• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان نے مینار پاکستان کے 23مارچ کے جلسے میں اپنی پارٹی کا جو قرآنی فلسفہ ”ایاک نعبد وایاک نستعین“ (ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں) عام کیاہے وہ بنیادی طورپر خالق کائنات کی لامحدود اورناقابل پیمائش طاقت پر یقین کامل اور کسی اور قوت پر انحصار کرنے کی بجائے اسی ایمان سے انسانی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کا فلسفہ ہے۔ اسی پر کاربند ہوکرافراد اورقومیں خودی اورخودانحصاری کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ ملّاؤں نے توہمارا تصورِ عبادت نماز، روزہ، زکوٰة اور حج کے بنیادی فرائض سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ قرآن تو فکر و نظر، تحقیق و تجسس کو بھی عبادت قراردیتا ہے۔ اس کی ادائیگی سے انسان اللہ کی ان بیش بہا نعمتوں تک رسائی کرتا ہے جن کاذکر بار بار قرآن میں آیا،یوں انسانی فلاح کے دروازے کھلتے ہیں۔ فلاح فقط اپنی اور آنے والی اولادوں کی ہی ہو تو یہ وہ فتنہ بن جاتی ہے جس سے معاشرے کی محرومیاں شروع ہوجاتی ہیں۔حق حکمرانی سے فقط ملک و قوم کی خدمت ہی کی جائے تو یقینا یہ عبادتوں سے بڑھ کر عبادت ہے۔ جھوٹ و مکاری خوشامداور خودغرضی کے لئے وفا سے حاصل ہونے والا سماجی مقام اورعطا ہوئے خوشحالی کے پیکیج کبھی انسان کی تسلی نہیں کرتے اور حکمران تخت پر بیٹھے اورتاج پہنے یہ بھی ایک عذاب مسلسل میں رہتاہے۔ نیت شفاف اورمقصد و عمل ملک و قوم اور انسانیت کے دائرے تک وسیع ہو اوراس کے لئے کوششیں بھی مسلسل تو اس کی برکت سے غلاموں پر بھی اسرار شہنشاہی کھلنے لگتے ہیں۔ ایسے مقاصد کے حصول کی جہد کے ہتھیارو اوزار جھوٹ، خوشامد، قصیدہ گوئی، بلاجواز وفا اور تعلقات ِ عامہ نہیں ہوتے۔ سچ، یقین عزم، خودداری و خود انحصاری اور جہد مسلسل سے یہ منزل حاصل ہوتی ہے۔ اللہ پر کامل یقین اور اس کا کھلا اظہار اور اہداف کے حصول کے لئے اس کی ہی مدد کی طلب اور جہد تعاقب کو آخری کامیابی میں تبدیل کردیتی ہے۔
عمران خان نے الیکشن 1997 کے روایتی سیاست کے میدان میں صفر ہونے کے بعد بھی جس عزم اور کمال دلجمعی سے ملک میں دوہرے نظام قانون کی نشاندہی کی اورعدلیہ کی آزادی کو قوم کی مطلوب ترین ضرورت کے طور پر اس کا احساس دلایا، اس مسلسل اظہار حق کی برکت ہے کہ معاشرے میں عدلیہ کی اہمیت کا شعور بھی پیدا ہوا اور اس کی آزادی کے لئے قومی تحریک کی ہمت بھی۔ آج بالائی عدلیہ ریاستی ڈھانچے کا مضبوط ستون بن گئی ہے۔ تحریک انصاف کے قائد نے ڈرون حملوں پر جوسچااور پکا موقف اختیارکیا، باوجود اس کے کہ ان کی اپنی پارٹی کے بھی بعض مخلص اور قدآور کارکن اس پر ڈگمگائے رہے۔ عمران خان کا ڈرونز پر مبنی حق موقف (پاکستان کی خودمختاری و بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی) سرچڑھ کر بولا۔ یہ ہی کچھ اب اقوام متحدہ کی پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں پر تیار کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے تو اس پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارت ِ خارجہ) تبصرہ کرنے کو تیار ہے نہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے حامی لبرل فاشسٹ اورمذاکرات کے مخالفین۔حیرت ہے کہ پی ٹی اے کا میڈیا سیل بھی اپنے قائد کے موقف کی اقوام متحدہ سے توثیق ہونے کے بعد خاموش ہے اوروہ بھی انتخابی مہم میں۔ عمران خان نے قبائلی علاقوں کے نواح میں جا کر حقوق انسانی کے عالمی علمبرداروں کیساتھ ڈرون حملوں کے خلاف جو مظاہرہ کیا، پھر قومی سیاسی رہنماؤں کے لئے بند ہوجانے والے شہروں کراچی اور کوئٹہ میں جا کر جس جرأت سے انہیں کھولااورعزم سے جلسہ کیا اس نے خان اعظم کے عزم صمیم اور قومی سیاست پر اس کے مثبت اثرات کو بہت جلد واضح کردیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف مسلسل آواز اٹھانے پر آج انسداد کرپشن قومی سیاست کے ایجنڈے میں اہم ترین ہے۔ کون اس پرکتنا سنجیدہ ہے؟ ظاہر ہے وہ تو نہیں ہوسکتے جو کرپشن کرتے رہے ۔ اس سے ضرور امید کی جاسکتی ہے جس نے اسے بڑھ چڑھ کر بے نقاب کیا۔ اس پس منظر کے ساتھ عمران خان سے قومی معاملات میں جرأت مندانہ فیصلوں اورعملی اقدامات کی توقع کی جاسکتی ہے۔
23مارچ کے تاریخی جلسے میں عمران خان کا خطاب اپنے مندرجات کے اعتبار سے یکسر غیر روایتی جاری قومی بحران کے حل اور وقت کی قومی ضرورت کے عین مطابق تھا۔ یہ عمران کی اصلی سیاسی، ذہنی و قلبی کیفیت کا بھی مظہر تھا۔ جسے تحریک انصاف کے قائد نے قوم کے ساتھ اپنے 6وعدوں اور عوام سے چار وعدے لے کر انتخابی مہم کی کمٹمنٹ میں ڈھال دیا جو بہت بنیادی، ہما گیر اور Innovative ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی Chronology اور آج کی بیمار قومی سیاست کی حالت پر غور کرنے لگیں تو آمریت بدترین جمہوریت، انتہائی کرپشن، حد درجہ حکومتی نااہلی، کھلی اقربا پروری، میرٹ کا قتل، عملاً دوہرے قانون کا نفاذ ، مہنگائی اور امن و معصومیت کا قتل عام، سب کی سب سے بڑی اورمشترکہ وجہ ہمارے حکمران طبقے کا خطرناک درجے پراخلاقی انحطاط ہے جو نیچے عوام کی بھاری اکثریت تک سرایت کر چکاہے۔ یہ تو درست ہے کہ عمران کے سیاسی ابلاغ کا معیار ان کی شفاف نیت، وسیع النظری اور امانت و دیانت کی موجود بہت حوصہ افزا ڈگری سے تو میچ نہیں کرتا۔ وہ سیاسی قائد کے مطلوب طرز ابلاغ سے کافی نچلے درجے کی ابلاغی صلاحیت کے حامل ہیں لیکن انہوں نے جلسے میں جس طرح بھیگتے اورمسکراتے ہوئے عشروں سے جاری پاکستان کے اصلی روگ ”قومی اخلاقی بحران“ کو ایڈریس کیاہے، وہ کمال ہے۔ انہوں نے اس بحران کے ذمہ داروں اوراس میں لتھڑے ہوئے لیڈروں کی نشاندہی کئے بغیر قوم سے اپنے ہمیشہ سچ بولنے، ظلم کے خلاف جہاد کرنے ، اپنا جینا مرنا پاکستان سے وابستہ کرنے، اپنا ایک ایک پیسہ ملک میں ہی رکھنے، وعدہ خلافی پر قیادت سے ہٹ جانے اور بیرون ملک پاکستانیوں کے وقار کی بحالی کے جو6وعدے کئے ہیں وہ حکومت میں آنے پرنبھا دیئے جاتے ہیں تو یہ پاکستان میں تباہ کن جاری ”قومی اخلاقی بحران“ کے خاتمے کا تیز تر آغاز ہوگا۔ یہ ہی اس کا واحد حل بھی ہے کہ قوم کا حقیقی اور منتخب قائد یہ کچھ کرے گا تو معاشرتی تبدیلی مسکراتی ہوئی بہار کی مانند آئے گی جو عوام کے لئے بہار اورسٹیٹس کو کی شیطانی قوتوں کے لئے سونامی ہوگی۔ واجب سے سیاسی ابلاغ کاحامل ہونے کے باوجود عمران خان کے متذکرہ ابلاغ کی اثر پذیری مطلوب سطح تک ہوتی معلوم دیتی ہے۔ ابلاغی سائنس کے اصول کے مطابق Source credibility (ذریعہ ابلاغ پر اعتماد) کا بلند درجہ، ابلاغی عمل کی دوسری کمیوں کو پورا کردیتا ہے جبکہ عمران (بطور ذریعہ ابلاغ) کی Source credibility کی ہائی ڈگری کااعتراف توان کے شریف مخالفین بھی کرتے ہیں۔ ہر سچ بولنے والے کی یہ ڈگری بلند ہی ہوتی ہے پھر عمران خان کا تو پیغام بھی جاندار بروقت اورمسائل کے مسئلے کا سکہ بند حل ہے۔ یعنی ”دیانتدار اوراہل قیادت“ ابلاغی عمل میں پیغام کا عنصر، پیغام وصول کرنے والوں (عوام) کی ضرورت کے مطابق ہو تو اس کا اپنا اثرہوتاہے اس لحاظ سے عمران خان کا لاہور کا جلسہ کامیاب ترین تھا جو یقینا اکتوبر 2011 سے بڑا بھی تھا۔ چیلنج یہ ہے کہ تحریک انصاف کے قائد نے ”ایاک نعبد وایاک نستعین“ کا جو فلسفہ اوراس کی روشنی میں 6وعدوں کی شکل میں قو م کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کمٹمنٹ کی ہے پارٹی کے ابلاغی معاونین اسے کس طرح عوامی زبان میں ڈھال کر ابلاغی سائنس کے اصولوں کے مطابق اس کا ابلاغ عام کرتے ہیں۔ سب سے اہم ترین یہ کہ اگر عمران خان اپنے ایک اور اہم ترین وعدے کے مطابق مطلوب شفاف امیدواروں کو میدان میں اتارنے میں کامیاب ہوگئے تو اسی سے عمران خان کی اختیا رکی گئی تبدیلی کی اپروچ کا موثر ترین ابلاغ بھی ہوگا اور پاکستانی عوام و خواص کو ہزار سجدوں سے نجات دلانے کے جس فلسفے کا انہوں نے اپنے جلسے میں اعلان کیا ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جاری و ساری ہوجائے تو پاکستان نیا نہیں بنے گا، وہ بنے گا جو مطلوب تھا، جس کے لئے دسیوں لاکھ مسلمان شہید ہوئے، مہاجر بنے اور قربانی وایثار کی ناقابل ریکارڈ داستان تحریر ہوئی اور جو ہمارے اکابرین اور بزرگوں کا خواب تھا۔ یہ اسلامی اور جمہوری بھی ہوگا اور جدید اور فلاحی بھی۔
تازہ ترین