• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کی معاشی ترقی سے پوری دنیا بالخصوص امریکہ پریشان ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلائو پر قابو پانے میں چین کا کردار دنیا کے سامنے ایک مثال ہے۔ چین میں معاشی اور صنعتی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں جبکہ پوری دنیا میں لاک ڈائون کی وجہ سے معاشی و صنعتی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہیں اور امریکہ، یورپ، جاپان اور خطے کے دیگر ممالک جنگِ عظیم دوم کے بعد شدید مندی کا شکار ہیں۔

جاپان کی حکومت نے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے۔ کورونا وائرس سے اب تک دنیا میں ایک لاکھ 61ہزار اموات ہوئی ہیں جن میں امریکہ کی 39ہزار اور یورپ کی 95ہزار اموات شامل ہیں۔ ان حالات میں آئی ایم ایف نے پہلی بار چین کی کرنسی یوآن کو آئی ایم ایف کی فارن ایکسچینج باسکٹ میں شامل کیا ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آئی ایم ایف یوآن اور ڈالر کو برابری کی سطح پر لانا چاہتا ہے جس سے دنیا میں ڈالر کی ریزرو کرنسی کی عالمی برتری ختم ہو جائے گی۔

میں نے اپنے گزشتہ کالم ’’ڈالر میں محفوظ سرمایہ کاری‘‘ میں بتایا تھا کہ موجودہ حالات میں ڈالر کو یورو، پائونڈ اور دنیا کی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوط کرنسی تصور کیا جا رہا ہے اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان اور خطے کی دیگر مارکیٹوں سے اپنی سرمایہ کاری نکال کر بیرونِ ملک منتقل کر رہے ہیں جس کا محفوظ ٹھکانہ امریکی بانڈز اور ٹریژری بلز ہیں حالانکہ اس سرمایہ کاری پر منافع نہایت معمولی ہے لیکن موجودہ حالات میں دنیا میں ڈالر ہی سب سے مستحکم اور محفوظ کرنسی تصور کی جا رہی ہے۔

میں یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ ڈالر کی طلب اور قدر میں اضافے کا رجحان شارٹ ٹرم ہے لیکن چینی کرنسی یوآن طویل المیعاد مدت میں ایک مضبوط کرنسی بن کر ابھرے گی۔

آئی ایم ایف جو دنیا کے 185ممالک کی معیشتوں کا جائزہ لیتا ہے اور مالی مشکلات کا شکار ممبر ممالک کو بیل آئوٹ پیکیج دیتا ہے، نے پہلی بار یوآن کو آئی ایم ایف فارن ایکسچینج باسکٹ میں شامل کرکے چینی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں متبادل گلوبل کرنسی قرار دیا ہے۔

اس موقع پر ایک بڑے عالمی مرکزی بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر لیونگ سینگ چیونگ نے کہا ہے کہ آنے والے 5سے 10برسوں میں دنیا کے مالی نقشے میں حیرت انگیز تبدیلی آئے گی۔ ڈاکٹر سیگارڈ کے مطابق موجودہ سونے اور چاندی میں سرمایہ کاری ڈالر کی مقبولیت میں کمی کا مظہر ہے۔ گزشتہ 80برسوں سے دنیا کی کرنسیوں پر امریکی ڈالر کا غلبہ تھا لیکن ہر 80سے 90سال بعد گلوبل ریزرو کرنسیاں گرتی ہیں اور موجودہ حالات میں بھی ڈالر کیلئے معاشی پنڈتوں کی یہی پیش گوئی ہے۔

دنیا میں اس وقت دو طرح کی کرنسیاں رائج ہیں۔ پہلی Fiatکرنسی جو صرف پیپر کرنسی ہوتی ہے اور اسے سپورٹ کرنے کیلئے کوئی مقابل قیمتی دھات نہیں ہوتی، صرف حکومت پر اعتبار اور اعتماد ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ 40سے 50سال تک رہ سکتا ہے جبکہ دوسری Soundمنی ہوتی ہے جس کو سپورٹ کرنے کیلئے مقابل سونا یا قیمتی دھات ہوتی ہے اور ایک اونس سونے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت مقرر کرتی ہے۔

1971میں امریکی صدر نکسن نے امریکی ڈالر کے مقابل سونے کی شرط کو ختم کرکے امریکی کرنسی کو Fiatکرنسی میں تبدیل کر دیا جس کو آج 50سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

1971میں ایک اونس سونے کی قیمت 67ڈالر تھی لیکن آج ڈالر کی ڈی ویلیو ایشن کی وجہ سے ایک اونس سونے کی قیمت 1704ڈالر ہو چکی ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈالر کی قدر دراصل تیزی سے گر رہی ہے اور امریکی حکومت 18کھرب ڈالر کے امریکی بانڈز اور ٹریژری بلز کے ناقابلِ برداشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے جس میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کی ہے اور امریکی قرضوں میں ہر منٹ 10ملین ڈالر کا اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ڈالر کا گرنا ناگزیر ہے۔

جس کی وجہ سے ڈالر میں ہر وہ سرمایہ کاری جس میں اسٹاک، میوچل فنڈز، منی مارکیٹ، کیش اکائونٹ، بانڈز شامل ہیں، کے کریش ہونے کا امکان ہے جو دنیا کے مالی نظام کو تباہ و برباد کر دے گا لہٰذا ڈالر میں تمام سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ہمیں مختلف بین الاقوامی مضبوط کرنسیوں اور ان کے پروڈکٹس میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرکے دور اندیشی کا ثبوت دینا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے بڑے مرکزی بینکس اپنے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر ڈالر میں رکھتے تھے لیکن یورو کرنسی کے اجرا کے بعد اب دنیا کے بڑے مرکزی بینک اپنے زرمبادلہ کے ذخائر ڈالر کے علاوہ یورو، پائونڈ، جاپانی کرنسی ین، چینی یوآن اور دیگر متبادل کرنسیوں میں بھی رکھ رہے ہیں۔

کورونا وائرس سے دنیا کے مالی نظام میں بے شمار کمزوریاں سامنے آئی ہیں اور لوگ عالمی نظام کی تنظیم نو اور نئے ورلڈ آرڈر کی بات کر رہے ہیں جس میں معاشی پنڈتوں کا خیال ہے کہ دنیا کی طاقت کا محور امریکہ سے چین اور ایشیائی ممالک کی جانب منتقل ہوگا۔

تیل پر انحصار میں کمی، جدید ٹیکنالوجی اور آن لائن پیمنٹ، گھر سے کام کرنے اور علی بابا، ایمازون کی گڈز ڈیلیوری جس میں اشیائے خور و نوش اور گروسری بھی شامل ہے، کے جدید انداز سے صارفین کے برتائو میں تبدیلی آئے گی۔

Zoom، Webexوڈیو کانفرنسز کی وجہ سے بزنس ٹریولز میں کمی، ای کامرس، آن لائن بینکنگ کے فروغ، کورونا وائرس کے باعث حکومتوں کا ہیلتھ کیئر کے بجٹ میں اضافہ، ہوم اسکول پروگرامنگ، آن لائن ایجوکیشن اور ورچوئل یونیورسٹی کے فروغ، فیملی بانڈز مضبوط کرنے کیلئے گھر میں زیادہ وقت گزارنے اور اس بات کا احساس کہ ہماری صحت سب سے پہلے ہے،ظ نئے ورلڈ آرڈر کی تبدیلیاں ہوں گی جس کو اپنانے کیلئے ہمیں تیار رہنا چاہئے۔

تازہ ترین