• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دو دنوں سے جسم کے درد اور ہلکے بخار نے امریکا کے شہر نیویارک میں مقیم میرے دوست نعمان کوایک انجانے خوف میں مبتلا کردیا تھا۔میڈیا کے ذریعے اسے اتنا تو معلوم ہو چکا تھا کہ چین کے شہرووہان سے شروع ہونے والی کورونا کی وباامریکا تک پہنچ چکی ہے لیکن کیا وہ خود بھی اس وبا کا شکار ہوسکتا ہے، یہ کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ وہ آئی ٹی کے کاروبار سے منسلک تھا۔جب عام نزلہ بخار کی گولیاں کھانے سے بھی آرام نہ آیا تو انجانے خوف نے ایک بار پھر اسےجکڑ لیا،ٹی وی کے سامنے بیٹھا تو اسے اندازہ ہوا کہ امریکا جس کے شہر میں وہ رہائش پذیر ہے وہی اس وقت سب سے زیادہ کورونا کی وبا کا شکار ہے،اس نے فوری طور پر شہر کے معروف اسپتال کی ہیلتھ ایمرجنسی پر فون کر کے کورونا کے حوالے سے معلومات حاصل کیں تو اسے اندازہ ہوا کہ اس میں کورونا وائرس کی کچھ علامات موجود ہیں۔ اسے بتایا گیا کہ یا تو وہ اسپتال آکر اپنا مکمل چیک اپ کرا کر حتمی نتائج حاصل کر سکتا ہے یا پھر کم از کم دو ہفتے گھر میں اکیلے رہ کر اپنی حالت چیک کرے طبیعت اگر زیادہ خراب لگے تو فوری طور پر اسپتال آجائے ورنہ خود بخود ٹھیک ہوجائےگا۔ اسے امید تھی کہ وہ کورونا وائرس کا شکار نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ نیویارک جیسے پُرخطر شہر سے دور رہنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اس نے نیو جرسی میں مقیم اپنے اہل خانہ جس میں اہلیہ بچے اور والدین شامل تھے، سے مشورہ کیا اور فوری طور پر کاروبار معطل کرکے نیویارک سے نیوجرسی میں مقیم اپنے اہل خانہ کے پاس منتقل ہوگیا۔ امریکا کی تیز رفتار زندگی میں وقت کا پتا ہی نہ چلا کس تیزی سے زندگی کی پانچ دہائیاں گزر گئیں، سانس لینے کا موقع ہی نہ مل سکا، سوچا چلو اسی بہانے والدہ اور بیوی بچوں کے ساتھ مہینے بھر کاوقت گزارنے کا موقع مل جائے گا۔ وہ کورونا ٹیسٹ کرائے بغیر نیوجرسی منتقل ہوگیالیکن تاحال اسے اپنی طبیعت نڈھال سی محسوس ہورہی تھی۔یہی وجہ تھی کہ اس نے نیو جرسی میں بھی اپنے آپ کو گھر والوں سے الگ ایک کمرے تک محدود کرلیا لیکن کھانا اور نماز میں اپنی والدہ کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔وہ اپنے اندر موجود ڈر کے باعث اسپتال سے حتمی چیک اپ کرانے سے گریزاں تھا کیونکہ تاحال اس مرض کا کوئی علاج بھی نہ تھا اور اگر اسے کورونا نکل بھی آتا تو اسپتال میں مرنے سے ڈرتا تھا لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کے گھر والے کورونا کا شکار ہوں، اگلے دو دنوں میں اسے سانس لینے میں مشکلات پیدا ہونےلگیں اسے احساس ہوگیا کہ وہ ممکنہ طور پر کورونا کا شکار ہوچکا ہے۔اس نے فوری طور پر اسپتال جانے کا فیصلہ کیا،ایمبولینس بلائی گئی۔ گھر والوں سے آخری ملاقات کرکے اپنی آنکھوں میں آنسو لیےوہ اسپتال روانہ ہوا۔ اس کا ٹیسٹ ہوا جو مثبت آیا اور پھر اسے کورونا وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔اب اسے اپنے آپ سے زیادہ اپنی والدہ اور بیوی بچوں کی فکر تھی۔اسپتال میں ڈاکٹرز کو آگاہ کیا کہ اس نے کئی دن گھر میں گزارے ہیں اور وہ نیویارک سے یہاں آیا ہے لہٰذا فوری طور پر اس کے گھروالوں کا کورونا ٹیسٹ کیا گیا۔بیوی بچے تو محفوظ رہ گئے لیکن بوڑھی والدہ میں کورونا کا ٹیسٹ مثبت آگیا۔نعمان کی بے احتیاطی کے سبب اس کی والدہ بھی بیمار ہو گئیں،انھیں بھی اسپتال منتقل کردیا گیا، ایک دن بعد سانس لینے میں مشکلات کے سبب نعمان کی والدہ آئی سی یو میں وینٹی لیٹرپر تھیں،بدھ کے روز نعمان کے اصرار پر اس کی فون پر والدہ سے بات کرائی گئی، اس کی تہجد گزار اور نیک سیرت والدہ نے دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا جمعہ کو میری روانگی ہے۔اللہ تعالیٰ تمہیں صحت عطا کرے۔نعمان اپنے آپ کو گناہ گار محسوس کررہا تھا۔ اس کی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے اس کی والدہ کورونا کا شکار ہوئیں اور پھر جمعے کے روز نعمان کی والدہ وفات پاگئیں اور نعمان اس بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا۔ ایک ہفتے بعد نعمان کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا اور اگلے روز نعمان کو اسپتال سے چھٹی دے دی گئی۔آج نعمان مجھے اپنی بیماری اور والدہ کی وفات کی تفصیلات بتاتے ہوئے آبدید ہ تھا لیکن اس کا پیغام تھا کہ کورونا سے احتیاط کریں، خود بھی بچیں اپنے اہل خانہ کو بھی بچائیں،احتیاط کریں قاتل نہ بنیں۔

تازہ ترین