• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے یہ نام نہاد سفیر جنہیں عرفِ عام میں اوور سیز پاکستانی کہا جاتا ہے، پوری دنیا میں تقریباً 80لاکھ کی تعداد میں آباد ہیں، یہ 80لاکھ پاکستانی 20ارب ڈالر سے زیادہ رقم ہر سال پاکستان بھیجتے ہیں۔ ان کے علاوہ برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، بلجیم، ہالینڈ، اسپین، ڈنمارک، یونان اور دیگر یورپی ممالک میں 22لاکھ سے زیادہ ایسے پاکستانی آباد ہیں جو غیر قانونی ہیں۔ لیکن زرمبادلہ یہ بھی پاکستان بھیجتے ہیں۔ ان دنوں کورونا وائرس کی وجہ سے ان ممالک میں بھی لاک ڈائون کی صورتحال ہے، ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی یورپ، مشرق وسطیٰ، امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں تقریباً سات سو اور یورپی ممالک میں ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جو انتہائی نامساعد حالات میں بھی پاکستان نہیں جا پا رہے حتیٰ کہ اپنے عزیزوں کی میتیں تک پاکستان نہیں لے جا سکتے۔ حکومت پاکستان نے چند فلائٹس کی اجازت برطانیہ کیلئے تو دی ہے لیکن کیا برطانیہ کے علاوہ دیگر ملکوں میں پھنسے پاکستانیوں کو یہ حق حاصل نہیں؟ کیا اوور سیز وزارت صرف برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے ہے؟ حالیہ بے یقینی کی صورتحال میں برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں دیگر ممالک میں پھنسے اپنے شہریوں کی آمد و رفت یا انہیں وہاں سے نکالنے کیلئے چارٹرڈ فلائٹس تک چلا رہی ہیں۔ مسلم لیگ نون کے اوور سیز پاکستانیوں کیلئے چیف کوآرڈینیٹر حافظ امیر علی ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ یورپ میں آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد کورونا وائرس کا شکار اور 70ہزار سے زیادہ انتقال کر چکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آج ہمارے اوور سیز پاکستانیوں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ان کے پیاروں کی ڈیڈ باڈیز کا ہے کیونکہ وہ انہیں پاکستان لاکر دفن کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ اوور سیز پاکستانیوں کے وزیر کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔

درحقیقت معاملہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے اوور سیز اینڈ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی وزارت ہمیشہ ہی سیاسی رشوت کے طور استعمال ہوتی رہی ہے۔ حکومتیں ہمیشہ یہ سمجھتی ہیں کہ اس ’’کھڈے لائن‘‘ وزارت کا تو کوئی کام ہی نہیں، پچھلے ادوار میں ایک بڑے عرصہ تک یہ وزارت ایم کیو ایم کے فاروق ستار اور پھر پیر صدر الدین شاہ راشدی کے پاس رہی لیکن اوور سیز وزیر کے نام پر یہ لوگ خزانے پر بوجھ ہی رہے۔ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا رویہ بھی اوور سیز پاکستانیوں کے ساتھ عضو معطل کا سا ہی ہے، ان سے مشفقانہ رویے کے بجائے انہیں فقط سفیروں کا برائے نام ٹائٹل دے کر شودروں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہر حکومت کی نظر اربوں ڈالر کے اس سرمایہ پر ہوتی ہے جو اوور سیز پاکستانی اپنے وطن بھجواتے ہیں اور اب تو دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں سے الیکشن میں حصہ لینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ اور تو اور ابھی گزشتہ ہفتے لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ کے مطابق ’’ملک میں مستقل رہائش پذیر دہری شہریت والے شہری اوور سیز پاکستانی نہیں ہیں‘‘ پاکستان کے ارباب بست و کشاد کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ 80لاکھ پاکستانی اپنے وطن، عزیزوں اور دوستوں کو چھوڑ کر خوشی سے دیارِ غیر منتقل نہیں ہوئے بلکہ ان میں سے 95فیصد لوگ پاکستان کے معاشی حالات دگرگوں ہونے کی وجہ سے اپنے معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے بے وطن ہوئے ہیں۔

دورِ حکومت کوئی بھی ہو آمرانہ یا جمہوری‘ اوور سیز پاکستانیوں کو ہر دور میں لوٹا گیا ہے، کبھی سیلاب اور زلزلے کے نام پر، کبھی ملک کا قرض اتارنے کے نام پر اور حال ہی میں ’’دیامر بھاشا ڈیم‘‘ کے نام پر۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے قائم کردہ اکائونٹ میں مارچ 2020ء تک 12ارب روپے جمع ہوئے، تو کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ اربوں روپے کہاں ہیں؟ کیا حکومت ان بارہ ارب روپوں کو کورونا وائرس کے تدارک کیلئے استعمال نہیں کر سکتی؟ 80لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کی انتہائی قلیل تعداد کو پتا ہو گا کہ حکومت پاکستان نے ان کی فلاح و بہبود کیلئے کئی دہائیوں سے بے شمار ادارے قائم کر رکھے ہیں، ان اداروں کے بجٹ بھی ہوش ربا ہیں اور ان اداروں کے ملازمین کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ مثلاً 1983ء میں وفاقی محتسب اور تمام صوبوں میں بھی بعد ازاں صوبائی محتسب کے ادارے قائم ہوئے، پھر وفاقی ادارے ’’ایف آئی اے ‘‘ کے اندر ایک ’’سیل فار اوور سیز پاکستانیز‘‘ بنایا گیا، پھر ملک کی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں بھی اوور سیز پاکستانیوں کیلئے علیحدہ ڈیسک قائم ہوئے، پھر ملک بھر کے آٹھ ہوائی اڈوں پر ون ونڈو ڈیسک کا اعلان کہ جہاں وفاقی اداروں کے آفیسر مسائل ایک ہی چھت تلے حل کریں گے، بیرونِ ملک تمام پاکستانی سفارتخانوں کے سربراہوں کو ہدایات جاری ہوئیں کہ ہفتہ میں ایک دن اوور سیز پاکستانیوں کی شکایات سننے کیلئے موجود رہیں، سفارتخانوں میں فوکل پرسن بھی مقرر کئے گئے۔ وفاقی سطح پر ’’او پی ایف‘‘ کے نام سے بھی ایک ادارہ قائم ہے، 2017ء میں چیئرمین بورڈ آف گورنرز برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی بیرسٹر امجد ملک اپنا پورا ٹینیور بغیر تنخواہ کے کام کرتے رہے حالانکہ اس محکمے کا بینک بیلنس اربوں روپے میں ہے۔

اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل خواہ حل ہوں نہ ہوں، ان کی املاک و جائیدادوں پر چاہے قبضے ہوتے رہیں لیکن وزیراعظم ہائوس تک میں اوور سیز پاکستانیز سیل قائم ہے، پھر میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ تلے تشکیل کردہ ’’پنجاب اوور سیز پاکستانیز کمیشن‘‘ بھی قائم ہے، پسند خان بلیدی اس کے کمشنر اور چودھری وسیم اختر رامے وائس چیئر پرسن ہیں اور ان سارے اداروں کے مدار المہام ذوالفقار بخاری ہیں، ذکر کیے گئے یہ سارے ادارے اور اوور سیز پاکستانیز کی وزارت کیلئے ان دنوں تو مسئلہ اول ہی یہ ہے کہ پاکستان اور بیرونِ پاکستان پھنسے ہوئے اپنے لوگوں کی آمد و رفت کو فوری طور پر ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ پاکستان ہائی کمیشن اور سفارت خانوں کو پاکستانیوں کے مسائل و معاملات کے حل کا ٹاسک براہ راست دیا جائے ورنہ آپ کے یہ ’سفیر‘ اندرون و بیرون ملک یونہی لٹتے رہیں گے۔

تازہ ترین