• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یادِ رفتگان کے تحت ارادہ تھا کہ ان دنوں جو بزرگ احباب اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں، ان کی کچھ یادیں نذرِ قارئین کی جائیں لیکن تمہید کچھ ایسی طولانی ہو جاتی ہے کہ مختصر کالم میں صرف وہی سما پاتی ہے۔ آج سابقے لاحقے کارنر کرتے ہوئے ڈائریکٹ بات کرنی ہے کہ ہمارے عظیم المرتبت دوست ڈاکٹر رشید جالندھری جو آفتابِ علم و عرفان تھے، ملک عدم روانہ ہو گئے ہیں۔ انکے بعد ہمارے ساتھی اور دوست مولوی سعید اظہر جو بہت اچھے انسان تھے، اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان سے پہلے ڈاکٹر مبشر حسن طویل اور بھرپور زندگی گزارنے کے بعد رخصت ہو گئے۔ اُن سے ہماری دوستی تو نہ تھی البتہ شناسائی اور ایک تعلق واسطہ ضرور تھا جو اُس وقت قائم ہوا جب نئی صدی شروع ہونے سے قبل اپنے میگزین کیلئے انٹرویو کرنے اُن کے دولت کدے پر حاضر ہوئے اور بحث و گفتگو سے مزین ایک طویل نشست کا موقع ملا۔ سفید کرتے پاجامے میں ملبوس دراز قامت ڈاکٹر صاحب چاق و چوبند، ہوشیار اور تیکھے اسلوب میں بات کرتے دکھائی دیے جو اگلے کی بات دھیان سے سن بھی رہے تھے اور پُرزور انداز میں ڈنکے کی چوٹ اپنا موقف بیان بھی کر رہے تھے۔ اپنی صحیح یا غلط باتوں پر اُن کا اعتماد بلا کا تھا۔ پانی پت یا مولانا الطاف حسین حالی کا تہذیبی اسلوب بھی بعض باتوں میں جھلک پڑتا لیکن ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر فکر و فلسفہ کے آدمی نہیں تھے، سول انجینئر تھے۔

وہ روایتی سرخوں کی طرح امیر غریب کی طبقاتی تقسیم پر بضد تھے اور یہی ظاہر کر رہے تھے کہ جیسے وہ غریبوں کے بہت بڑے ہمدرد تھے۔ ہم کون ہوتے ہیں ان کے الفاظ پر شک کرنے والے ، وہ جو تھے وہی بیان کر رہے تھے تمام پارٹیوں کے خلاف بول رہے تھے حتیٰ کہ محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو بھی نہیں بخش رہے تھے۔ ان کی نظروں میں اگر کوئی لیڈر تھا تو صرف ذوالفقار علی بھٹو ۔ ہم نے کہا ’’محترمہ بینظیر بھی تو آپ کے اُسی ذوالفقار کی بیٹی ہے‘‘ تو زور سے بولے کہ ’’ناخلف بیٹی ہے‘‘ اس پر اُن سے خوب تکرار ہوئی کیونکہ جو مقام وہ بھٹو کو دے رہے تھے ہم اس عزت و حرمت کا حقدار محترمہ کو گردان رہے تھے، اس تناظر میں جب ہم نے بھٹو صاحب کے بیٹوں اور بالخصوص بہو غنویٰ بھٹو پر تنقید کی تو اُن کا زورِ بیان اتنا زیادہ نہیں تھا البتہ اُن کے دفاع میں ضرور بولے کیونکہ وہ غنویٰ بھٹو کی چھوٹی موٹی پارٹی کے عہدیدار تھے ۔ جب یہ کہا کہ اتنی اہم شخصیت کو یہ جچتا نہیں ہے کہ جس کے گھر میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، وہ اصل پارٹی کی طرف یوں پیٹھ کیے بیٹھا ہو تو انہوں نے اس پر بھی موردِ الزام محترمہ کو ٹھہرایا البتہ بڑے فخر سے وہ جگہ دکھائی جہاں پی پی کا تاسیسی اجلاس اور ملک میں غریبوں کی تقدیر بدل دینے کی باتیں ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری اس بات کو نظرانداز کر دیا کہ ان کا نام پہلی دفعہ ریڈیو پر بھٹو کے منہ سے سنا تھاجب وہ وزیر خزانہ بنائے گئے تھے اور یہ کہ بھٹو صاحب نے سوائے نعروں کے بالفعل غریبوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اگرچہ اُن کے جوابات تسلی بخش قرار نہیں دیے جا سکتے البتہ آمروں اور دہشت گردوں کے خلاف خوب بولے۔ اس کے بعد ایک گیلری میں محترم نیر علی دادا کی ادبی محفلوں اور مختلف النوع پروگراموں میں ان سے اَن گنت ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کا رکھ رکھائو، اجلاسفید لباس، نہائی دھوئی شخصیت اور بزرگی میں بھی جواں عزم استدلال اور پُروقار لب و لہجہ خوشگوار تھا اور ان کی جو چیز سب سے بڑھ کر لگی وہ بھارت سے اچھے تعلقات کی امنگ تھی۔ ان کی ٹریک ٹو اور تھری ڈپلومیسی کے حوالے سے اندر کی باتیں جاننے کے لیے درویش اکثر رازدارانہ اسلوب میں بات چھیڑتا اور سوالات اٹھاتا تو وہ کئی کام کی باتیں بتا جاتے ۔ جتنی تنقید وہ اپنی قیادت بالخصوص بیورو کریسی پر کرتے، اتنی نہیں تو اس سے ملتی جلتی تنقید وہ بھارتی بیورو کریٹس اور ڈپلومیٹس پر بھی کر جاتے۔ مسئلہ کشمیر کے آخری حل پر اُن کے ساتھ بارہا گفتگو ہوئی، وہ جو بھی سوچ رکھتے تھے اس کے برخلاف اپنی متبادل رائے پیش کرتا تو کہتے چلو یونہی سہی لیکن وہ بھی ان کو قبول تو کریں، حل کوئی بھی ہو اس پر پہنچنے سے پہلے ایک باہمی اعتماد کی فضا ہوتی ہے، ہم ایک قدم اس کے قریب جاتے ہیں توہمیں دو قدم پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ ان کی نمازِ جنازہ کے موقع پر جناب نیر علی دادا سے ملاقات ہوئی تو کیا خوب بولے ’’پروفیسر ڈاکٹر مبشر حسن کیا نستعلیق انسان تھے، اپنے بزرگ مولانا حالی کی طرح اور ان کے بھائی ڈاکٹر شبر حسن بھی جو WHOمیں رہے، ایسے بڑے لوگوں سے اب ہم محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن اگرچہ ہائیڈرولک انجینئر تھے مگر ادب کے بڑے قدر دان۔ انہوں نے غالبؔ اور میرؔ پر کیا خوب لکھا، فطرت پر بہت لکھا، وہ علم و ادب کا خزانہ تھے۔ بھٹو دور میں فنانس منسٹر رہے لیکن رہن سہن اتنا سادہ، آپ ان کے کمرے کو دیکھیں جو 18x16کا ہے، صوفہ آج بھی وہی پڑا ہوا ہے جو پی پی کی تشکیل کے وقت پڑا تھا۔ وہی گاڑی استعمال کرتے ہیں جو اُس زمانے میں تھی۔ لوگ تو ذرا سے عہدے پر آجائیں تو ہر چیز بدل جاتی ہے لیکن سادگی اور سچائی ڈاکٹر مبشر حسن کے خون میں تھی‘‘۔

تازہ ترین