• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوتوا کی نفرت انگیز اور تباہ خیز سیاست میں بھارتی مسلمان پہلے ہی پسے جا رہے تھے کہ کورونا وائرس کی آمد اور اس کے پھیلاؤ کے بعد اس میں بے انتہا شدت پیدا ہو گئی۔ بھارتی میڈیا جس کی رگ رگ میں اسلام دشمن اور مسلمان کش ہندوتوادی گھس گئے ہیں، نے وائرس پر رپورٹنگ کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف منافرت کا وہ طوفان بدتمیزی شروع کر دیا کہ اب پورے ملک میں مسلمانوں کو وائرس پھیلانے کا ذمہ دار گردان کر ان کےخلاف تشدد کا نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس میں حکمران بی جے پی اور ان کی حلیف ہندوتوا جماعتوں نے پہل کی مگر جلد ہی اسے مین اسٹریم میڈیا میں پذیرائی مل گئی۔ اس دوران ہندوتوا کی ذیلی جماعتوں نے وٹس ایپ کے ذریعے ہزاروں جھوٹی خبروں کے توسط سے پورے ملک میں مسلم مخالف منافرت کی ہزاروں پوسٹس پھیلائیں۔ پچھلی دہائی سے مسلم مخالف پروپیگنڈا اور نفرت سماج میں اس قدر سرایت کرگئی ہے کہ اب یہ روزمرہ زندگی کا حصہ بن گیا ہے جس کے بغیر بھارت کے ہندوؤں کے سواد اعظم کا گزارا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ ملک میں وائرس کے ظہور کے بعد بڑے بڑے سیاسی اور ہندو دھارمک اجتماعات بدستور چلتے رہے مگر وبا پھیلانے کی ذمہ داری مکمل طور پر تبلیغی جماعت کے اراکین پر ڈال دی گئی جن میں کچھ ارکان غیر ممالک کے تبلیغی دوروں سے واپس آئے تھے۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے نئی دہلی کے علاقےنظام دین میں قائم تبلیغی جماعت کے عالمی ہیڈ کوارٹر کے منتظمین نے حکومت سے ہر قسم کے تعاون کا اعلان کیا مگر اس سے مسلم مخالف پروپیگنڈے پر روک لگانے کے بجائے مزید پھیلا دیا گیا اور تبلیغی جماعت پر ’وائرس جہاد‘ پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ اس صورتحال میں یہ امر سب سے افسوس ناک ہے کہ اپنے آپ کو سیکولر قرار دینے والی ملکی یا علاقائی جماعتیں بھی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و بربریت سے اس قدر بیزار ہو چکی ہیں کہ وہ اس کے خلاف زبانی جمع خرچ کرنے کی روادار بھی نہیں دکھائی دیتیں۔ اب تو مسلمانوں کو ’وائرس بم‘ اور ’وائرس جہادی‘ قرار دے کر جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ خود وزیراعظم نریندر مودی کے وزیر برائے اقلیتی امور مختار عبّاس نقوی نے بھی تبلیغی جماعت کو ’طالبانی وائرس‘ قرار دے کر نفرت کو مزید بڑھاوا دیا اور یوں سرکار کی مسلم دشمنی کا کھلے بندوں اظہار بھی کر دیا۔ وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کی جان اور مال پر حملوں میں بیحد اضافہ ہو گیا ہے۔ دارالحکومت دلی سے متصل بوانا گاؤں کے بائیس سالہ محبوب علی ڈیڑھ ماہ قبل مدھیہ پردیش ریاست میں واقع بھوپال تبلیغی جماعت کے ہمراہ ایک تبلیغی دورے میں شرکت کیلئے گئے تھے۔ گاؤں واپس لوٹنے کے کچھ دنوں بعد جب تبلیغی جماعت کے خلاف پروپیگنڈے نے زور پکڑا تو ہندو شدت پسندوں کو ان کی یاد آئی۔ انہیں ڈھونڈ نکال کر ان پر گاؤں میں وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا اور حملہ کرکے ان کو شدید زخمی کر دیا۔ کئی دنوں تک موت و حیات کی کشمکش کے بعد وہ گزشتہ جمعرات کو زخموں کی تاب نہ لاکر وفات پاگئے۔ اس سے چند دن قبل دلی کے کئی علاقوں میں سبزیاں بیچنے والوں میں مسلمان ریڑھی بانوں پر پابندی لگا دی۔ اس کا واضح مقصد مسلمانوں کو غیر رسمی بزنس سیکٹر سے مکمل طور پر ختم کرکے ان کی معیشت پر کاری ضرب لگانا ہے۔ اس سال کے اوائل میں دہلی میں مسلم کش فسادات میں بیسوں مسلمانوں کو قتل جبکہ ان کی سینکڑوں رہائشی اور کاروباری املاک تباہ و برباد کر دی گئیں۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان اب بے گھر ہو کر کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔

پاکستان میں بھی کچھ لوگوں نے کورونا وائرس کا الزام تبلیغی جماعت پر ڈالنے کی کوشش کی حالانکہ خود سیاستدانوں اور ایلیٹ طبقے سے وابستہ افراد نے اپنے نجی جلسوں اور پارٹیوں میں ماہرانہ طبی مشوروں کو نظر انداز کر دیا جو وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن گیا مگر اس کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی۔ سرکاری اعداد و شمار کےمطابق وائرس کے پھیلنے میں تبلیغی جماعت کے ممبران کا حصہ انتہائی قلیل ہے مگر انہیں معتوب ٹھہرایا جا رہا ہے۔ عامۃ الناس کی اصلاح کیلئے تبلیغی جماعت کا کردار انتہائی قابل تحسین ہے جسے سراہنے کی ضرورت ہے نہ کہ وائرس کی آڑ میں منافرت کی ایک مذموم مہم چلانے کی۔ ایسے میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویز الٰہی قابل ستائش ہیں جنہوں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرکے اس پروپیگنڈے پر پل باندھنے کی کاوش کی۔

تازہ ترین