• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ جس پارلیمینٹ میں جماعت اسلامی کی نمائندگی ہوتی ہے اس پارلیمینٹ کا وقار اور معیار بہت بڑھ جاتا ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے چار ارکان تھے اور چاروں کے چاروں یگانہ روزگار، ایک سے بڑھ کر ایک ۔ان میں پروفیسر غفور احمد ، ڈاکٹر نذیر شہید، محمود اعظم فاروقی اور صاحبزادہ صفی اللہ جیسی شخصیات شامل تھیں۔سقوط ِ مشرقی پاکستان کے بعد جب مغربی پاکستان کے ارکان پر مشتمل یہ اسمبلی آئین کی تشکیل کے لئے سر جوڑ کر بیٹھی تو جماعت اسلامی کے تمام ارکان اسمبلی نے بالعموم اور پروفیسر غفور احمد نے بالخصوص حکمت، تدبر، معاملہ فہمی اور شیریں بیانی سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ۔دائیں اور بائیں بازو کے تمام ارکانِ قومی اسمبلی کو ایک اسلامی، جمہوری اور وفاقی آئین پر متفق کر لیا۔ یوں سقوطِ مشرقی پاکستان کے زخموں سے چور چور قوم کو 1973ء کے متفقہ آئین کی صورت میں ایک بڑی خوشخبری ملی اسی طرح بحالی جمہوریت اور نظریہٴ پاکستان کی بلندی وسرفرازی کے لئے جتنے بھی اتحاد قائم ہوئے اُن میں جماعت اسلامی پیش پیش رہی۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جماعت اسلامی کے زعماء نے پہلی بار باور کیا کہ شوکت اسلام جیسے بڑے بڑے جلوس اور جلسے انتخابی کامیابی کی ہرگز ضمانت نہیں کیونکہ یہاں ووٹ دینے کے پیمانے بہت مختلف ہیں۔ اس کے ساتھ جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ دینی حلقوں کی مخالفت کوکم سے کم کیا جائے اور اُن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مفاہمت پیدا کی جائے۔ انہی مقاصد کے لئے جماعت اسلامی کے ایک دینی رہنما مولانا گلزار احمد مظاہری کی سربراہی میں جمعیت اتحاد العلماء قائم کی گئی جسے مشرقی ومغربی پاکستان میں بہت پذیرائی ملی۔ علمائے کرام سے مفاہمتی پالیسی کا شجر ثمر بار قاضی حسین احمد کی انتھک کاوشوں سے اس وقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچا جب مولانا شاہ احمد نورانی کی سربراہی میں متحدہ مجلس عمل وجود میں آئی اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس دینی اتحاد کو قابل رشک کامیابی نصیب ہوئی ۔صوبہ خیبر پختونخوا میں مجلس عمل کی حکومت قائم ہو گئی اور قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں ہونے کے بنا پر اسے حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت قرار دیا گیا اور مولانا فضل الرحمن اس کے قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے۔میں قاضی حسین احمد کی خوئے دلنوازی کا اسیر تھا اور مرحوم مجھ سے شفقت بھی بہت فرماتے تھے مگر جب انہوں نے 2002ء کے انتخاب میں ایم ایم اے کی شاندار کامیابی اور صوبہ سرحد میں پانچ سالہ حکومت کے بعد یکدم 2008ء کے انتخاب کے بائیکاٹ کا عندیہ دیا تو مجھ سمیت قاضی صاحب کے لاکھوں مداحوں کو شدید دھچکا لگا۔ میں نے اس موقع پر”نوبائیکاٹ“کے عنوان سے کالم لکھا میں نے کالم میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی  کا حوالہ دیا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ تبدیلی قیادت کا واحد راستہ انتخابات ہیں، انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ وقت نے فقیر کی بات کو درست ثابت کر دیا کہ 2002ء کی اسمبلی میں جس طرح ایم ایم اے کی پارلیمانی پارٹی قومی اسمبلی میں حکومتی اقدامات کا احتساب کرتی اور تعمیری تجاویز پیش کرتی تھی اس کا عشر عشیر بھی 2008ء کی اسمبلی میں دیکھنے میں نہیں آیا۔2002ء کی حکومت میں سراج الحق جیسا متقی شخص وزیر خزانہ تھا جو قومی خزانہ کو مسلمانوں کی امانت سمجھتا تھا اور اس کی پائی پائی کا محافظ تھا مگر 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی جماعت اے این پی کی حکومت پانچ سال برسراقتدار رہی تو صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو اس دور کی کرپٹ ترین صوبائی حکومت قرار دیا گیا ہے۔زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں آج بھی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام مل کر ایک زبردست سیاسی قوت ہیں اور دونوں الگ الگ ہو جائیں تو ان کی حالت بقول علامہ اقبال
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
2002ء کے انتخابات میں دونوں نے مل کر شاندار کامیابی حاصل کی تھی اور جب 2004ء کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی اورجمعیت علمائے اسلام نے غیروں سے مل کر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو دونوں جماعتوں کو عبرت ناک شکست ہوئی۔آج پھر مجھے اور مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کو حیرت ہوئی کہ جب جماعت اسلامی صوبہ خیبرپختونخوا میں دینی جوش جذبے سے معمور وہاں کی دوسری مقبول ترین دینی جماعت جمعیت علمائے اسلام سے اتحاد کرنے کے بجائے ظاہری گلیمر سے مرعوب ہو کر پی ٹی آئی سے انتخابی پینگیں بڑھانے کی بات کر رہی ہے۔عمران خان فی الواقع صادق وامین ہیں مگر انہیں جلسوں کی بھرپور حاضری سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہئے کہ انتخابی کامیابی اُن کے دروازے پر دستک دے رہی ہے ۔یہاں انتخابی کلچر بالکل مختلف ہے جس کا انہیں اندازہ نہیں۔ زمینی حقائق یہی ہیں کے صوبہ خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی کی فطری اتحادی جمعیت علمائے اسلام اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) ہے ۔سیّد منور حسن سے بڑھ کر اس حقیقت سے کون آشنا ہو گا کہ انتخابات توسیع دعوت کے لئے نہیں کامیابی کے لئے لڑا جاتا ہے۔ اس وقت پنجاب میں بہت سی سیٹوں پر مسلم لیگ (ن)کاووٹ بنک مضبوط ہے جبکہ پنجاب کے ہی مختلف اضلاع میں ایک بڑی تعداد میں ایسی سیٹیں بھی ہیں جہاں جماعت اسلامی 2002ء میں نمبرون یا نمبر ٹو پوزیشن پر تھی۔ وہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بجائے سیّد منور حسن سال سوا سال میں دو بار چل کر گئے اور انہو ں نے عمران خان کے درِدولت پر حاضری دی۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ پنجاب کا وہ سروے کرالیں کم از کم وہاں قومی اسمبلی کی تقریباً چالیس پچاس سیٹیں ایسی ہیں جہاں جماعت اسلامی کے امیدوار دوسروں سے آگے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو جماعت اسلامی کے مضبوط امیدواروں اور مخلص کارکنوں کا بھرپور تعاون حاصل کرکے اپنی انتخابی کامیابی یقینی بنانی چاہئے۔ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی انتخاب کے چراغ کو الہ دین کا چراغ سمجھتے تھے مولانا عالم اسلام کو بھی یہی بات سمجھاتے رہے کہ عرب دنیا میں جب جمہوریت اور آزادانہ انتخابات کا چراغ جلے گاتو حکومت اور آمریت کے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ جماعت کے نامناسب فیصلے سے آج مولانا مودودی کے جس چراغ سے آج مصر، تیونس اور لیبیا وغیرہ میں چراغاں ہو رہا ہے ، پاکستان میں اُسی چراغ تلے اندھیرا والی ٹریجڈی نہ ہو جائے۔ 1977ء کے انتخابات میں کراچی میں قومی اسمبلی کی سیٹ پر پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہونے والی شخصیت صبح منور ،شام منور روشن تیرا نام منور کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح انہوں نے کل سب سے زیادہ ووٹ لے کر اپنا اور اپنی جماعت کا نام روشن کیا تھا آج پھر انہیں وہی امتحان درپیش ہے۔ اس امتحان میں اُن کی کامیابی کا معیار جلسے جلوس اور گلیمر نہیں زیادہ سے زیادہ ووٹ ہی قرار پائے گا۔ سیّد منور حسن جتنے زیادہ سے زیادہ جماعتی امیدواروں کو اسمبلیوں میں پہنچائیں گے اتنا ہی اُن کا نام روشن ہو گا تاہم ابھی تک تو اُن کی جماعت کے امیدوار اور کارکنان گومگو کا شکار ہیں اور انہیں معلوم نہیں کہ اُن کی جماعت کہاں کھڑی ہے۔ غالباً اُن کی جماعت پنجابی محاورے کے مطابق بارات دروازے پر آچکنے کے بعد دلہن کان چھیدنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہی ہے۔ ہم نے جماعت اسلامی کی ایک اہم شخصیت سے پوچھا کہ کیاجماعت اسلامی کی پی ٹی آئی سے ایڈجسٹمنٹ فائنل ہے تو انہوں نے کہا کہ فائنل تو کیایہ سیمی فائنل بھی نہیں۔ ابھی ہمیں اور پارٹیوں کا ہوم ورک بھی چیک کرنا ہے، دیکھئے جماعت کا پروانہ کدھر جاتا ہے۔
تازہ ترین