• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آٹا چینی بحران کے بارے میں ایف آئی اے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ایکشن لینا شروع کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر خسرو بختیار کا محکمہ تبدیل کر دیا گیا، رزاق داؤد سے دو عہدے واپس لے لئے گئے تاہم وہ وزیراعظم کے تجارت کے مشیر بدستور رہیں گے۔ جہانگیر ترین کو بھی زراعت کے بارے میں ٹاسک فورس کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا ہے، حماد اظہر کو نئی وزارت دی گئی ہے۔ پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے استعفیٰ دے دیا ہے، تین اہم بیورو کریٹس کو بھی عہدوں سے ہٹا کر کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے، وفاقی کابینہ میں دو نئے وزیر بھی شامل کئے گئے ہیں، فخر امام کو نیشنل فوڈ سیکورٹی کی وزارت دی گئی ہے، ایم کیو ایم کے امین الحق کابینہ میں شامل کئے گئے ہیں، بابر اعوان کو پارلیمانی امور کا مشیر بنایا گیا ہے، اعظم سواتی انسدادِ منشیات کے وزیر ہوں گے، مشیر اسٹیبلشمنٹ ارباب شہزاد سبکدوش ہو گئے ہیں۔ اسی رپورٹ کے تناظر میں وفاقی کابینہ میں ردو بدل کیا گیا ہے، دیکھا جائے تو ایک کے سوا کسی بھی مشیر یا وزیر کو عہدے سے ہٹایا نہیں گیا، صرف محکمے تبدیل کئے گئے ہیں۔ ان ساری تبدیلیوں پر وزیر ریلوے شیخ رشید کا تبصرہ برمحل ہے کہ کپتان نے فیلڈنگ تبدیل کی ہے۔ جہانگیر ترین کا معاملہ البتہ دلچسپ ہے، وہ وزیراعظم کے دستِ راست، قریبی دوست اور پارٹی کے انتہائی متحرک رہنما ہیں، اپوزیشن والے اُنہیں پیار سے اے ٹی ایم کہتے ہیں۔ امر واقعہ یہی ہے کہ وہ اور ان کا جہاز نہ ہوتا تو وفاقی اور پنجاب حکومتوں کی تشکیل میں مشکلات پیش آتیں۔ جہانگیر ترین نے حکومتوں کی تشکیل سے پہلے آزاد اور چھوٹی جماعتوں کے ارکان کو پورے ملک سے لا کر عمران خان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ وہ سیاست دان ہیں، خدائی خدمت گار نہیں اور سیاسی کردار کو اسی روشنی میں جانچنا اور پرکھنا چاہئے۔ پورے ملک میں جتنی چینی بنتی اور فروخت ہوتی ہے اس میں ان کی شوگر ملوں کا حصہ 20فیصد ہے، پانچویں حصے کے اسٹیک ہولڈر ہونے کی وجہ سے ہر اُونچ نیچ میں اُن کا کردار مسلمہ ہے، وہ صنعت کار ہیں اور اپنی ملوں کو زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنانا اُن کے پیشِ نظر رہتا ہے۔ چینی کی ایکسپورٹ پر اُنہیں یا دوسرے برآمد کنندگان کو پنجاب حکومت سے جو سبسڈی ملی وہ اُن کا قانونی حق تھا۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ ہے کہ یہ سبسڈی دی جانی چاہئے تھی یا نہیں، لیکن دوسروں کی طرح سبسڈی کی رقم وصول کر کے انہوں نے کوئی خلافِ قانون کام نہیں کیا۔ دوسرا فائدہ جو اُنہیں پہنچا وہ اندرونِ ملک مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تھا، یہ اضافہ کیوں ہوا اس میں ان کا کتنا ہاتھ تھا، آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کا اِس سلسلے میں اپنا موقف ہے اِس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ صحیح ہے یا غلط، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی نے جہانگیر ترین کے بارے میں یہ فرض کر رکھا تھا کہ وہ ستائش یا صلے کی تمنا کے بغیر سب کچھ کر رہے ہیں تو یہ اس کی سادہ لوحی تھی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ انہیں جس عہدے سے ہٹایا گیا یہ تو کبھی اُن کے پاس تھا ہی نہیں، حالانکہ زراعت کے متعلق اجلاسوں میں وہ ہمیشہ شریک رہے اور فیصلوں میں ان کا ہاتھ ہوتا تھا۔ پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے از خود استعفیٰ دے دیا ہے، آٹے کے بحران میں ان کا ذکر آتا رہا ہے کیونکہ فلور ملوں کو گندم کی سپلائی جو محکمے جاری کرتے تھے، وہ اُنہی کے ماتحت تھے ابھی گزشتہ روز ہی انہوں نے کہا تھا کہ بحران میں اُن کا کوئی ہاتھ نہیں، ایسی صورت میں تو انہیں استعفیٰ دینا ہی نہیں چاہئے تھا۔ ممکن ہے اُنہیں خدشہ ہو کہ کہیں ان کے خلاف بھی ایکشن نہ ہو جائے، اِس لئے انہوں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر یہ قدم اٹھا لیا، ویسے اپوزیشن تو الزام لگاتی ہے کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ جس طرح کی صورتِ حال بن گئی ہے اِس لئے بعید نہیں کہ ایسا ہوا ہو۔

بابر اعوان کو پارلیمانی امور کا مشیر بنایا گیا ہے اس تقرر پر حیرت اِس لئے ہے کہ بابر اعوان نہ تو پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں کے رکن ہیں اور نہ ایوانِ بالا کے۔ بہتر ہوتا کہ پارلیمانی امور سے متعلق ہر قسم کی ذمہ داری کسی منتخب رکن کو سونپی جاتی لیکن بہت سے دوسرے حضرات کی طرح پارلیمانی امور کا منصب بھی ایک غیر منتخب شخص کو دے کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان میں مطلوبہ اہلیت کے لوگوں کا قحط ہے اِس لئے باہر سے لوگوں کو مناصب دیے جا رہے ہیں۔ مجموعی طور پر کابینہ پر نگاہ ڈالی جائے تو غیر منتخب ارکان ہی حاوی نظر آتے ہیں۔ جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں بہت سے نام ایسے ہیں جن سے ابھی تک کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے جو وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی ہیں، کہا ہے کہ شوگر ایکسپورٹرز کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کابینہ نے کیا تھا، میرے محکمے نے اس کی حوصلہ شکنی کی اور سبسڈی کے مسئلے پر کسی جانبداری کا اظہار نہیں کیا، کابینہ کے جس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا۔ اس میں محکمہ خزانہ نے سبسڈی دینے کی مخالفت کی تھی اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے، محکمہ خزانہ نے سبسڈی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اسے معاشی معاملات میں خرابی کا موجب قرار دیا۔ ہاشم جواں بخت کے بیان کے بعد یہ بات اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ پھر وہ کون سا دباؤ تھا جس کے تحت پنجاب حکومت نے برآمد کنندگان کو سبسڈی دی۔ یہ صورتِ حال اِس بات کی متقاضی ہے کہ وزیراعظم وفاقی کابینہ میں رد و بدل سے فارغ ہوں تو پنجاب کی جانب سے سبسڈی دینے کے معاملے پر بھی توجہ فرمائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین