• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا سے انسانی زندگی تو شدید ترین متاثر ہوئی ہی ہے جانوروں اور چرند پرند کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت دہاڑی دار طبقہ جس اذیت میں مبتلا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ حکومت تین ماہ کیلئے مزدوروں کو بارہ ہزار روپے دے رہی ہے لیکن کیا ان بارہ ہزار روپے میں ان کا گزارا ہو جائے گا؟

سینیٹر ڈاکٹر آصف سعید کرمانی بتا رہے تھے کہ وہ ڈیفنس آئے تو انہوں نے وہاں فیز5 میں گول چکر کے پاس کئی مزدوروں اور فقیروں کو بیٹھے دیکھا۔ چنانچہ انہوں نے انہیں کچھ پیسے بانٹ دیے حتیٰ کہ پرس خالی ہو گیا جس کے بعد ان مزدوروں اور فقیروں نے ان کی گاڑی پر زور زور سے ہاتھ مارنا شروع کر دیے اور انہیں گاڑی بھگانا پڑی حتیٰ کہ انہوں نے اپنا خالی پرس بھی دکھایا مگر لوگ گاڑی کے پیچھے بھاگتے رہے۔ جو بیچارے دہاڑی لگا کر ایک دو وقت کی روٹی کما رہے تھے، آج بھیک مانگ رہے ہیں۔ سفید پوش طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔

حکومت مزدوروں کو بارہ ہزار روپے تین ماہ کے دے رہی ہے جبکہ ایک مزدور آج ایک ہزار سے پندرہ سو روپے دہاڑی لے رہا ہے۔ پھر بھی اس کا گزارا مشکل سے ہوتا ہے۔ کیا بارہ ہزار روپے سے تین ماہ تک گزارا ہو جائے گا؟ ملک میں مسائل ہی مسائل ہیں اس لئے کہ 72برس میں کسی حکومت نے ان پر توجہ نہ دی۔ دعوے سب نے کئے۔ ﷲ تعالیٰ رحم فرمائے، اگر کوئی اور وبا آ گئی تو سوچیں کیا ہو گا؟ پچھلے دنوں بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کو ایک اور وبا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کورونا کا ٹیسٹ تکلیف دہ بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ احتیاط کریں، ڈاکٹروں اور حکومت کی ہدایات پر عمل کریں جبکہ ڈینگی کا موسم بھی آ گیا ہے۔ ہمارے ملک میں کبھی اس طرح کی وبائیں نہیں آئی تھیں۔ بہرحال ہم کہہ رہے تھے کہ اس کورونا /سارس ٹو سے جانور، چرند، پرند تک متاثر ہو رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے لاک ڈائون اور ہاسٹلز بند ہونے کی وجہ سے پرندوں کی خوراک فراہم کرنے کے لئے مختلف مقامات پر خوراک اور پانی کے برتن رکھوا دیے ہیں۔ یونیورسٹی بند ہونے کی وجہ سے ان پرندوں کی خوراک کے ذرائع محدود ہو چکے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جامعہ پنجاب کے رئیس ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے بڑی شاندار روایت کا آغاز کیا ہے، دوسری یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ہاں بلیوں اور پرندوں وغیرہ کے لئے پانی اور خوراک کا انتظام کریں، یہ ثواب کا کام ہے۔ اس بحران میں ان جانوروں اور چرند پرند کی خوراک، پانی کا انتظام کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے۔

پچھلے دنوں جماعت اسلامی نے بھی لاہور میں کتوں اور بلیوں کو خوراک ڈالی۔ اس طرح ہم نے ایک پولیس والے کو بھی دیکھا جو کتے کے پلوں کو خوراک ڈال رہا تھا۔ کورونا کی وجہ سے شہروں اور کئی ممالک میں ایسے خوبصورت پرندے بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جو پہلے نظر نہیں آتے تھے۔ سمندروں کا پانی بھی صاف ہونے لگا ہے، فضائی آلودگی میں بھی کمی آئی ہے اور آسمان اور سورج زیادہ شفاف لگنے لگے ہیں۔

کبھی لاہور انتہائی خوبصورت اور خوبصورت باسیوں کا شہر تھا۔ اب اس علم و ادب کے گہوارے میں بعض عجیب و غریب قسم کے لوگ آ چکے ہیں، لاہور میں ایک زمانے میں کئی پارسی خاندان رہائش پذیر تھے۔ لاہور کی ریٹیگن روڈ پر بڑی خوبصورت عبادت گاہ بھی تھی اور ٹیپ روڈ پر پارسیوں کی کوٹھی تھی جس میں تازہ انجیر کے درخت ہوا کرتے تھے۔ وہ شام کو صندل کی لکڑی جلاتے تھے جس سے پورا علاقہ مہک جاتا تھا۔ ہمارے گھر کے ساتھ دو پارسی بہنوں کی کوٹھی تھی، بڑی نفیس خواتین تھیں۔ آج پورے ملک میں صرف چند سو پارسی ہیں۔ کنیئرڈ کالج لاہور میں پارسی کمیونٹی کی پروفیسر پیرن بوگا آخری ٹیچر تھیں جو یہاں چالیس برس تک پڑھاتی رہیں۔ حیات ہیں اور آج بھی سرگرم عمل ہیں۔ کنیئرڈ کالج میں ان کے نام پر ایک ہال بھی ہے۔ لاہور میں اس وقت صرف 20افراد پارسی مذہب کے رہ گئے ہیں۔ کبھی لاہور میں یہ سو سے زائد تھے۔ راولپنڈی میں صرف چھ افراد، کراچی میں 1000، مری اور ملتان میں صرف ایک/ دو افراد رہتے ہیں۔ کراچی میں پارسیوں کی عبادت گاہیں صرف 2، لاہور میں ایک راولپنڈی میں ایک اور ملتان میں کوئی نہیں۔

پارسی قوم زیادہ تر کاروباری ہے اور انتہائی ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔ پاکستان کے حالات دیکھ کر بہت سارے پارسی کینیڈا، یورپ، امریکا اور برطانیہ چلے گئے تھے۔ البتہ بھارت میں ممبئی میں کافی پارسی رہتے ہیں۔

پارسیوں کی آبادی میں آہستہ آہستہ کمی آ رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پارسی زیادہ شادیاں صرف اپنے مذہب کے لوگوں سے کرتے ہیں۔ بانی پاکستان قائداعظمؒ کی اہلیہ رتی جناح بھی پارسی تھیں جو بعد میں مسلمان ہو گئی تھیں۔ البتہ ان کی بیٹی نے پارسی خاندان میں شادی کی تھی۔ پارسی بڑی صاف ستھری اور سلیقہ شعار قوم ہے۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی تعلیم یافتہ قوم ہے۔ راولپنڈی میں پارسیوں کی آمد انگریزوں کے ساتھ شروع ہوئی۔ جب یہاں ہندوستان کی سب سے بڑی چھائونی کی بنیاد 1849ء میں رکھی گئی۔ راولپنڈی کے واحد درجہ اول کے مجسٹریٹ (اعزازی) دھنجی بھائی تھے جبکہ شیخ رشید کی لال حویلی والے سجناں سنگھ اور بخش سنگھ درجہ دوم اور درجہ سوئم کے اعزازی مجسٹریٹ تھے۔ دھنجی بھائی نے تانگہ ایمبولینس سروس متعارف کرائی تھی۔ ان کی تانگہ سروس کمپنی کا نام تھا دھن جے بھائے اینڈ سنز۔ راولپنڈی سے کشمیر تک ان کے تانگے چلا کرتے تھے۔ ان کی سروس سے قبل راولپنڈی سے سرینگر تک 200میل کا سفر 14دنوں میں طے ہوتا تھا، جو ان کی بہترین تانگہ سروس سے 24گھنٹوں میں ہونے لگا۔ کراچی اور لاہور کا ایک فائیو اسٹار ہوٹل بھی پارسی خاندان کی ملکیت ہے۔ آئندہ کبھی اس پر تفصیل سے لکھوں گا۔

تازہ ترین