• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، بیٹے، بھائی، عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کھاتے ہو، تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو خد اور اس کے رسولؐ سے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو۔ یہاں تک کہ خدا اپنا حکم بھیجے اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (سورۃ التوبہ، آیت24)

آپ سب کو رحمتوں۔ برکتوں۔ مغفرتوں کے ساتھ نازل ہونے والا ماہ رمضان مبارک ہو۔ یہ مہینہ تو ہمیشہ صبر اور ضبط کا تقاضا کرتا ہے۔ ماہرین اور ڈاکٹرز بھی ان تین چار ہفتوں کے لیے خبردار کررہے ہیں۔ انسانی زندگی بچانا بھی اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ ہمارا پالنے والا اور پیدا کرنے والا کرم کرے گا۔ اس مہینے کی فضیلتوں کے صدقے ہمیں اس وبا سے نجات دے گا۔

95دن سے روزانہ رپورٹ جاری کرنے والا عالمی ادارۂ صحت خبردار کررہا ہے کہ مئی کے مہینے میں ایک لہر آئے گی۔ اس کے بعد معاملات پُر سکون ہوجائیں گے۔ مقامی اور عالمی ڈاکٹر خطرے کی گھنٹیاں بجارہے ہیں۔ سب تسلیم کررہے ہیں کہ اس ہولناک بیماری کی دوا ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ اس کا مقابلہ صرف احتیاط سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ دنیا ایک خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔

کھڑے ہیں اب تو وجود و عدم کی سرحد پر

بس ایک لغزش پا پر ہے فیصلہ ہونا

لغزش پا اور لرزش زیاں دونوں ہی ہلاکت خیز ہیں۔ ہم جنگی صورتحال میں ہیں جہاں بروقت فیصلہ ہی جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ فیصلہ ہمیشہ ترجیحات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ترجیحات اگلے محاذ پر لڑنے والے بتاتے ہیں۔ اگلے محاذوں پر کون لڑ رہا ہے۔ ڈاکٹر، نرسیں، اسپتالوں کی انتظامیہ، کارکن۔ وہ کہہ رہے ہیں اسپتال مریضوں سے 80فیصد بھرے ہوئے ہیں۔ احتیاط۔ احتیاط۔ ورنہ ہمیں سڑکوں پر علاج کرنا پڑے گا۔ فیصلے کرنے والے تذبذب میں ہیں۔ بولنے کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ حالت یہ تھی کہ 12مارچ سے مقامی اور برآمد شدہ دوائوں کی فروخت کے اجازت نامے رُکے ہوئے تھے۔نیشنل کنٹرول لیبارٹری میں چیف انالسٹ کی اسامی خالی تھی۔ اس کے دستخط کے بغیر دوائیں مارکیٹ میں نہیں جاسکتی ہیں۔ وفاقی کابینہ کو شاید اس کا علم نہیں تھا۔ اب ایک ماہ کے بعد بھی قائم مقام تقرری کی گئی ہے۔

ہماری صدیوں کی دانش، بزرگوں کے تجربات سے بے خبر حکمراں اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتے ہیں۔مسلّمہ فلسفیوں، دانشوروں کے اقوال پر عمل کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے بقراطوں اور ارسطوئوں سے ولولہ حاصل کرتے ہیں۔ تاجروں اور علماء کے پریشر گروپوں کے دبائو میں آجاتے ہیں۔ ہمارے محاورے اور ضرب الامثال تاریخ کے مشاہدات کا خلاصہ ہیں۔

تا مرد سخن نہ گفتہ باشد

عیب و ہنرش نہفتہ باشد

جب تک آدمی بات نہیں کرتا اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں۔ یہاں تو صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اپنے عیب 24گھنٹے افشا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ایسے جملے بولے جاتے ہیں کہ سوشل میڈیا دیوارِ قہقہہ بن جاتا ہے۔ حکمرانوں کے لیے لازم ہوتا ہے کہ ذہن کو پہلے حرکت میں لائیں پھر زبان کو۔ یہاں زندگی اور موت کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ احتیاط کا تقاضا ہے کہ 22کروڑ کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے حاکم ڈاکٹروں اور ماہر معا لجین کے مشوروں سے تحریری بیان تیار کریں۔ صرف ان کو پڑھیں۔ لوگ آپ کے بیلٹ بکس میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ تدبر اور دانش نہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہی آپ رازی اور ابن سینا نہیں بن جاتے۔

سیانے یہ بھی کہہ گئے ہیں۔آنچہ دانا کند، کند ناداں،لیک بعد از خرابیٔ بسیار۔ ایک عقلمند جو کچھ کرتا ہے۔ وہ بیوقوف بھی کرتا ہے مگر بہت زیادہ خرابی کے بعد۔ ٹرمپ، بورس جانسن اور اٹلی کی مثالیں سامنے ہیں۔ اس نئی جنگ کا فاتح چین ہے۔ اس کا کامیاب تجربہ لائق تقلید ہے۔ لاک ڈائون لاک ڈائون ہوتا ہے۔ اسمارٹ یا ٹف نہیں۔ ترجیح انسانی جان کی ہے۔ اسے بچارہے ہیں ڈاکٹرز۔ ان کا مشورہ تسلیم کرنا چاہئے۔ تاجر، صنعتکار، دکاندار، علمائے کرام، ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اس وقت بالکل غیر متعلق ہیں۔ بزرگوں کا مقولہ یہ بھی ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھےاور کرے تو ٹھینگا باجے۔پہلے ہمیں اسمارٹ فون نے برباد کیا۔ اب ہم اسمارٹ لاک ڈائون سے خودکشی پر مصر ہیں۔

اشیائے ضروریہ تیار کرنے والی فیکٹریاں زندگی بچانے کا سامان اور دوائیں بنارہی ہیں۔ ان کے کھولنے سے مساجد اور دکانوں کا موازنہ صرف دبائو بڑھانا ہے۔ غریبوں اور روزانہ اجرت والوں کے لیے ’احساس پروگرام ‘کے ذریعے 12ہزار دے کر مشکل کافی حد تک آسان کی گئی ہے۔ سیلانی، اخوت، ایدھی اور بہت سے خیراتی ادارے اپنی اپنی جگہ متاثرین اور مستحقین کو امداد پہنچارہے ہیں۔ ہم ایک امتحان سے گزر رہے ہیں۔ کورونا ہماری فکر کی پرواز، اہلیت اور استعداد کو للکاررہا ہے۔ مشکل سے سانس لیتے ہمارے ہم وطن، سناٹے میں قبروں میں اترتی ہمارے پیاروں کی میتیں ہمارے صدر، وزیراعظم، اسمبلی ارکان، سینیٹرز،میئروں، چیئرمینوں، کونسلروں، علماء اور یونیورسٹیوں کو دعوت تحقیق دے رہی ہیں۔ علمائے کرام کو پریشر گروپ بننے کے بجائے ہدایت کے مینار بننا چاہئے۔ تاجروں صنعت کاروں کو گزشتہ برسوں میں کمائے منافع میں سے اپنے ملازمین کی مدد کرنی چاہئے۔

پاکستانی قوم نے جہاں گزشتہ چار ہفتے بڑی استقامت سے گزارے ہیں۔ وہ آئندہ خطرناک چار ہفتوں میں سے بھی سرخرو ہوکر نکلے گی۔

فیصلہ کرنے والی قوتوں کو تذبذب اور تامل سے نکلنا ہوگا۔ نت نئے تجربات کے بجائے مکمل لاک ڈائون اور پہلے سے موجود وفاقی صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے عملے کے ذریعے۔ راشن اور امداد تقسیم کرنی چاہئے۔ متنازع ٹائیگر فورس کو میدان میں نہ اتاریں۔

تازہ ترین