• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے زندگی میں پہلی بار سینما 1987ء میں دیکھا، ملتان کے کچہری چوک پر مرحوم ’’انجمن سینما‘‘ ہوا کرتا تھا، میرے ماموں کا بیٹا فلموں کا بڑا شوقین تھا، وہی مجھے ’’ورغلا‘‘ کر سینما لے گیا جہاں میں نے ندیم اور بابرہ شریف کی ’’مکھڑا‘‘ دیکھی۔ اُن دنوں سینما میں فلم دیکھنے والوں کو لفنگا سمجھا جاتا تھا اور اکثر لڑکوں کی منگنیاں بھی اسی لیے ٹوٹ جاتی تھیں کیونکہ لڑکی والوں کو پتا چل جاتا تھا کہ لڑکا تو اتنا بدمعاش ہے کہ سینما جا کر فلمیں دیکھتا ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے اگر کوئی پکڑا جاتا تو والد گرامی بھی درگت بناتے اور محلے والے بھی قطع تعلق کر لیتے۔ اُن دنوں کویتا، بابرہ شریف، انجمن، سنگیتا وغیرہ ہٹ ہیروئنیں شمار ہوتی تھیں۔ میں نے ’’مکھڑا‘‘ دیکھی تو اگلے ڈیڑھ ہفتے تک میرے خوابوں میں بابرہ شریف ہی آتی رہی اور آتی بھی گانا گاتے ہوئے تھی ’’میں ساری رات جاگاں گی، میں ساری رات جگاواں گی‘‘۔ اُن دنوں وہی گانے مشہور ہوتے تھے جن کی شاعری بھی کمال کی ہوتی تھی۔ احمد راہی، قتیل شفائی، منیر نیازی اور خواجہ پرویز کے گیتوں اور غزلوں نے دھوم مچا رکھی تھی۔ انڈیا کی فلم دیکھنا اسٹیٹس سمبل شمار ہوتا تھا، چونکہ سی ڈیز کا دور نہیں آیا تھا اس لیے VHS (وڈیو کیسٹ) ہی دستیاب تھیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ سینما جانا معیوب سمجھا جاتا تھا جبکہ گھر میں وی سی آر لاکر فلمیں دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ وڈیو سنٹرز جا بجا کھلے ہوئے تھے جہاں سے سو روپے میں وی سی آر، ٹی وی اور چار فلمیں 12گھنٹے کے لیے کرائے پر مل جاتی تھیں۔ خاندان کے لڑکے بالے سائیکل پر وی سی آر اور چار کیسٹیں رکھ کر گھر لے آتے، گھر کے صحن یا بڑے کمرے میں وی سی آر لگایا جاتا، بڑے چارپائیوں پر بیٹھ جاتے اور بچوں کے لیے نیچے دری یا چٹائی بچھا دی جاتی، ایک ’’انجینئر‘‘ لڑکا وی سی آر کا نگران مقرر کر دیا جاتا جو ہر دس منٹ بعد ایک روپے کے نوٹ پر تھوڑا سا پٹرول لگا کر وی سی آر کا ’’ہیڈ‘‘ صاف کرتا، ٹریکنگ کرتا اور اس بات کا دھیان رکھتا تھا کہ کس کس ’’سین‘‘ کو فاسٹ فارورڈ کرکے گزارنا ہے۔ جو لڑکے وی سی آر کے ساتھ چار فلمیں لے کر آتے تھے وہ اکثر چار کے بجائے پانچویں فلم بھی لے آیا کرتے تھے، تاہم اِس کا علم مخصوص اسٹیک ہولڈرز ہی کو ہوتا تھا۔ خواتین کسی رونے دھونے والے سین پر خود بھی رونے لگ جاتی تھیں، ولن سے نفرت اور ہیرو سے محبت کی جاتی تھی۔ ہیرو اگر کسی مشکل میں گِھر جاتا تھا تو فلم دیکھنے والے سچے دل سے اس کی کامیابی کی دعا کیا کرتے تھے۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی اور گھر گھر ڈی وی ڈی پلیئرز، انٹرنیٹ، کمپیوٹرز، کیبل اور سی ڈیز نے ڈیرہ جما لیا۔ ہر فلم سینما کی زینت بننے سے پہلے ہی گرفت میں آنے لگی، دو سو روپے ماہوار پر کیبل نے نہ صرف 80چینلز دکھانا شروع کر دیے بلکہ اب تو دن رات ہر قسم کی فلم کسی نہ کسی کیبل چینل کی زینت بنی رہتی ہے اور اسی چیز نے دلوں کا میٹھا میٹھا درد ختم کر دیا ہے۔ اب اچھی شاعری پر کوئی دھیان نہیں دیتا، آج کل وہی گانا مشہور ہوتا ہے جس کا کوئی سر پیر نہ ہو، پرانے وقتوں میں ایف اے، بی اے کا ہر اسٹوڈنٹ ’’شاعر‘‘ ہوتا تھا، احمد فراز کی ’’جاناں جاناں‘‘ ہر نوجوان کی جان ہوتی تھی، خوبصورتی کا ایک رعب ہوتا تھا، لڑکی کو رقعہ لکھنے سے پہلے کاغذ کو عطر کے چھٹے مارے جاتے تھے، بک اسٹالز پر ’’لیٹر پیڈ‘‘ عام ملتے تھے جس پر نہ صرف خوبصورت نقش و نگار بنے ہوتے تھے بلکہ صفحے کے کونے میں ایک اداس دوشیزہ بھی دکھائی گئی ہوتی تھی۔ اب یہ چیزیں بھی ختم ہو گئی ہیں، گھر گھر فلموں کی بہتات اور دوشیزائوں کی عامیانہ نمائش نے ہماری حسِ جمالیات ہی ختم کرکے رکھ دی ہے۔ اب کسی لڑکی کو میسج کرنا ایک نارمل سی بات ہے، لڑکی سے اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کچھ مشکل نہیں، لڑکیاں بھی مائنڈ نہیں کرتیں کہ اِس میں ایسی کیا بات ہے۔ وہ باپ جو 80ء کی دہائی میں سینما جانے پر اپنے بچوں کو مارا کرتا تھا، اب خود پوری فیملی کے ساتھ کیبل کے سامنے بیٹھ کر ’’جلیبی بائی‘‘ دیکھتا ہے۔ چھ سال کے بچے کو بھی پتا ہے کہ ’’بلتکار‘‘ کیا ہوتا ہے اور ’’گود بھرائی‘‘ کیسے ہوتی ہے۔ ایف ایم ریڈیو چینلز پر یہ سوال پوچھے جاتے ہیں کہ اگر آپ کی گرل فرینڈ آپ سے ناراض ہو جائے تو آپ اسے کیسے منائیں گے؟ میڈیا نے عورت کو دیکھنے کے نت نئے زاویے سمجھا دیے ہیں۔ اب تو خوبصورت دوشیزائوں سے بات کرنا اتنا آسان ہے کہ ٹی وی پر باقاعدہ لائیو کالز کے لیے نمبر دیے جاتے ہیں کہ فون کرو، پیسے بھرو اور جی بھی کے باتیں کر لو۔ کیا وجہ ہے کہ اتنے ایڈوانس ہو جانے کے باوجود آج بھی ہم اکیلی لڑکی کو باہر بھیجتے ہوئے ڈرتے ہیں، آج بھی بڑی بہن اپنے چار سالہ بھائی کو ضرور ساتھ لے کر نکلتی ہے، آج بھی تین چار لڑکیاں مل کر شاپنگ کے لیے جاتی ہیں، آج بھی گھر کی بیل بجانے پر گھر کی خواتین اندر سے آواز دے کر پوچھ لیتی ہیں کہ کون ہے۔ آج بھی والدین اپنی بچی کے لیے نیک لڑکا چاہتے ہیں۔ آج بھی موٹر سائیکل پر بہن کو بٹھائے بھائی کی نظریں چاروں طرف سے بہن کی حفاظت کر رہی ہوتی ہیں۔ آج بھی بھائی، بہن کی طرف اٹھنے والی ناپاک نظروں کو چیر پھاڑ دینے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ آج بھی مائیں لڑکیوں کو حفاظت سے رکھنے کے جتن کرتی ہیں۔ آج بھی بیٹیوں کو رخصت کرتے وقت والدین کی آنکھیں چھلک جاتی ہیں، آج بھی بیٹیاں قرآن کے سائے میں نئے گھر کی راہ لیتی ہیں، آج بھی محبتوں کا یقین دلانا ہو تو خدا اور قرآن کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارا اصل کہیں زندہ ہے، روایتوں کی کوئی نہ کوئی کڑی ابھی تک ہماری ذات سے جڑی ہوئی ہے۔ اخلاقیات کا کوئی نہ کوئی ذرہ کہیں بہت دور آج بھی ہماری تہوں میں پوشیدہ ہے، کاش یہ بے شک اتنا ہی رہے لیکن کبھی ختم نہ ہو۔

تازہ ترین