• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگوں کو یقین ہے کہ یہ کورونا وائرس نام کی جو بلا ہمارے سروں پر نازل ہوئی ہے، یہ ایک دن ٹل جائے گی۔ میں جو اس کا بڑے غور سے مشاہدہ کر رہا ہوں، سوچتا ہوں کہ ٹیکہ ایجاد ہوتے ہی یہ بلا ہمارے جسم اور بدن کا پیچھا چھوڑ دے گی مگر یہ بلا سروں سے ٹلتے ٹلتے ہمارے ذہنوں، دماغوں اور سوچنے سمجھنے کی قوت، اندازِ فکر اور سب سے بڑھ کر دنیا کے معاملات میں ہمارے رویّوں پر گہرا اثر چھوڑے گی۔ جائے گی ضرور، غارت بھی ہوگی مگر اتنی آسانی سے نہیں۔ ہمارے خون کے دھاروں میں بہنے والے اس کے جرثومے جو پہلی بار وجود میں آئے ہیں، پکڑ میں تو آجائیں گے لیکن ہمارا دفاع کرنے والے خلیوں میں انہوں نے جو پنجے گاڑے ہیں، ان کے نشان باقی رہیں گے اور کوئی نہیں جانتا کہ کب تک رہیں گے۔ مسئلہ جسمانی صحت سے بڑھ کر دماغی صحت کا ہوگا۔ بدن کو تو ہماری طب کی سائنس نے خوب سمجھ لیا ہے لیکن ہمارا دماغ ابھی سمجھ سے باہر ہے۔ وہ اپنی الگ دنیا بسائے بیٹھا ہے، اپنے مشاہدے کر رہا ہے، اپنے فیصلے کر رہا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے رویّوں کا اظہار کرنے کے طور طریقوں میں وہ بالکل آزاد، بالکل خود مختار ہے۔

مرض تو خیر اپنی جگہ ہے سو ہے، اس کے جو معاشرتی اثرات ظاہر ہو رہے ہیں وہ ڈراتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ ایک جیتی جاگتی دنیا، چلتی پھرتی، سر گرم دنیا کو ایک روز حکم ملے کہ اپنے گھروں میں بند ہو کر بیٹھ رہے، منہ پر ڈھاٹا باندھ لے اور خبر دار کسی کو ہاتھ نہ لگائے، ایسی دنیا کے دل و دماغ پر کیا گزرے گی۔ ایک زوروں میں چلتا ہوا عالمی نظام یک لخت ٹھپ ہو جائے تو کیا آگے چل کر صدی کے آنے والے برس یوں ترو تازہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں؟ عالمی نظام پر جو بیت رہی ہے اس کی جھلک تو ہم ہر روز دیکھ رہے ہیں اور ایسے ایسے منظر دیکھ رہے ہیں جو جدید دنیا کے نظام میں آج تک نہیں دیکھے گئے۔ جس کی ایک مثال تیل کی قیمت ہے جو گرتے گرتے اتنی گری کہ پہلے ایک سطح پر آئی پھر اس سے بھی نیچے گر گئی۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ کبھی ہم ردّی کاغذ اور اخبار بیچتے تھے اور ہمیں اس کے پیسے ملتے تھے، پھر وقت بدلا تو یہ ہوا کہ ہم ردّی کاغذ والے کو پیسے دیتے ہیں تب وہ ردّی لے جاتا ہے اور اوپر سے ہم پر سو احسان کرتا ہے۔

یہ تو خیر ہمارے وجود سے باہر کی دنیا ہے جو ابھی خدا جانے اور کتنے تماشے دیکھے گی اور دکھائے گی۔ میری تشویش کا مرکز انسانی وجود کے اندر کی دنیا ہے جس پر کون جانے ان بلاخیز حالات کے کیسے کیسے اثرات مرتّب ہونے جا رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ پورے پورے کنبوں کا گھروں میں بند ہوکر بیٹھ رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔ جسے لوگوں نے شروع شروع میں چھٹی اور تعطیل سمجھ لیا تھا، وہ بڑا ڈنک مارنے والی بھِڑ ہو سکتی ہے۔ کنبے کے افراد چند روز بعد ایک دوسرے کے اعصاب پر سوار ہونے لگیں، اختلاف سر اٹھانے لگیں، آپس کے تعلقات میں فرق آنے لگے، ہمارے جوائنٹ فیملی سسٹم میں کچھ خرابیاں بھی ہیں جو ایسے حالات میں ابھر کر فتنہ بن سکتی ہیں۔ بلاشبہ اس نظر بندی کے کچھ مثبت اور خوش گوار پہلو بھی ہیں، بچے صبح و شام ماں باپ کی قربت کے لطف اُٹھائیں گے، گھریلو مراسم مستحکم ہوں گے، خانگی زندگی کے اچھے اثرات فروغ پائیں گے، اور ہمارے ایک دوست کا خیال ہے کہ بچوں کی پیدائش بھی خوب خوب ہو سکتی ہے۔ دل آخر انسان کا دل ہے، فرصت کے ایسے ہی دن بھی ڈھونڈتا ہے اور ایسی ہی راتیں بھی۔

میں مغرب میں آباد ہوں، یہاں کی دنیا ذرا جدا ہے۔ یوں سمجھئے کہ جب سے یہ لاک ڈاؤن ہوا ہے، دل کا عجب عالم ہے۔ بعض گھروں میں تو رونقیں آگئی ہیں اور لوگوں نے جی بہلانے کے ایسے ایسے سامان کر لیے ہیں کہ بچوں کی خواہش ہے کہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے۔ میرے ایک دوست کی بیٹی اٹلی میں رہتی ہے، اس کا بیٹا کراچی میں اپنے نانا نانی سے وڈیو کال پر ہر روز ہی باتیں کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں بڑا مزا آرہا ہے اور اگلے لاک ڈاؤن میں آپ لوگ یہیں اٹلی آجائیے گا۔ لیکن اس تصویر کا دوسرا رُخ بہت تکلیف دہ ہے۔ گھروں میں مار پیٹ اور تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ اسپتالوں میں حادثات اور ایمرجنسی کے شعبوں میں آنے والے زخمیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ لوگ ٹریفک کے حادثات میں نہیں، گھر کے اندر جھگڑے اور فساد میں مجروح ہوئے ہیں۔ اس طرح لائے جانے والوں میں عورتیں ہی نہیں، مرد بھی شامل ہیں۔ اسی طرح شراب نوشی بھی عروج پر ہے، وہی لوگ جو دن کے خاتمے پر ایک گلاس پی لیتے تھے، اب وقت بےوقت لنڈھا رہے ہیں اور اس سے بھی خانگی الجھنیں پیدا ہورہی ہیں۔ اسی طرح ہر گھر میں ہمیشہ سے زیادہ کھایا جارہا ہے۔

برطانیہ میں ایسے غریب گھرانے چند ایک نہیں، بےشمار ہیں جہاں بچوں کو دوپہر کا کھا نااسکول میں مل جاتا تھا، اب اسکول بند ہیں۔ غریب والدین پر یہ ایک اور بوجھ پڑا ہے۔ مالی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں، آمدنی گھٹتی جاتی ہے، قرض ملتا نہیں، خیراتی ادارے راشن دے دیں تو گزارا ہو جاتا ہے ورنہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں ایسے گھرانے موجود ہیں جہاں فلک شگاف شاندار عمارتوں کے پچھواڑے خستہ حال غلیظ مکانوں میں آج بھی بچے بھوکے سوتے ہیں۔

ایک بہت بڑا عذاب اعصابی دباؤ، ڈپریشن کا ہے۔ جو لوگ دوسروں کو نہیں ماررہے وہ خود کو ہلاک کررہے ہیں۔ خودکشی کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ ہلاکتوں کا بازار گرم ہے اور کون جانے کب تک رہے گا؎

یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

تازہ ترین