• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس دنیا میں ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی شخص کو بھی اس کے بیٹے، بیٹی، بھائی بہن، ماں باپ، خالہ ماموں، چچا، پھوپھی… یا کسی اور رشتے دار کے کسی عمل یا کردار کو بنیاد بنا کر الزامات کی ”بلی“ نہیں چڑھایا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا قانوناً اور اخلاقاً ایک گھٹیا حرکت گردانی جاتی ہے!
مگر جب کوئی شخص عوامی مفاد کا عہدہ (Public Office) سنبھالتا ہے یا آئینی عہدیدار بنتا ہے تو صورتحال مختلف ہو جاتی ہے اس شخص کا ماضی، اس کا حال، اس کا خاندان، دوست یار، سب خوردبین کے نیچے آ جاتے ہیں۔ الزامات ہر کوئی عائد کرتا ہے میڈیا والے ان باتوں کی چھان بین کرتے ہیں۔ اس شخص کے ماضی کو کھنگالا جاتا ہے۔ اخلاقی گراوٹیں تلاش کی جاتی ہیں۔ آل اولاد کے دھندے کاروبار پر بات ہوتی ہے۔ یار دوست تلاش کئے جاتے ہیں، سیاسی تعلقات کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے اور یوں عوامی خدمت کا دعویدار ایک اچھا خاصا کارٹون بن کر رہ جاتا ہے!
ایسا صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں ہوتا ہے!
امریکہ کے دو برسراقتدار صدور، رچرڈ نکسن اور بل کلنٹن کے خلاف کارروائی، ان کے سیاسی اور آئینی عہدے کی وجہ سے ہی ہوئی تھی، ایسے مجرمانہ فعل اگر کسی عام امریکی شہری سے سرزد ہوتے تو کوئی انہیں زیادہ لفٹ نہ کراتا!
پاکستان میں ایسے الزامات کی ایک تازہ ترین مثال نگران وزیراعظم کے تقرر کے سلسلے میں آئی۔ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی نے اپنی پارٹی کی طرف سے ہی تجویز کردہ ایک محترم نام جسٹس شاکر اللہ جان پر یہ الزامات عائد کرتے ہوئے ان کی نامزدگی واپس لے لی کہ ان کے ایک ایسی کاروباری شخصیت سے تعلقات ہیں جو صدر آصف زرداری کے بہت قریب ہے۔ یوں صرف نامزدگی کے چکر میں ہی ایک ایسا جج بدنام ہو گیا، جس کی شہرت ایک بہادر اور ایماندار، منصف کی ہے۔ جناب جسٹس شاکر اللہ جان نہ صرف قائم مقام الیکشن کمشنر رہ چکے ہیں، بلکہ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے انہوں نے انتہائی دلیرانہ اور تاریخی فیصلے بھی صادر کئے !
اب اڑتی خبر زبانی طیور کی یہ ہے کہ کچھ سیاسی ”خون کے پیاسے“ چوہدری نثار علی کے نامزد کردہ ایک معزز جج اور پنجاب الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس ریاض کیانی پر ایسے ہی الزامات عائد کرنے کی تیاریوں میں ہیں!! (ایسے کچھ الزامات اپنے شیخ الاسلام ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے بھی عائد کئے تھے، مگر دبے دبے الفاظ میں)
”دکھتی آنکھوں اور رستے کانوں“ نے جو کچھ دیکھا اور سنا اس کے مطابق جسٹس ریاض کیانی کی پنجاب حکومت میں کام کرنے والی بیٹی مریم کیانی پر شہباز شریف کی ”چند نوازشات“ کے حوالے سے پروپیگنڈہ ہو گا۔ مریم کیانی ایک DMG افسر ہیں اور اس وقت لاہور کے ترقیاتی ادارے ایل ڈی اے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ مریم کا تعلق 34 ویں یا 35 ویں کامن گروپ سے ہے ایل ڈی اے میں اس عہدے پر ان کی تعیناتی 2/ جون 2012 میں ہوئی تھی۔ انہیں اٹھارویں گریڈ میں ترقی 24/ اپریل 2012 کو ملی تھی!
”خون کے پیاسوں“ کا یہ استدلال ہے کہ مریم کیانی، اپنے والد کے اثر و رسوخ کے باعث گریڈ 18 میں ہوتے ہوئے، ایک ایسے عہدے پر کام کر رہی ہیں، جو گریڈ 19 اور 20 کی FLOATING POST ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے مریم کیانی کی اعلیٰ کارکردگی پر انہیں تعریفی سرٹیفکیٹ اور 50 ہزار کے نقد انعام سے بھی نوازا۔
ہماری معزز جسٹس جناب ریاض کیانی سے دست بستہ گزارش ہے کہ قبل اس کے کہ گندگی اچھلے، انہیں خود اس بات کا نوٹس لینا چاہئے۔ وہ ایک آئینی عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ اس عہدے کا تقدس یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر ان کی بیٹی اگر چند ماہ OSD بن کر گزار لے تو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا، مگر الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر حرف تو نہیں آئے گا!!
مریم کیانی کی موجودہ پوسٹنگ میں جسٹس ریاض کیانی کی ذات سے زیادہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے طریق حکومت کاری (STYLE OF GOVERNANCE) کا زیادہ دخل ہے۔ عمراں لنگھیاں پباں بھار“ کی طرح انہوں نے بھی اپنی حکومت کے پانچ سال چند جونیئر DMG افسروں کے سہارے گزار دیئے۔ گریڈ 18 کا ہی ایک افسر صوبائی سیکرٹری بن کے گریڈ 20 کے پروفیسروں پر حکومت کرتا رہا۔ اب وہ
گریڈ 20 اور 21 کی FLOATING پوسٹ پر مریم کیانی ہی کا افسر ہے۔ ایک اور افسر پانچ سال سے وزیر اعلیٰ کے ساتھ نتھی اور ان کی مونچھ کا بال بنا ہوا۔ چھ سات افسروں کا یہ گروپ خاصا نام کما چکا ہے، کبھی سیکرٹریٹ جا کر بیٹھے تو اس گروپ کی نت نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ پھر پاکستان میں الزامات کی سیاست کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔ جنرل ایوب خاں اپنے بیٹوں کے ہاتھوں، 60 کے عشرے میں رسوا ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر اپنے ٹیلنٹ کزن ”ممتا ز بھٹو“ کے باعث الزامات لگتے رہے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جرنیلوں کے بیٹوں کے کروڑ پتی بننے کی کہانیاں سامنے آئیں۔ بے نظیر کے دور میں آصف زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہوئے۔ نواز شریف کے دور میں، ان کی دولت میں اضافے کی داستانیں سننے کو ملیں… مشرف کا دور تو سب کے لئے ”فری فار آل“ تھا اور گزشتہ پانچ سال کے دوران تو ہر طرف یہی نعرہ گونجتا رہا #
میرا مال تو میرا مال
تیرا مال بھی میرا مال
خیر الزامات کی سیاست اپنی جگہ… اصل بات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے، جسے ابھی بہت کام کرنے ہیں۔ کچھ مرحلوں میں فخرو بھائی اور ان کے چار ساتھیوں نے اپنا موقف منوا کر ثابت کیا کہ ان میں ”دم خم“ ہے۔ مگر اننگز لمبی ہے۔ آئینی اداروں کا گیٹ کیپر بننا کوئی آسان کام نہیں۔ ابھی ٹیکس چوروں کو پکڑنا باقی ہے۔ قرضے کھانے والوں کو روکناہے۔ جعلی ڈگری والے بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ پکے مجرم بھی نامزدگی کے فارم بھرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان سب کو اسمبلیوں میں گھسنے سے روکنا الیکشن کمیشن کا ہی کام ہے۔ یہ کام بقول سعادت حسن منٹو کے، ”استرا گل“ ہونے سے ہی ہو گا۔ یہ عادی مجرم پیار اور محبت کی زبان نہیں سمجھتے، ان کے لئے ڈنڈہ ضروری ہے۔ ہم چاہتے ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک غیر جانبدار، آزاد، طاقت اور توانا ادارہ نظر آئے۔ ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ اس کا رول اپنے ہرنام سنگھ کی طرح کا ہو! ہرنام سنگھ کی شادی ہوئی۔ پہلی رات کو وہ دلہن کے کمرے میں گیا۔ دلہن لمبا گھونگھٹ نکالے پلنگ پر بیٹھی تھی۔ ہرنام سنگھ بیوی کے قریب بیٹھ گیا اور بولا، ”دیکھ بنتو… تو شادی کر کے اس گھر میں آئی ہے تو اِسے اپنا گھر ہی سمجھنا۔ باپو جی گھر کے بزرگ ہیں، ان کی عزت میں کوئی کمی نہیں آنی چاہئے۔ میری ماں کو یہ احساس نہ ہو کہ تمہارے آنے سے ان کا رتبہ کم ہو گیا ہے۔ میرا بڑا بھائی بھی باپ کی جگہ ہے، اور اس کی بیوی کو میں ماں کا درجہ دیتا ہوں، تمہیں بھی ان کی اتنی ہی عزت کرنا ہو گی… میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ تم ان کی بڑی بہن ہو… میرے دوسرے رشتے بھی عزت کے حق دار ہیں، تمہیں ان کا یہ حق دینا ہو گا۔ تمہیں سب سے پیار کرنا ہو گا۔ عزت دینا ہو گی، ان کا خیال رکھنا ہو گا، ان کا اعتماد جیتنا ہو گا۔ سچ بولنا ہو گا…“ ہرنام سنگھ ابھی اتنا ہی بولا تھا کہ اس کی بیوی پلنگ سے اٹھی۔ کمرے کا دروازہ کھول کر رشتے داروں کو آوازیں دیتی ہوئی بولی، ”سب لوگ اندر آ جاؤ… یہاں وعظ ونصیحت کی محفل ہو رہی ہے“ تو بھائی لوگو… ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اب وعظ و نصیحت نہ کرے، کچھ اور بھی کرنا شروع کرے!
تازہ ترین