• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال جو 82برس پہلے اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے دارِ بقا میں ایک شاداں و فرحاں زندگی بسر کر رہے ہیں، نے بہت پہلے ایک عظیم حقیقت کا انکشاف کیا تھا کہ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر؍ مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر۔ ’مردِ ناداں‘ سیاستدانوں میں بھی ہو سکتے ہیں، مذہبی پیشواؤں میں بھی اور دانشوری کا دعویٰ کرنے والوں میں بھی اور ان حکمرانوں میں بھی جو اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ جن دنوں قیام پاکستان کے لیے تاریخی جدوجہد ہو رہی تھی، تو بعض مذہبی رہنمائوںنےکیا کیا روڑے نہیں اٹکائے اور کیسی کیسی دلیلیں نہیں تراشی تھیں۔ تب علامہ اقبال کی تاریخی بصیرت، علمی وجاہت اور قائداعظم کی بے مثال شخصیت نے تمام بتانِ وہم و گماں توڑ ڈالے تھے اور برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کیا تھا۔ اس جدوجہد میں علمائے حق شناس بھی شامل رہے تھے۔ علما ایک طرح سے انبیاء کے جانشیں تصور ہوتے ہیں کہ وہ لوگوں کو حق و صداقت کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ پاکستان جب اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا تو عوام کی طرف سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ہونے لگا۔ وہ محدود سیاسی عناصر جو مغربی تصورات کے زیر اثر مذہب کو ریاست سے جدا رکھنے کے قائل تھے، انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ مسلمان تو 72فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایسے میں کس فرقے کا اسلام نافذ کیا جائے۔ اس پیچیدہ سوال کا جواب دینے کے لیے ہر مکتبِٔ فکر کے 31علما سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے گہرے غور و فکر کے بعد 22نکات مرتب کیے جو عصرِ حاضر میں اسلام کے آفاقی تصورات کے آئینہ دار تھے۔ تخلیق پاکستان کے بعد یہ ہماری تاریخ کا دوسرا بڑا معجزہ تھا۔

علامہ اقبال اور سید ابوالاعلیٰ مودودی جو ایک دوسرے کے گہرے مزاج شناس تھے، انہوں نے اپنی الہامی شاعری اور انقلاب آفریں تحریروں سے برصغیر کے مسلمانوں کے علاوہ عالمِ عرب و عجم کے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقوں کو بھی متاثر کیا اور دانشِ فرنگ کی گمراہیوں اور تہذیبی چیرہ دستیوں کا پردہ چاک کر ڈالا اور اسلام کو ایک ہمہ گیر تمدنی قوت کے طور پر پیش کیا۔ ان کی اس ہمہ پہلو مساعی سے مسلم ریاستوں میں ایک ایسا گروہ منظم ہوتا گیا جس نے اسلام کو ایک نظریۂ حیات کے طور پر قبول کیا اور وہ اس کی سربلندی کے لئے سر دھڑ کی بازی بھی لگاتا رہا، مگر بدقسمتی سے بیشتر مسلم حکمرانوں نے اپنے منصب کی تاریخی ذمہ داری ادا نہیں کی اور بے پناہ مالی وسائل اور اسٹرٹیجک محل وقوع کے باوجود مغربی اقوام کی بالادستی قبول کر لی، البتہ علمائے کرام وقتاً فوقتاً رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے نظر آئے۔

چند ماہ قبل انسانی تاریخ میں ایک زلزلہ سا آگیا اور پوری دنیا اتھل پتھل ہوگئی۔ چین سے کورونا وائرس خاموشی سے نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکا اور یورپ کی جڑوں میں بیٹھتا چلا گیا۔ ایک ایک دن میں ہزاروں انسان ہلاک ہونے لگے اور اس مرض کے متاثرین کی تعداد 26لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ پاکستان میں بفضلِ خدا مرض کی شدت مقابلتاً کم ہے، مگر عالمی ادارہ ٔصحت کا اندازہ ہے کہ پاکستان کی 10فیصد آبادی کورونا وائرس سے متاثر ہو سکتی ہے اور مئی کے آخر تک وہ نقطۂ عروج تک پہنچ جائے گا اور بڑی تباہی بھی مچا سکتا ہے۔ اس جان لیوا بیماری سے بچاؤ کا ڈاکٹر حضرات ایک ہی نسخہ تجویز کرتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، سماجی فاصلے بڑھائے جائیں اور زیادہ تر گھروں میں اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔ اجتماعات پر پابندی لگانے کے پردے میں وہی محدود عنصر بہت فعال ہو گیا جو مطالبہ کر رہا تھا کہ مسجدیں بند کر دی جائیں۔ اس پر عوام کے اندر شدید ردعمل پیدا ہوا۔ ایسے میں علما کا ایک طبقہ آگے آیا اور باہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ مسجدیں کھلی رہیں گی، ہر نماز سے پہلے اذان دی جائے گی اور مسجد کے خدام کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی جائے گی۔ اس معاہدے پر عوام و خواص نے لبیک کہا اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا۔ اس طرح مساجد آباد بھی نظر آرہی ہیں اور عبادات کی روح بھی قائم ہے۔ پھر ماہِ رمضان کے حوالے سے یہ سوال اٹھا کہ نماز تراویح کیسے ادا کی جا سکتی ہے۔ جناب وزیر اعظم نے 14اپریل کو اعلان کیا کہ 18اپریل کو علما سے مشاورت کے بعد ایک متفقہ لائحہ عمل دیا جائے گا، مگر رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین جناب مفتی منیب الرحمٰن نے کراچی میں علما کا ایک اجلاس طلب کیا جس میں طے پایا کہ تراویح کی نماز مسجد ہی میں ادا کی جائے گی، البتہ پچاس برس سے زائد عمر کے لوگ، بچے اور مریض مسجد میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ یہ بھی طے پایا کہ نمازیوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھا جائے گا اور ہر نماز سے پہلے مسجد کے صحن کو کلورین سے دھویا جانا لازمی ہو گا۔ اس ناقابلِ عمل فارمولے پر صدرِ مملکت نے بھی دستخط ثبت کر دیے جس کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں، ڈاکٹروں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے سنجیدہ طبقوں کو شدید پریشانی لاحق ہے، چنانچہ ان کی طرف سے مطالبہ ہو رہا ہے کہ رمضان المبارک میں وہی راستہ اختیار کیا جائے جس پر پورے عالم اسلام کا اجماع ہو گیا ہے۔

صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر مولانا فضل الرحمٰن، جناب سینیٹرسراج الحق اور اب مفتی منیب الرحمٰن نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ تراویح کی نماز گھر ہی پر پڑھیں گے۔ مفتی تقی عثمانی کی بھی یہی رائے تھی کہ نمازِ تراویح گھر ہی پر پڑھی جائے۔ چوٹی کے ڈاکٹروں نے ایک دستخط شدہ بیان میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ مساجد کو کھول دینے سے مریضوں کی تعداد اتنی بڑھ جائے گی کہ ہمیں فٹ پاتھ پر مریضوں کا علاج کرنا پڑے گا۔چنانچہ اربابِ حکومت اور علمائے کرام پر لازم آتا ہے کہ وہ ان باتوں پر دھیان دیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین