا لہٰذاعوام اب تبدیلی چاہتے ہیں ۔دوسرا،ہم نے بد ترین جمہوریت کا شوق پورا کر لیا ،ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہئے۔ تیسرا،اگر اب بھی لوگوں نے پرانے چہروں کو ہی ووٹ دیا تو پھر یہ ملک کبھی پٹری پر نہیں چڑھ سکے گا۔ان تینوں نعروں میں تھوڑی بہت صداقت تو ضرور ہوگی مگر جو دلائل ان کی حمایت میں دئیے جاتے ہیں وہ خاصے دلچسپ ہیں ۔اگر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے مضحکہ خیز ترین دلائل کا انسائیکلو پیڈیا مرتب کرنے کا کوئی انعا م رکھ دیں تو یقین جانئے ہم یہ انعام بلامقابلہ جیت جائیں گے۔پہلے نعرے کا پہلا حصہ تو نا معقولیت کی حد تک جھوٹ ہے ۔جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان پینسٹھ برسوں میں ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اسے چاہئے کہ وہ فوراًاپنی ایم آر آئی کروائے تاکہ پتہ چل سکے کہ ا س کی عقل ”گٹّوں“ میں سے ہوتی ہوئی کہاں تک جا پہنچی ہے ۔ما سوائے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عفریت کے ،ان پینسٹھ برسوں میں ہم نے ترقی کا جو سفر طے کیا ہے اس کا اندازہ کوئی دودھ پیتا بچہ بھی لگا سکتا ہے ۔چھوڑ دیں صنعتی ترقی کو ،بینکنگ سیکٹر کو ،جی ڈی پی اور درامدات و برامدات کے اعداد و شمار کو ،ایٹمی طاقت کو ،میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کو …صرف اپنے لائف سٹائل پر نظر ڈالیں اور اس کا موازنہ اپنے والدین کے طرز زندگی سے کریں ،طبیعت شاد ہو جائے گی ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ پینسٹھ برسوں میں کچھ نہیں بدلا ان کی اپنی دنیا اس ملک نے بدل دی ،وہ پیدل دھکے کھاتے تھے اب لگژری گاڑیوں میں پھرتے ہیں ،خود کھوتی سکول میں پڑھے تھے اب ان کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ،کبھی انہیں پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں ہوا تھا،آج ان کے ایک ٹائم کے کھانے کا بجٹ کسی غریب کے مہینے کے راشن سے زیادہ ہے ۔اور اگر آپ کو ان ”امراء“کی مثال پسند نہیں آئی تو متوسط طبقے کی مثال لے لیں ۔آج سے بیس تیس سال پہلے کا مڈل کلاسیا ذہن میں لائیں اور سوچیں کہ جس غریب کے گھر میں پانی نہیں آتا تھا ،اس کی بیٹی اب منرل واٹر کی بوتل ہاتھ میں لئے پھرتی ہے ،جس کے پاؤں میں ڈھنگ کی چپل نہیں ہوتی تھی آج وہ دیسی ہی سہی پر برانڈڈ جوتی پہنتا ہے ،جس کے گھر میں فقط ایک بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی ہوتا تھا آج وائی فائی انٹر نیٹ ہے ،جس کے راشن میں پہلے چاول ،دال ،آٹا ،گھی اور دالیں آتی تھیں ،آج چکن نگیٹس،خشک دودھ،پیمپرز اور نوڈلز کے بغیر راشن مکمل نہیں ہوتا۔اور رہی بات غریب کی تو اس زندگی پہلے بھی جہنم تھی اور او ر بھی ہے مگر اب اسے جہنم میں بی کلاس مل گئی ہے۔یقین نہیں آتا تو اپنے ارد گرد کام کاج کرنے والے پانچ غریب ڈھونڈیں اور انہیں کہیں کہ وہ اپنی آج کی زندگی کا موازنہ اپنے ماں باپ کی بیس سال پہلے کی زندگی سے کرکے بتائیں کہ کون زیادہ خوشحال تھا،حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے ۔یقینا سب اچھا نہیں ہے۔لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور اس تبدیلی سے ان کی مراد مزید بہتر لائف سٹائل ہے۔لیکن تبدیلی کی آڑ میں ہر وقت لڑاکا عورتوں کی طرح یہی کوسنے دیتے رہنا کہ ملک میں سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ نہیں ،ایسا ہی ہے جیسے پڑھائی میں کمزور بچے کے جسم کو بید مار کر نیلا کر دیا جائے اور پھر اسے پڑھنے پر مجبور کیا جائے!دراصل ملک میں جو ترقی ہوئی ہے اس کے ثمرات سے ہم سبھی فیض یاب ہوئے ہیں مگر پتہ اس لئے نہیں چلتا کیونکہ گذشتہ دس پندرہ برسوں میں میڈیا نے ہمیں بیرونی دنیا کی ایسی رنگین تصویر دکھائی ہے جس نے ہمیں دم بخود کر دیا ہے۔جب ہم دوسرے ممالک میں service deliveryکا یہ اعلیٰ معیاردیکھتے ہیں کہ ریسکیو کی گاڑی پانچ منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچ جاتی ہے تو پھر ہم بھی یہ مانگ کرنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا!اور جب اپنے ملک میں یہ سروس مہیا ہو جاتی ہے تو اس دوران ترقی یافتہ ممالک مزید آگے نکل جاتے ہیں لہٰذا رونا وہیں کا وہیں رہتا ہے ۔سو،تبدیلی کا نعرہ ضرورلگائیں مگر اس کے ساتھ ملک کی تباہی و بربادی کا نوحہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، اگر ماتم کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنی ذات میں سے درجنوں خرابیاں ڈھونڈ کر غم غلط کریں،انشا اللہ افاقہ ہوگا۔دوسرا نعرہ جمہوریت کے خلاف ہے او ربے حد دلفریب ہے ۔تاہم بد ترین جمہوریت کو لتاڑنے سے پہلے ذرا سوچئے کہ آمریت کی مثالی شکل کیا ہوتی ہے ؟ مثالی آمریت جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے بد ترین جمہوریت شروع ہوتی ہے ۔ایک مثالی آمریت میں ڈکٹیٹر سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے ،مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ اسی فرد واحد کی ذات میں ضم ہوتے ہیں ،کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا ۔جبکہ بدترین جمہوریت کے ماڈل میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔عوام جب اس جمہوریت کو گالیاں دیتے ہیں تو وہ دراصل ان دلائل کے زیر اثر یہ کام کرتے ہیں جو معاشرے کے دانشور ان کے دماغ کے پیالے میں شراب کی طرح برسہا برس سے انڈیلتے رہتے ہیں اور ان دانشوروں کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں آمریت سوٹ کرتی ہے کیونکہ ایک ڈکٹیٹر کی قربت حاصل کرنا اس جمہوریت سے کہیں زیادہ آسان ہے جس میں کئی ”تھرڈ ریٹ“ لوگ اسمبلی میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔اپنی گفتگو میں ان لوگوں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہم جمہوریت کے حامی ہیں مگر اس جمہوریت کے نہیں جس میں غنڈے اور بدمعاش اسمبلیوں میں جا بیٹھیں اورعوام کا خون نچوڑیں …اور اس کے بعد وہ جتنے دلائل دیتے ہیں وہ بلا واسطہ آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ عوام چونکہ کم پڑھے لکھے ہیں لہذا جب ان کا مقابلہ کسی پیشہ ور پڑھے لکھے منشی فاضل ٹائپ کسی چیز سے ہوتا ہے تو وہ مضبوط وکٹ پر ہونے کے باوجود دلیل کی طاقت سے اپنا دفاع نہیں کر پاتے ۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سچی بات کرے مگر اس کے حق میں دلیل غلط تراش لے اور اس کا مد مقابل اس دلیل کی کمزوری کی بنا پر سچ کو جھوٹ ثابت کر دے ۔بد ترین جمہوریت کے دفاع میں بھی یہی کمزوری ہے۔
تیسرا نعرہ مزید دلچسپ ہے کہ اگر آپ نے آئندہ الیکشن میں نئے چہروں کو منتخب نہ کیا تو بربادی ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی ۔ اصل میں اس نعرے میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ اگر آپ نے میری مرضی کے ”نئے چہرے“ منتخب نہ کئے تو خدا کی قسم فنا ہو جاؤ گے ۔دلیل کی یہ وہ قسم ہے جس میں دلیل دینے والا اپنے مخالف کو ایک فرضی صورتحال سے ڈراتا ہے جو انتہائی درجے خطرناک ہوتی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہوتا۔اس مخولیہ دلیل کو ”بلیک اینڈ وہائٹ“ بھی کہا جا سکتا ہے جس میں دلیل دینے والالوگوں کے سامنے صرف دو آپشن رکھتا ہے جبکہ حقیقت میں لوگوں کے پاس زیادہ آپشن ہوتے ہیں ۔یہ بالکل ایسے ہی جیسے 9/11کے امریکہ نے باقی دنیا کو تڑی لگائی تھی کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے ۔
ہم لوگ دلفریب نعروں اور جملے بازی پر جان دیتے ہیں ،یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان نعروں میں کوئی جان ہے یا فقط لفاظی اور پھکڑ پن !زبان و بیان کی خوبصورتی میں دلیل تلاش کرنا جوکھم کا کام ہے ، ہمارے دلائل چونکہ ذاتی مفادات سے مشروط ہیں اس لئے حسب ضرورت و حسب ذائقہ تراشے جاتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو 12اکتوبر 1999سے دو ماہ پہلے اور بعد کے کالموں کی فائل نکلوا کر پڑھ لیں ،”حسن مکھڑے توں لا کے نقاب “ سامنے آ جائے گا!
تازہ ترین