• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت اگر معیشت کے رگ وپے میں نہ ہو تو رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک ایکسچینج پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ دونوں کبھی ایکسپورٹ کو جلوہ گر کرتی ہیں نہ ملکی صنعت کی رگوں میں زندگی بن کر دوڑتی ہیں۔ یہی جمہوریت اگر معاشرے میں توانائی بن کر نہ دوڑے تو انسانی حقوق پیوند خاک ہوجاتے ہیں، انسان پیوند خاک ہو تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا مگر انسانیت کے پیوند خاک ہونے سے انسانیت کے سب علوم ناگ بن کر ڈستے ہیں۔ ناگ پالنے اور انسان پلنے میں بڑا فرق ہے، اور جب انسانی حقوق معاشرے میں ناپید ہونے لگیں تو ججوں کے قانون اور وکیلوں کے دلائل بھی بے معنی ہوجاتے ہیں۔ جب آئین کی کتابوں سے رہنمائی لینے کے بجائے قدم قدم پر آرڈیننس میں عافیت ملے، تو کیا ہمیں یہ سمجھ نہیں لینا چاہیے کہ اخلاقیات اور تہذیب و تمدن بھی نیم جاں ہو چلے؟

یا ﷲ! تیرے بندے کہیں یہ نہ کہنے لگیں کہ میں کورونا قیامت بھول کر معیشت کی رعنائیوں اور آسودگی کی شہنائیوں کے گناہوں میں پھنس گیا ہوں سو میں تھوڑی دیر سب بھول بھال کر تیری بارگاہ میں التجا کرتا ہوں کہ میرے ملک کے کسی حکیم کو کورونا کش دوا بنانے کی توفیق دے یا کسی پیر فقیر کے دم میں وہ دم بھر دے کہ اس کی پھونک وائرس کش ہو جائے! اگر پھر بھی تو سمجھتا ہے کہ ہم غریب اور بے بس پاکستانیوں سے کوئی بڑا گناہ ہوگیا ہے اور ہم نیوکلیئر انرجی لیول کی بنیاد رکھنے والا لیڈر سنبھال اور بچا نہیں سکے اور ہم کوئی ویکسین یا دوا نہیں بنا سکتے، تو ٹھیک ہے امریکہ و برطانیہ و چین کو توفیق دے کہ وہ ہم نظریاتی لوگوں کیلئے جلد از جلد دوا تیار کرلیں، ہم بیچاروں نے تو ابھی ترقی یافتہ پاکستان کی خشت اول بھی نہیں رکھی اور ترقی یافتہ چہرہ دیکھنے کی تمنا پوری کرنی ہے، پس ہمیں معاف کردے یا مولا اور ڈیوٹی فرشتے کو حکم دے کہ ہمارے لاک ڈاؤن کے مضطرب فلسفہ کو شفا بخش دے۔ آخر تیرے فرشتے کب میرے پاکستان کے کسانوں، مزدوروں اور بےروزگاروں کے کام آئیں گے ؟ خیر، اللہ تیرا شکر کہ بعد ازاں آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے کوویڈ 19کی وبا سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو 1اعشاریہ386 ارب امریکی ڈالر کے قرضے دینے کی منظوری دے دی جو ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ کے تحت دی گئی ہے۔ اب اپنے ہسپتالوں کے انفراسٹرکچر کی حالت سے تو جن و انس اور ملائکہ سب بخوبی آشنا ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ ہمیں انسانی صحت سے زیادہ معاشی صحت کی فکر ہے، عمل نہ سہی فکر تو ہے، اوپر سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ معاشیات کو ’’سمجھ‘‘ ہی نہیں رہا بلکہ کہتا ہے معیشت پھر زندہ ہوجائے گی انسان مرگیا تو زندہ نہیں ہوگا۔ اب شاہ جی کو کون سمجھائے کہ وفاق اور آفاق تو معیشت کی بیماری کے خاتمے کے عزم سے مالا مال ہیں انسانی صحت تو معاشی شفا سے ’’خود‘‘ ٹھیک ہو جائے گی۔ جب بروقت راگنی تھی ہم جوہری توانائی بن گئے، ترتیب کے مطابق اب ہمیں ٹریلین ڈالر کلب میں ہونا چاہیے تھا مگر بےوقت کی راگنیوں نے ہمیں ان دس بارہ ممالک کی فہرست شامل نہیں ہونے دیا، جب کوئی ملک جوہری توانائی کے حصول تک پہنچ جاتا ہے اور وہ آبادی کے اعتبار سے ہو بھی پانچواں بڑا ملک پھر ٹریلین ڈالر اکانومی کی منزل دور کیوں ؟

یاﷲ! خیر کورونا سے مغربی و چینی سائنسدان خود نمٹ لیں گے مگر اپنے فرشتوں کو پلیز یہ تو فرما دیجئے کہ خالص تاجر کو تاجر، جینوئن سیاستدان کو سیاستدان، اصلی حکیم کو حکمت والا اور خادم کو خدمت والا کام دیں اور سمجھائیں، رکشے والا جہاز چلاتا اچھا تو نہیں لگتا۔

یا ﷲ! یہاں تو جینوئن صحافی کی جگہ حسبِ ذائقہ جرنلسٹ تراش لئے گئے ہیں۔ اب بےنظیر انکم اسپورٹ کو ’احساس‘ کا نام تو دیا جاسکتا ہے مگر روپے پر ڈالر یا یورو تو نہیں لکھا جاسکتا۔ امریکہ میں نیویارک کا جان ایف کینڈی ایئرپورٹ یا ورجینا کا ریگن ایئر پورٹ اسی طرح ہیوسٹن کا جارج بش ایئرپورٹ یہ سب کینڈی و ریگن و بش کے لواحقین کے مال و زر سے تو نہیں بنے، دور کیا جانا گلاب دیوی و گنگا رام یا لیڈی ویلنگڈن وغیرہ اسپتالوں کے نام ہندوؤں اور عیسائیوں کے نام ہی کیوں ہیں ان کی خدمت ہے، اب اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے بعد ہم کہیں کہ ان ناموں میں اسلام ہے نہ جمہوریت، تو کیا ان کا نام بدلیں یا نئے ناموں سے اسلامی و جمہوری نئے اسپتال بنانا بہتر ہوگا ؟ عدالت عظمیٰ پوچھتی ہے یہ ’’احساس‘‘ کیا ہے تو اٹارنی جنرل فرمادیتے ہیں کہ ’’بےنظیرانکم اسپورٹ ہی تو ہے ‘‘! یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے یعنی شاہ محمود قریشی، بابر اعوان، فواد چوہدری، فردوس عاشق اعوان، ندیم افضل چن، نور قادری صاحب اور ہم نوا فرزانہ راجہ کے سنگ سنگ تھے جب بےنظیرانکم اسپورٹ کی بنیاد رکھی جسے بعد ازاں عالمی اداروں نے سراہا اور یہ پاکستان کا اعلیٰ ترین خدمت کا ادارہ بن گیا۔ ماروی میمن سے راقم کی جولائی 2015 میں ملاقات ہوئی، میں نے نوٹس کیا اور اِس پر اُس وقت کامیرا کالم بھی گواہ ہے وہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر ناک منہ چڑھاتی تھیں مگر میاں نواز شریف نے نام بدلنے کی اجازت نہ دی، کاش میاں صاحب میثاق جمہوریت کا استحکام بدلنے کی بھی اسی طرح اجازت نہ دیتے۔

اگر سیاست کے ہاتھوں پر عیب اور حکمرانوں کے ہاتھ میں نیب ہوگا، تو جمہوریت پنپ سکتی ہے نہ معیشت ! ساری صوبائی کیبنٹ کا جمال ایک طرف اکلوتے چیف سیکرٹری کا کمال ایک طرف ایسے ہی جیسے وفاقی وزراء کا فن ایک جانب مگر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کا ہنر ایک جانب۔ یااللہ آخر ہم غلاموں پر کالونیل سسٹم کب تک ؟

المختصر، مشرف دور کے بعد سے آج تک رئیل اسٹیٹ اور چینی مافیا ہی کی چاندی ہوئی ہے، انٹرپرنیورشپ کو تقویت نہ بخشی جائے تو سبسڈی والے ہی پروان چڑھتے ہیں یا سٹاک ایکسچینج اوپر جاتی دکھائی دیتی ہے اس حکمت عملی سے انڈسٹری کو اتنا بوم نہیں ملتا جتنا سٹہ کو ملتا ہے۔ ماناکہ معیشت اور صحت میں گہرا رشتہ ہے پھر بھی یا اللہ اپنے ’مقرب فرشتوں‘ کی ایپ میں انسٹال اور ڈاؤن لوڈ کردیں کہ آئین، معاشی و معاشرتی جمہوریتوں کے علاوہ مشکل گھڑیوں میں کوئی اور چارہ ہے نہ چارہ ساز !

تازہ ترین