جس طرح انسانی حقوق کی پاسداری کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ اہمیت دینے والی محترمہ عاصمہ جہانگیر سے اندیشہ تھا کہ وہ نگران وزیر اعظم کا عہدہ قبول کرنے سے معذرت کرلیں گی۔ ویسے ہی پنجاب کی سیاست کا شعور اور جمہوریت کے بہتر مستقبل پر یقین رکھنے والوں سے توقع باندھی جارہی تھی کہ وہ عالمی شہرت کے صحافی جناب نجم سیٹھی کی نگرانی میں پاکستان کے انتخابی کمیشن کے فرائض منصبی کی ادائیگی کو احسن اور خوشگوار طریقے سے سرانجام ہوتے دیکھیں گے چنانچہ انہیں متفقہ طور پر پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر نامزد کردیا گیا۔
پاکستان کے بالغ رائے دہندگان کے ساتھ تمام پاکستانی عوام آج سے پورے45دنوں کے بعد عام انتخابات کے پرامن انعقاد کے مبارک مرحلے سے گزریں گے جن کے بارے میں بالکل صحیح کہا جاتا ہے کہ ان کے زیادہ سے زیادہ غیر جانبدارانہ اور عدم مداخلت کے نتائج ہمیشہ درست اور صحیح ہوتے ہیں۔ ان عام انتخابات کے ذریعے عالمی تناظر میں وطن عزیز کا اصلی تاثر ابھرے گا جو نہ صرف بہت حد تک بدنام بلکہ لہولہان بھی ہوچکا ہے اور جس پر اس کی معیشت کی مجموعی قیمت اور جی ڈی پی سے بھی کہیں زیادہ بلکہ کئی گنازیادہ کرپشن اور بددیانتی کے ناقابل فہم طومار باندھے گئے ہیں۔
یہ شاید ہم پاکستانیوں کا قومی کردار(کیریکٹر) بنتا جارہا ہے کہ ہم بعض معاملات میں اور خاص طور پر کرپشن اور بددیانتی کے باب میں انتہائی پوزیشن لیتے ہیں بلکہ کچھ ایسی انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کوئی کہے کتاتمہارا کان لے گیا ہے تو ہم کان کو چھونے کی بجائے کتے کے پیچھے بھاگ اٹھتے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ ہمارے کچھ پاکستانی دوستوں نے یہ بھی یقین کررکھا ہو کہ ہمارے سیاست دان پاکستان میں موجود دولت سے کہیں زیادہ دولت ملک کے باہر لے جاچکے ہیں حالانکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد ایسے حقائق زیادہ دیر تک لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہ سکتے ۔
بلا شبہ ہمیں اپنے نگران حکمرانوں سے بہت سی امیدیں اور توقعات ہوں گی جن میں سرفہرست صاف شفاف عام انتخابات کے انعقاد کی توقع اور امید بھی ہوگی مگر شاید بلکہ یقینی طور پر ہمارے بھی کچھ فرائض ہوں گے کہ ہم عام انتخابات میں اپنی حیثیت کے مطابق بھرپور انداز میں حصہ لینے کی کوشش کریں۔ زیادہ سے زیادہ ووٹروں کی اپنے فرائض کی انجام دہی میں مددگار بنیں۔ زیادہ سے زیادہ ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں اور پولنگ بوتھوں تک پہنچانے کی کوشش کریں تاکہ ملک میں جمہوریت کی جڑیں اور زیادہ گہری اترسکیں اور جمہوریت کو توانا بنائیں۔
اگرچہ جمہوری دور کے عام انتخابات کا تجربہ پاکستان میں بہت محدود رہا ہے مگر عام انتخابات کے دنوں میں سازشوں اور افواہوں کے معاملات بہت زیادہ ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نوعیت کی حرکتیں جمہوری دور میں نہیں ہونی چاہئیں۔ قوم اور ملک کے بہترین مفاد کو ہمیشہ او رہرحالت میں پیش نظر رکھنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ کوشش اجتماعی طور پر کرنے کے علاوہ انفرادی طور پر بھی ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری فرماتے ہیں کہ بدعنوانوں کو اب اسمبلیوں میں جانے نہیں دیا جائے گا۔ اندیشہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بدعنوان کو ملک سے باہر بھاگ جانے کی اجازت بھی نہ د ی جائے اور انہیں خوش عنوان بنانے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکے تو پھر وہ سب بدعنوان کہاں جائیں گے؟ پڑے پڑے تلف نہیں ہوجائیں گے۔