• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نواز شریف سمیت ان کے خاندان کے قریباً تمام افراد پس دیوار زنداں تھے۔ مرد جیل چلے گئے تو خواتین نے جدوجہد کی ٹھان لی۔ میاں صاحبان کے بہت سے جعلی سرفروش چھپ گئے،کچھ نے الگ جماعت بنا لی۔ میاں نواز شریف کے بڑے بڑے حامی قلمکار منہ موڑ گئے تو یہ عاصی و خاطی میدان میں اترا۔ اس خاکسار نے پرویز مشرف کے خلاف وہ کچھ لکھا جس کا سوچنا محال تھا۔ ماحول اتنا تلخ تھا کہ میاں صاحب کے حامی منہ پر قفل لگا کر پس پردہ چلے گئے۔ عورت کی گواہی آدھی سہی پھر بھی میرے پاس ڈھائی گواہیاں ہیں۔ میں نے مشرف کے خلاف کیا کیا۔ اس کی گواہی بیگم کلثوم نواز، مریم نواز، بیگم عشرت اشرف، تہمینہ دولتانہ اور بیگم نجمہ حمید سے لی جا سکتی ہے۔ مردوں کو گواہ اس لئے نہیں بنا رہا کہ پاکستان میں آمریتوں کا مقابلہ کرنے والے قافلوں کی سربراہی ہمیشہ عورت کے حصے میں آئی۔ محترمہ فاطمہ جناح، بیگم نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو شہید اور بیگم کلثوم نواز ایسی بے مثال خواتین ہیں کہ ان کی جدوجہد کو سلام کرنا چاہئے۔بات شریف خاندان کے مشکل ترین ایام کی ہو رہی تھی۔ ایک جدوجہد رنگ لائی اور یہ خاندان سعودی عرب عازم سفر ہوا۔ میں نے دو تین وجوہات کی بنا پر میاں نواز شریف کی حمایت جاری رکھی کہ ایک تو انہیں غلط طور پر اقتدار سے ہٹایا گیا، ان پر مقدمہ بھی غلط بنا۔ ملک میں جمہوریت کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے تھا پھر غیر سیاسی مردوں کو جیلوں میں کیوں ڈالا گیا۔ میاں نواز شریف ڈٹے رہے اور انہوں نے ساتھ چھوڑ جانے والے ساتھیوں کے بارے میں سخت موٴقف اختیار کیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ پرویز مشرف کا ساتھ دینے والوں کو کبھی بھی، کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے مگر افسوس…صد افسوس کہ آج میاں صاحب کے گرد عاشقان کا جو ہجوم ہے وہ مشرف کی آغوش سے اٹھ کر آیا ہے۔ آج ان کے حقیقی وفادار دل گرفتہ ہیں، شکستہ دلوں کے ساتھ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کریں تو کیا کریں۔بابر بادشاہ نے ڈھائی بڑے کام کئے تھے۔ میں نے ڈھائی بڑی گواہیاں پیش کی ہیں۔ ان ڈھائی گواہیوں کے ساتھ میاں صاحب سے ایک سوال ہے کہ کیا سمیرا ملک، ماروی میمن، امیر مقام اور کشمالہ طارق سمیت ہمایوں اختر خان، وقاص اکرم اور طارق عظیم، جنرل پرویز مشرف کی پسندیدہ شخصیات نہیں تھیں۔ کیا گوہر ایوب، جنرل مجید ملک، لیاقت جتوئی، سردار یوسف، سلیم سیف اللہ خان، فخر امام، ہمایوں اختر جان اور راجہ جاوید اخلاص میاں صاحب کا ساتھ چھوڑنے والوں میں سے نہیں تھے اور کیا ارباب غلام رحیم، جنرل قادر بلوچ، حامد ناصر چٹھہ، عطا مانیکا، طاہر علی جاوید، شاہد اکرم بھنڈر اور زاہد حامد پرویز مشرف سے الگ تھے؟ اگر میاں صاحب کو یاد ہو تو زاہد حامد ہی نے این آر او تخلیق کیا تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ میاں صاحب پر حرف زنی نہیں کرتے رہے؟ اور کیا میاں صاحب نے منشور پیش کرتے ہوئے ”مشرفی ٹیم“ کے اراکین ہمایوں اختر جان، طارق عظیم اور ماروی میمن کا شکریہ ادا نہیں کیا؟
صاحبو! جیت کی چاہت اتنی بھی دلکش نہیں ہونی چاہئے کہ قلوب کو زیر کر دے، وفاؤں کو روند دے اور اصولوں کو توڑ دے۔ حسن عباس رضا کا شعر یاد آ گیا ہے کہ
اچانک اس نے کچھ ایسے سوال پوچھ لئے
کہ میرے پاس کسی کا جواب تھا ہی نہیں
برادرم حفیظ اللہ نیازی نے کالم کیا لکھا کہ اس پر کالموں کی بارش ہو گئی۔ مخالفین تو ایک طرف رہے، دوستوں نے بھی بہت کچھ لکھ ڈالا۔ خاص طور پر سرزمین میانوالی سے وابستہ لکھاریوں نے تو فرض سمجھا۔ اب جب ڈاکٹر شیر افگن نیازی مرحوم کے فرزند امجد علی خان اپنے پورے گروپ کے ساتھ تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عمران خان کے لئے میانوالی کا قلعہ مضبوط ہو چکا ہے۔ یہاں تذکرہ کرتا چلوں کہ میانوالی کا سب سے بڑا قبیلہ امجد علی خان کا ہے۔ بہت جلد انعام اللہ نیازی، امجد علی خان اور عائلہ ملک کی صلح ہو جائے گی۔ ایک سینیٹر بننے پر راضی ہو جائے گا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ عمران خان نے واشگاف الفاظ میں بارہا کہا ہے کہ تحریک انصاف میں رشتہ داریاں نہیں چلیں گی، صرف میرٹ چلے گا، اسی لئے تو عمران خان اس وقت میانوالی چلے گئے، جب انعام اللہ نیازی کے مخالف امجد علی خان، عائلہ ملک کی کوششوں سے تحریک انصاف کا حصہ بن رہے تھے۔ یوں عمران خان کے مخالفین کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کہ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو میانوالی میں زیر کر دیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کروا کے اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے اندر جمہوریت کا عملی نمونہ پیش کیا ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمر سرفراز چیمہ نے مخدوم جاوید ہاشمی کے بارے میں جو طعن زنی کی اسے سیاسی ناپختگی ہی کہا جا سکتا ہے۔ جاوید ہاشمی اس ملک کی سیاست کا سرخیل ہے۔ وہ جمہوریت پسندی کی پاداش میں برس ہا برس پس دیوار زنداں رہا، اس کی جسمانی بیماری بھی اسی قید و بند کا ثمر ہے۔جس روز نواب آف بہاولپور صلاح الدین عباسی، عمران خان سے اتحاد کر رہے تھے اس روز عمران خان نے پھر سے واضح کیا کہ وہ کسی بھی ایسی سیاسی پارٹی سے اتحاد نہیں کریں گے جو گزشتہ پانچ سالوں میں اقتدار پر فائز رہی ہو۔ انہوں نے برملا کہا کہ حلوہ کھانے والے ایک طرف ہوں گے اور دیانتداری کے پاسدار ایک طرف ۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے حلوے کا تذکرہ بھی کیا اور میاں نواز شریف کا شکریہ بھی ادا کیا۔ شکریئے کے الفاظ یوں تھے کہ میاں صاحب کا شکریہ، بہت شکریہ کہ وہ حلوہ کھانے والے مفاد پرستوں کو اپنے گرد جمع کر رہے ہیں۔
نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ الیکشن کا طبل بج چکا ہے۔ ایک مشکل ترین نامزدگی فارم کا سامنا ہے۔ یہ پیچیدہ فارم بہت سے سیاستدانوں کو سیاست سے دور کر دے گا مگر ہنوز… صاحبو! ہنوز الیکشن ایک سوالیہ نشان ہیں۔ یہ سوالیہ نشان آخری وقت تک رہے گا۔
تازہ ترین