• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب میں دہشت گردی کی پے در پے خوفناک اور خون ریز وارداتوں کے فوراً بعد تواتر اور تسلسل کے ساتھ صوبے میں تعلیم کے شعبے پر سب سے زیادہ خصوصی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا کیونکہ عام تاثر یہی تھا کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں غریب طبقے کے لوگوں کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی غربت کی سب سے بڑی وجہ ان کا اَن پڑھ اور جاہل ہونا غریبوں کو غربت سے نجات تعلیم کے ذریعے ہی دلائی جا سکتی ہے۔
پنجاب میں تعلیم کے فروغ پر چودھری پرویز الٰہی کی حکومت نے بھی خصوصی توجہ دی اور ”پڑھے لکھے پنجاب“ کا نعرہ لگایا، کچھ قابل قدر اور اچھے پروگراموں پر عمل بھی کیا گیا مگر جیسے ان کالموں میں متعدد بار کہا گیا ہے کہ تعلیم اور صحت کے میدانوں میں تمام بڑی سیاسی جماتوں کے ماہرین ”ماسٹر پلان“ تیار کریں اور ان سے حلف لیا جائے کہ جو بھی حکومت آئے گی ”ماسٹر پلان“ کے مطابق عمل کرے گی ورنہ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کے کئے کرائے پر پانی پھیر کر ”عمارت نو“ تعمیر کرنے کی کوشش کرے گی جو اس سے اگلی حکومت کی زد میں آ کر منہدم ہو جائے گی اور یہی ہوتا آرہا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت کے بعد میاں شہباز شریف کی حکومت پنجاب نے اگرچہ ”ون ون ٹو ٹو“ کے پروگرام کو جاری رکھنے کی دانشمندی دکھائی مگر پچھلی حکومت کے تعلیمی پروگراموں کو منسوخ و مسترد کرکے ”دانش سکولوں“ کی صورت میں سیاسی افق پر کافی فاصلے سے دکھائی دینے والے دانش سکولوں کی تعمیر شروع کر دی مگر کوئی بھی شخص ماہرین کے اس دعوے کی تردید نہیں کر سکے گا کہ قیام پاکستان کے 65 سال بعد بھی ملک کے سب سے زیادہ ”ترقی یافتہ“ یافتہ صوبے کے نصف سے زیادہ بچے اَن پڑھ ہیں اور تعلیم کے شعبے پر خرچ کئے گئے فنڈز شائد لاہور کی سڑکوں پر خرچ ہو گئے ہیں۔
دو سال قبل ”تعلیم کی سالانہ صورتحال“ کی ایک رپورٹ میں محترمہ بیلا رضا جمیل وزیراعلیٰ پنجاب کی مشیر بیگم ذکیہ شاہنواز، سید بابر علی، جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، سیکرٹری تعلیم اسلم کمبوہ، چودھری احمد جاوید، پرویز ملک اور دیگر ماہرین تعلیم کی موجودگی میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب کے 50 فیصد بچے اردو اور مادری زبان میں ایک فقرہ بھی نہیں لکھ سکتے اور 66 فیصد پنجابی بچے انگریزی زبان کی ایک سطر بھی نہیں پڑھ سکتے۔
بتایا جاتا ہے کہ سال 2013ء کے چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی پنجاب میں تعلیم کی یہی صورتحال ہو گی اور چونکہ آبادی میں اضافے کی رفتار خواندگی میں اضافے کی رفتار سے بہت آگے ہے اس لئے پنجاب کے اَن پڑھ بچوں کا تناسب پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکا ہو گا۔ اِن اَن پڑھ بچوں کو اگر معذوز یا اپاہج قرار دے دیا جائے تو صورتحال ہمارے حکمرانوں کے لئے اور بھی زیادہ شرمناک ہو سکتی ہے۔
تازہ ترین