• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا نے پوری دنیا کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے، زندہ قومیں پامردی و استقامت سے اس قوی ہیکل بحران سے نبرد آزما ہیں، دہر موجود کیلئے یہ امتحان نیا نہیں لیکن کامیابی ظاہر ہے اہلیت وصلاحیت سے مشروط ہے۔ ہم بھی اسی وبائی کشاکش سے دوچار ہیں، کیا ہم اس آزمائش میں سرخرو ہو سکیں گے؟ اس کیلئے ہمیں اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لینا ہوگا، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کسی بھی بحران میں کامیابی بیانات، دعوئوں اور اعلانات سے نہیں، عمل سے ملتی ہے۔ حکمران طبقات اور شہریوں کا طرزِ عمل بتاتا ہے کہ وہ حقیقت کی دنیا میں کیا مقام رکھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں  پاکستان اسلام کے نام پر بنا، ہمیں شبِ قدر کی بابرکت رات آزادی ملی، دنیا میں دو ہی نظریاتی ریاستیں ہیں ایک اسرائیل دوسری پاکستان، غرض کہ ہم دنیا بھر کے مسلمانوں سے اچھے و سچے مسلمان ہیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ اہم، مگر اہم ترین یہ ہے کہ ہم جس دین کا نام لیتے ہیں اس کی تعلیمات پر عمل کتنا کرتے ہیں۔ اس کیلئے ہم صرف تین احادیث پر اپنے آپ کو پرکھتے ہیں۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ نبی کریمﷺ کا ہر فرمان جامع، ہمہ گیر اور واضح ہوتا ہے، عالم باعمل کہتے ہیں کہ جس حدیث کو بھی آپ دیکھیں گویا وہ نصف دین سمیٹے ہوئے ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے، تمہارے کمزور افراد کی وجہ سے ہی تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے (صحیح بخاری) اب ہم اگر اس حدیث کےمطابق عمل پیرا ہیں تو ہمارا ایمان ہے کہ کورونا سمیت معاش کی بابت بھی اللہ تعالیٰ ہماری مدد کریں گے، تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کمزوروں کی مدد کی جاتی ہے یا ان پر جبر روا ہے۔ اس سلسلے میں پیمانہ یہ ہے کہ حکمران طبقات کے ساتھ عوام بھی اپنا محاسبہ کریں کہ مجھے اگر کوئی چھوٹا موٹا عہدہ، کاروبار یا اختیار حاصل ہے تو اس میں جو مجھ سے کمزور ہیں، میرا ان سے رویہ کیا ہے۔

دوسری حدیث، نبی کریمﷺ نے فرمایا، تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ جو اپنے لیے چاہتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے نہ چاہے (صحیح بخاری) اب قابل غور امر یہ ہے کہ کیا درحقیقت ہر پاکستانی مسلمان وہی کچھ اپنے بھائی کیلئے چاہتا ہے جو اپنے لئے چاہتا ہے، اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ رسہ کشی، موقع پرستی، حرص و ہوس کی دوڑ کیوں؟ کیا کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان میں ہر چھوٹے بڑے کا اصل ہدف پیسے کا حصول ہے، پیسہ کمانا ناجائز بھی نہیں، اگر اس کیلئے راستے جائز اختیار کئے جائیں، کیا ملائیشیا، ترکی، سعودی عرب، ایران، بنگلا دیش وغیرہ میں بھی رمضان میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹنے کیلئے اسی طرح مستعد ہو جاتاہے جیسے ہمارے ہاں روایت ہے۔تیسری حدیث، رسول اللہﷺ نے فرمایا، اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے (صحیح بخاری) آپﷺ نے فرمایا، شرک خفی دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کو اس لئے لمبا کرے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے (ابن ماجہ) گویا نماز، جہاد، حج، ہجرت، قربانی سمیت ہر بڑے سے بڑے عمل میں اگر دکھاوا آ جائے تو وہ بارگاہِ الٰہی میں قبول نہیں۔

ان دنوں مستحقین کے نام پر حکمرانوں سے لیکر ایک کونسلر اور سیاستدانوں سے لیکر مذہبی رہنمائوں تک جو نمائش جاری ہے، کیا وہ دکھاوے سے پاک ہے؟ ہم نے ہزاروں میں سے صرف تین احادیث کا ذکر کیا ہے، اور اس پر بھی ہمارے عمل کا جو حال ہے وہ عیاں ہے۔ عرض یہ ہے کہ دنیا میں مختلف ادیان کے ماننے والے موجود ہیں اور مختلف ممالک میں مختلف نظام رائج ہیں، برحق یا باطل، لیکن ہر ملک کے عوام اپنے نظام اور ایک دوسرے کیلئے اخلاص کا طرزِ عمل رکھتے ہیں، وہاں لوگ پیسہ خوب کماتے ہیں لیکن اس کیلئے اپنے ہم وطن کی کھال نہیں اُتارتے، یہی وجہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں وہ یک رائے اور یکسو ہوتے ہیں، اگر ہمارے ہاں کسی بھی معاملے پر اتفاق پیدا بھی ہو جاتا ہے تو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کیا جاتا، ہماری نیت محض اپنی غرض کے اطراف ناچتی ہے۔ آج حال یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں میں دیگر امراض کے شعبے بند ہیں، اس لئے روزانہ سینکڑوں غریب علاج نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہےہیں، دوسری طرف تنگ دستی ناقابل برداشت ہو گئی ہے اور لوگ بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں۔ کورونا نے ہمارے پورے نظام کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہی کا نتیجہ ہے، ہم جمہوریت اور اسلام کا نام تو لیتے ہیں لیکن نہ تو اسلامی تعلیمات خود پر لاگو کرتے ہیں اور نہ ہی جمہوریت کے اصولوں کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں، کیا ہمارا یہ طرزِ عمل حقیقی کامیابی کا ضامن ہو سکتا ہے؟

تازہ ترین