• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”جائیدادیں اور فیکٹریاں نہیں بناؤں گا قوم بناؤں گا۔سچ بولوں گادھوکہ نہیں دوں گا۔بیرون ملک جائیدادیں اور کاروبار نہیں بناؤں گا ، پاکستانیوں کی عزت، جان ، مال ، وقارمیرا اوڑھنا بچھونا رہے گا“ یہ تھے وہ الفاظ جو نوجوانوں کے قائد عمران خان 23 مارچ 2013 کو مینار ِ پاکستان کو گواہ بنا کے ادا کر رہے تھے“
23مارچ 1940 عظیم رہنماء کی گرج دارآواز نے کیا ایجنڈا دیا” مسلمان ایک اقلیت نہیں وہ ہر اعتبار سے ایک قوم ہیں ہندو اور مسلمان الگ الگ فلسفہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے“) 22 مارچ 1940 )” مسلمانوں کو اپنے تشخص اور دین کو بچانے کے لیے ایک علیحدہ خطہ چاہیے جہاں وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی آزادانہ کر سکیں“۔مجھے تو اس بات پر فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں اورمسلمانوں کی جنگ لڑ رہا ہوں۔ کیا جنابِ گاندھی یہ بات فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ ”میں ہندو ہوں اور کانگریس کو ہندوں کی حمایت حاصل ہے“ ہندوستان کو اکھٹا رکھنے کا عزم لے کر سیاست کا آغاز کرنے والا ابھرتا نوجوان سیاستدان پیرانہ سالی میں دوقومی نظریے کا علمبردار کیسے بن گیا؟ تاریخ کے یہ سوالات جو معمہ بن چکے تھے بے شمار مفکرین و مورخین کی کاوششوں سے کسی حد تک طشت ازبام ہو چکے لیکن ایک امریکی طالب علم ولیم مرٹز (William Mertz1938-71) نے اپنی ڈا کٹریٹ کے لیے ”قائداعظم کی سیاسی زندگی“ کاانتخاب کیا اوریہ تحقیق کی کہ دو قومی نظریہ قائدکی سیاست کا مقصود منزل کیسے ٹھہرا ؟
تحقیق کا نتیجہ کہ سارے ارتقائی عمل کے محر ک و منبع پیرو مر شد علامہ محمد اقبال تھے ۔اس نوجوان نے جس باریک بینی سے تاریخ انسانی کے ذہین ، فطین، زیرک سیاستدان کے کردارکو گہرائی میں جاکر جانچا پر کھا وہ اپنے طور پر خیرہ کن ہے اورایسی جامع تحقیق جس نے ذہنوں کی گتھیاں سلجھا دیں اور قا ئد اعظم کے سیاسی رجحان میں انقلابی تبدیلی کے عوامل تک رسائی حاصل کر کی۔ دو قومی نظریے کے سارے چشمے اقبال کے پہاڑ جیسے دماغ سے پھوٹے اور آ فریں کہ صدیوں کی بے نو ری کے بعد نمو دار ہونے والے چراغِ رُخ لالہ نے من و عن اس کو قبول کیا اور عام کیا ۔ایسا عام کہ تا ریخ رقم ہو گئی ، جغرافیہ بدل گیا ۔”لا الہ ا لا ا للہ“کامطلب نقش ہو گیا ۔ بلکہ خطہ ارضِ پاک کی صو رت میں سامنے آ یا ۔ستاروں پر کمند کی تحریک پاکستان کی تخلیق ہی کے لیے تو تھی ۔23 مارچ کو منٹو پارک میں قائداعظم نے جو وعدہ کیا۔ 14 اگست کو ایک زندہ حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے ایفاء ہو چکا۔ پاکستان جو ایثا ر ، قربانی، اخوت، بھائی چارہ، دیانت، صداقت ، کے ضا بطوں کا عملی نمونہ ٹھہرا ۔آج کہاں کھڑا ہے ؟۔خیانت ، لوٹ مار ، ذاتی مفا دات، قتل و غا رت ، بد ا منی، لا قا نو نیت ، فرقہ واریت ، علا قا ئی منا فرت ، لسانیت۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔ہٹ دھرمی اور جہالت کا گٹھ جوڑمحض اس لیے موثر کہ قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کرکے اداروں اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکا جا سکے ۔ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ ، سرکاری خزانے کی لوٹ مار، اقتدار کی طاقت پر فیکٹریاں لگانا، جائیدادیں بنانا پھر سرکاری خزانے کے بل بوتے پر ان کو جنت بے نظیر بنانا اور گردونواح میں پیرس سٹائل سڑکیں بنانا حاصل ِ سیاست رہا۔اقوال زریں دیکھیں ”کھلاڑی، اناڑی، مداری کو نہیں آنے دیں گے“۔ چمپئن کھلاڑی کی تکلیف تو سمجھ میں آتی ہے ۔ قائدمحترم آپ سے بڑا اناڑی اور صدرِ محترم سے بڑا مداری کوئی ہے۔یادش ِ بخیر پچھلے ادوار تورونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ مداری نے اناڑیوں کو اپنی ڈگڈگی پر پانچ سال رقص کر وایا ہے ۔ سوا لاکھ روپے کے عوض سوا لاکھ جھوٹ بولنے سے کو ّا سفید نہیں ہو جائے گا۔ انعام اللہ خان مالکوں کی زیر نگرانی کالم لکھنے والے نیم خوا ندہ کو قانونی نوٹس بھجوانے پر مصرہیں۔ اس سے پہلے ایک اخبار کے دونابغوں کو قانونی نوٹس جا چکے ہیں ۔میں نے انعام اللہ خان کو سمجھایانوٹس کے لیے آگے بندے کی بھی کوئی اوقات ہو نی چاہیے ۔یہ لوگ رحم کے مستحق ہیں جو برضا و رغبت رزق کو پراگندہ کر بیٹھے ہیں ان کے لئے یہی زناٹے دار تھپڑا کافی ہو گا جب چند روز بعد آپ کے کا غذات ِنا مزدگی پر اعترا ضا ت مسترد ہو جائیں گے ۔
اگر ن لیگ کا پورامیڈیا سنڈیکیٹ اور نظام میرے کالم سے ہل چکا تو یہ سا را تیرا کرم ہے مولا کہ ”ہما ری بات بھی“ بن گئی ہے ۔ میراجھگڑا کرایہ داروں سے نہیں مالک مکان سے ہے۔ یہ آپ کا رونا دھونا آہ و بکا واویلا عمران خان کے اوپر غصہ کوئی نیکی تقویٰ یا ایمان کا جزو نہیں ناجائز کمائی کی بھوک ہی کا نتیجہ ہے۔ ہمارے علاقے کا ایک آدمی اپنے باجرے کے کھلیان کی حفاظت کر رہا تھا ۔چڑیاں تھیں کہ چین لینے نہیں دیتی تھیں۔ خان صاحب نے غصے میں چار نمبر کا کارتوس فائر کیا تو زخمی اور باقی زندہ بچنے والی چڑیوں کی چیں چیں بڑھ گئی۔ خان صاحب خوش ہو کر بولے ”باجرے دے خڑلی دی، اوس چیں چیں کو ّے“ یعنی رونا تھا تو باجرہ کھانے سے پہلے احساس کرلینا تھا۔ میرے کالم پر آپ حضرات کی چیں چیں سمجھ آتی ہے ۔
علامہ اقبالمستقبل کے انقلاب کو بھانپ چکے تھے۔
جو ہے پر دوں میں پنہاں ، چشم بینا دیکھ لیتی ہے
زمانے کی طبیعت کا تقا ضا دیکھ لیتی ہے
73 سال بعد23مارچ عمران خان کی پاٹ دار آ واز دوبار ہ اقبال کے پیغام کو عام کر رہی تھی۔
کسی یکجائی سے اب عہد ِ غلامی کرلو
ملت ِ احمد ِ مرسل کو مقامی کرلو
تبدیلی کا نہار طلوع ہونے کو تھا بدقسمتی کی لیل تحلیل ہونے کو تھی۔اجتماع میں سکوت ، بے قراری، بے چینی ، سینکڑوں ہزاروں میلوں کا سفر چٹکی میں گزرا لیکن قائد کے لیے انتظار لمحے گھنٹوں پر بھاری لگ رہے تھے ۔ ایک عجیب سماں لاکھوں انسانوں کا سمندر چودہویں کے چاندکی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔ ارتعاش دیدنی تھا۔ پیغام ایک ہی تھا لاالہ الااللہ کو سمجھ لو اور آزاد ہو جاؤ ۔ بے خوف ہو جاؤ ، بے لوث ہو جاؤ۔جناح ایسا لیڈر جس کو اقتدار اپنی قوم کے لیے چاہیے تھا۔ کیا73 سال بعد قوم کو پھر ایک ایسا رہنماء میسر آگیا جس کا مقصود اپنی قوم کو اقتدار میں لانا ہے ،کیا یہ انہونی ہونے کو ہے؟کیا تبدیلی حقیقت کا روپ دھار نے کو ہے ۔ تبدیلی کا پیامبر قوم کے درمیان کھڑا قوم کو جھنجھوڑ رہا تھا۔ سوئی قسمت کو جگا رہاتھا ۔ تاجر، سوداگر، پیشہ ور چوروں کو للکار رہا تھا۔تبدیلی آچکی ۔11جون فیصلے کا دن ، فیصلہ ہو چکا ۔
میرے پچھلے کالم پر بہت لے دے ہوئی۔ میں نے اس کالم میں یہ اعادہ کیا تھا کہ عمران خان اس قوم کی آخری امیداور گندے لوگ عمران خان جیسے نادر زمانہ کی پارٹی میں نہیں پنپ سکتے ۔ اگر سوداگروں ، تاجروں، امریکی گماشتوں،پر اپرٹی ڈیلروں ، خانہ بدوشوں نے شبِ خون ما را تو قوم برباد ہوجائے گی ۔یعنی بری شہرت کے حامل سیاست کو کاروبار سمجھنے والے ہر گز تحریک انصاف کی پناہ میںآ کر اپنے آپ کو محفوظ تصور نہ کریں۔ ان کی نشاندہی اس لیے ضروری ہے کہ یہ قوم مزید کوئی ٹھیس برداشت نہیں کر پائے گی ۔
انیس دم کا بھروسہ نہیں، ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
ایک وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ خان صاحب کی فیملی کو بلا وجہ اور غیر ضروری طریقے سے زدوکوب کیا جا رہا ہے۔ مخصوص مفادات کو پروان چڑھانے والے سن لیں کہ پچھلے سولہ سال میں خان صاحب کی فیملی نے نہ تو تحریک سے کچھ لیا ہے اور نہ کچھ لینے کی آرزو رکھتی ہے ۔میری ذات کی حد تک ٹیکسٹا ئل ایکسپورٹ سے لے کر آج سلیکا ریت بیچنے تک میرا کاروبار نہ دوستوں کی مر ہون منت ہے اور نہ رشتہ داروں کی ۔حلقہ احباب اور تعلقات سارے ذاتی ہیں ۔کوئی بتا دے کہ حفیظ ا للہ خان نے کاروبار یا دوست بنانے کے لئے کسی رشتہ دار کا سہارا لیا ہو البتہ رشتہ داروں کے معا ملات میں ان کی تقویت ضرور پہنچائی البتہ یہ ہمارا فخر ہے کہ خان صاحب کی سیاست کو چار چاند لگانے کے لیے فیملی ہمہ تن دامے درمے سخنے اپنی استطاعت سے زیادہ حصہ ڈال چکی ہے۔میانوالی سے عمران خان نے 2002میں NA-71 سے انتخاب لڑنے کا ارادہ کیا ۔میانوالی نے اپنا بیٹا جانا اور67000ووٹ دے کر اسمبلی بھیجا ۔جبکہ متصل حلقہ NA-15کرک سے خان صا حب کو 9000ووٹ ملے وجہ فقط اتنی کہ عمران خان میانوالی کا بیٹا اور دادا جان ڈاکٹر محمد عظیم خان میانوالی کے سپوت تھے۔ آج جب پو را پاکستان تبدیلی کی آمد پر رقصاں ہے تو میانوالی بھی اپنی دھاک جمانے کے لئے یکسو ہو چکاہے ۔البتہ الیکشن کے دہانے پر خان صا حب کا میانوالی کا حا لیہ دورہ تکلیف دہ تھا ۔ڈاکٹرشیر افگن اپنی زندگی میں عمران کے خلاف سر فراز نواز سے زیادہ غلیظ زبان استعمال کرتا رہا۔ اس کی تصویر کے ساتھ عمران کی تصویر طبیعت کو مکدر ہی تو کر گئی ۔ اگر اپنا گھردائیں بائیں کھڑا ہو تا تو میانوالی میں 24مارچ 2012کے انعام ا للہ خاں کے جلسے کا ریکارڈ ٹوٹ جاتا ۔شا ید میانوالی کو ناراض ہونے کا سلیقہ آ گیاہے۔ 23مارچ کے سونامی کے بعد25 مارچ کو چند ہزار لو گوں کے سامنے اور بھی میانوالی اپنے آبائی شہر میں کاش یہ ٹل جاتا۔ خان صاحب کی زندگی تو اخلاص کا منبع ہے ۔جن لو گوں نے بھی ایسی ہزیمت کا بندو بست کیا ہے ان سے میرا ایک ہی سوال ہے کہ تحریک انصا ف نے آ پ کا کیا بگاڑا تھاجو آ پ نے ایسا بھیانک بدلہ لیا۔جس شاخ پر آپ تشریف فرما ہو اس کو کاٹ کر اپنی ہی موت ہی کو دعوت دو گے۔خان صا حب آپ نے دہائیوں کے بعد قوم کو حو صلہ دیا ہے ،امنگ دی ہے ، تڑپ دی ہے ، امید کا پیغام دیا اور جنون کا درس دیا ہے۔ابھی اس جنون نے آ تش نمرود میں کو دنا ہے آپ کی طاقت جنونی نو جوان ہیں۔تبدیلی خا نہ بدو ش نہیں عوام ا لناس اور نو جوان ہی لے کر آ ئیں گے ۔ یہی آپ کا 23مارچ 2013 کا پیغام ہے ۔ا ٓپ کے چا ہنے والے آبگینے ہی تو ہیں بس ان کو ٹھیس نہ لگنے پائے ۔
تازہ ترین