• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد ایسے پاکستانیوں کو سول اعزازات دنیا چاہتی تھیں جنہوں نے1971ء میں بنگالیوں کے خلاف جنرل یحییٰ خان کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ شیخ حسینہ واجد کو اس معاملے پر عوامی لیگ کے اندر کافی مزاحمت کا سامنا تھا کیونکہ عوامی لیگ کے کئی پرانے رہنماؤں کا خیال تھا کہ 1971ء میں فوج نے مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کیا تو مغربی پاکستان کے لوگ گھروں میں بیٹھے رہے، بنگالی مرتے رہے اور پنجابی سوتے رہے۔ بنگلہ دیش میں سب پاکستانیوں کو پنجابی کہا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو آج بھی پنجابی فوج کا اتحادی قرار دے کر لعن طعن کی جاتی ہے۔ ڈھاکہ کے شاہ باغ اسکوائر میں کئی ہفتوں سے ہزاروں نوجوانوں نے دھرنا دے رکھا ہے جس میں جماعت اسلامی پربنگلہ دیش میں پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔1971ء کے سانحے نے بنگلہ دیش کو آج بھی ایک نفسیاتی بحران میں مبتلا کر رکھا ہے۔ شیخ حسینہ واجد اپنی قوم کو اس بحران سے نکالنا چاہتی تھیں۔ ان کا خیال ہے کہ 1971ء میں فوجی حکومت نے میڈیا کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ مغربی پاکستان کے لوگ مشرقی پاکستان کی صورتحال سے بے خبر تھے لہٰذا فوجی آپریشن میں جو ظلم و زیادتی ہوئی اس کی ذمہ داری اس وقت کے فوجی حکمرانوں پر ڈالی جاسکتی ہے لیکن پوری پاکستانی قوم پر نہیں کیونکہ مغربی پاکستان میں کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو فوجی آپریشن کے خلاف آواز بلند کرتے رہے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی کیونکہ میڈیا آزاد نہ تھا۔ شیخ حسینہ واجد 2012ء میں فوجی آپریشن کے مخالف پاکستانیوں کو ایوارڈ دینا چاہتی تھیں لیکن پارٹی کے اندر مخالفت کے باعث ایسا نہ کرسکیں۔ اس سال انہوں نے 13پاکستانیوں کو بنگلہ دیش کا اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تو کئی اخبارات نے سرخیاں جمائیں۔”دشمنوں کو دوستی کے ایوارڈ“ لیکن شیخ حسینہ واجد نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ وہ آج بھی یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ پاکستان کی حکومت 1971ء کے فوجی آپریشن پر بنگلہ دیش کے عوام سے معافی مانگے لیکن2013ء میں13پاکستانیوں کو دوستی ایوارڈ دے کر انہوں نے پاکستانی عوام کے ساتھ اپنے شکوے شکایتوں کا خاتمہ کردیا ہے۔جن13پاکستانیوں کیلئے بنگلہ دیش حکومت نے ایوارڈ کا اعلان کیا ان کے لئے اس ایوارڈ کو قبول کرنا فخر کی بات تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خطرات بھی موجود تھے کہ پاکستان میں کچھ ناسمجھ لوگ انہیں غدار قرار دے ڈالیں گے لیکن اس کے باوجود ان13پاکستانیوں نے ایوارڈ قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔
24مارچ کو ڈھاکہ میں فرینڈز آف بنگلہ دیش ایوارڈ کی تقریب کا سب سے قابل غور پہلو یہ تھا کہ پہلا نام کیوبا کے سابق صدر فیدل کاسترو کا پکارا گیا۔ ان کے نمائندے نے ایوارڈ وصول کیا۔ دوسرا نام برطانیہ کے سابق و زیر اعظم لارڈ ہیرلڈ ولسن کا تھا اور تیسرا نام پاکستان کی ایک بزرگ سیاسی کارکن بیگم نسیم اختر کا تھا جنہوں نے1971ء کے فوجی آپریشن کے خلاف لاہور کے مال روڈ پر نعرے لگائے تھے اور گرفتار ہوگئیں۔انہیں اور ان کے مرحوم شوہر شمیم اشرف ملک کو ایوارڈ دیا گیا، دونوں کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) سے تھا ۔عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد ملک غلام جیلانی کا ایوارڈ وصول کیا۔ ملک صاحب عوامی لیگ مغربی پاکستان کے عہدیدار تھے۔ فوجی آپریشن کی مخالفت پر گرفتار کرلئے گئے۔ انہوں نے جیل سے جنرل یحییٰ خان کے نام انگریزی میں ایک خط لکھا۔ خط میں شیخ مجیب الرحمن کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ خط مجیب الرحمن شامی صاحب نے اردو میں ترجمہ کرکے اپنے جریدے میں شائع کیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر ایوارڈ وصول کرنے آئیں تو شیخ حسینہ واجد نے انہیں گلے لگا کر تمام حاضرین کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔ سینیٹر میر حاصل بزنجو نے اپنے والد میر غوث بخش بزنجو کا ایوارڈ وصول کیا۔ بزنجو صاحب نے شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان کے درمیان مفاہمت کی بہت کوشش کی۔ وہ خان عبدالولی خان کے ساتھ مل کر متحدہ پاکستان کو بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ بزنجو صاحب کے لئے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی کے ہاتھوں ایوارڈ کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ مجیب کی بیٹی نے ایک ایسے شخص کو ایوارڈ دیا جو25 مارچ1971ء تک پاکستان بچانے کی کوشش کررہا تھا۔25مارچ کو شیخ مجیب الرحمن نے بزنجو صاحب سے کہا کہ آپ واپس چلے جائیں ورنہ فوج آپ کو قتل کرکے الزام عوامی لیگ پر لگادیگی۔ فیض احمد فیض صاحب کا ایوارڈ ان کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی اور حبیب جالب کا ایوارڈ ان کی صاحبزادی طاہرہ جالب نے وصول کیا۔ میں نے اپنے والد پروفیسر وارث میر کا ایوارڈ وصول کیا۔ وہ اکتوبر 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا ایک وفد لے کر ڈھاکہ گئے تھے جس میں حفیظ خان، جاوید ہاشمی اور راشد بٹ وغیرہ شامل تھے۔اس وفد نے واپس لاہور آکر فوجی آپریشن کے خلاف پریس کانفرنس کی لیکن میڈیا میں کوریج نہ ہوئی۔ بیگم طاہرہ مظہر علی خان، احمد سلیم، ڈاکٹر اقبال احمد، سندھی شاعر انور پیرزادو اور قاضی فائز عیسیٰ کو بھی فوجی آپریشن کی مخالفت پر یہ ایوارڈ دیا گیا۔ ظفر ملک مغربی پاکستان کی جیلوں میں بند ان سیاسی قیدیوں کے وکیل تھے جو آپریشن کی مخالفت پر گرفتار ہوئے انہیں بھی یہ ایوارڈ دیا گیا۔ اس تقریب میں بھارت ،نیپال ، جاپان، سویڈن، امریکہ اور برطانیہ کی اہم شخصیات کو بھی ایوارڈ ملے لیکن بنگلہ دیشی میڈیا کی توجہ کا مرکز پاکستانی مہمان تھے۔24مارچ کی شام مہمانوں کے اعزاز میں عشائیے کے دوران شیخ حسینہ واجد نے عاصمہ جہانگیر، سلیمہ ہاشمی اور میرے ساتھ تفصیلی گفتگو میں اس صورتحال کو واضح کیا جس کے باعث آج بھی بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ جب فوجی آپریشن شروع ہوا تو وہ ماں بننے والی تھیں۔ والد گرفتار ہوگئے تھے والدہ کو ان سے علیحدہ کردیا گیا اور انہوں نے فوجیوں کے نرغے میں اپنے بیٹے کو جنم دیا۔ شیخ حسینہ واجد پر19قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ اکثر حملوں میں ان پر ہینڈ گرنیڈ پھینکے گئے لیکن وہ بار بار ایک ہی جملہ دہراتی رہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے عاصمہ جہانگیر سے پوچھا کہ آپ نے پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ بننے سے انکار کیوں کیا؟ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ مفت کی بدنامی کا ہار گلے میں ڈالنے سے بہتر تھا کہ میں اپنے والد کا ایوارڈ لینے آپ کے پاس چلی آتی۔
حسینہ واجد نے عاصمہ جہانگیر سے وعدہ کیا کہ وہ بہت جلد جنوبی ایشیا کی خواتین کا ایک امن کنونشن بلائیں گی۔بنگلہ یش میں چند روزہ قیام کے دوران وہاں کے میڈیا نے سب سے زیادہ یہ سوال ہم سے پوچھا کہ کیا آپ1971ء کے فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والوں کے ٹرائل کی حمایت کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ٹرائل ضرور کریں لیکن فیئر ٹرائل ہونا چاہیے؟ دوسرا سوال یہ تھا کیا جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی لگنی چاہئے ؟میرا جواب تھا کہ پابندی کسی مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستانی حکومت نے نیپ پر پابندی لگائی لیکن وہ عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے زندہ ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے بھی فیئر ٹرائل پر زور دیا اور جماعت اسلامی پر بنگلہ دیش میں پابندی کی مخالفت کی۔ شیخ مجیب الرحمن کے ساتھی اور ان کی حکومت کے وزیر خارجہ کمال حسین نے ہمیں ظہرانے پر مدعو کیا۔ پوچھنے لگے پاکستان کا میڈیا اور عدالتیں سیاستدانوں کا حشر نشر کرتی ہیں اب جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کیا ہوگا؟ ہم سب خاموش رہے پھر میں نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ اس سوال کا جواب وقت دے گا۔ کمال حسین نے بتایا کہ جنوری 1972ء میں انہیں ہری پور جیل سے اور شیخ مجیب کو میانوالی جیل سے سہالہ ریسٹ ہاؤس اسلام آباد لایا گیا۔ یہاں شیخ صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھا تو پوچھا کہ کیا تم بھی قیدی ہو؟ بھٹو نے مسکرا کر کہا کہ نہیں میں صدر پاکستان ہوں اور تم سے مذاکرات کرنے آیا ہوں۔ شیخ مجیب نے کہا کہ میں نے تم سے دو گنا زیادہ ووٹ لئے تمہیں تو ا پوزیشن میں ہونا چاہئے تھا تم صدر کیسے بن گئے؟بھٹو کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ مذاکرات کی آخری کوشش ناکام ہوگئی۔
کیونکہ فوجی جرنیلوں اور ان کے سیاسی حواریوں نے1970ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والوں کو اقتدار دینے کی بجائے جیلوں میں پھینک دیا تھا۔ نیپ کی ایک پرانی رہنما لیلیٰ کبیر نے فوجی آپریشن کے کئی آنکھوں دیکھے واقعات سنائے اور کہا کہ اگر 1970ء کی قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہوجاتا تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔ انہوں نے کہا کہ خیر بخش مری اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے ڈھاکہ آئے تھے۔ 25مارچ کی رات انہیں پتہ چلا کہ آپریشن شروع ہوگیا ہے اور میرے خاوند کو گرفتار کرلیا گیا تو وہ ہمیں بچانے کے لئے پیدل سڑک پر نکل آئے لیکن فوج نے انہیں روک دیا۔ لیلیٰ کبیر کہہ رہی تھیں کہ آپ لوگوں نے پہلے ہمیں زبردستی غدار بنایا اور مار مار کر پاکستان سے متنفر کیا اب آپ بلوچوں کو غدار بنارہے ہو لیکن شکر ہے کہ پاکستان میں آج میڈیا آزاد ہے۔ عدالتیں بھی کچھ کچھ آزاد لگتی ہیں اور بلوچوں کی آواز تھوڑی بہت سنی جارہی ہے۔ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ حاصل بزنجو اور اختر مینگل گیارہ مئی2013ء کا الیکشن لڑرہے ہیں۔ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا کہ پاکستان تو بنگالیوں نے بنایا تھا لیکن آپ نے پاکستان توڑ کر ہم پر غداری کا الزام لگادیا کاش کہ 1971ء میں میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان نہ ٹوٹتا پاکستان کے آزاد میڈیا کو بلوچوں کا خاص خیال رکھنا ہوگا ورنہ آپ کو پچھتاوؤں کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
تازہ ترین