• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

”امریکا کی ایک تعمیراتی کمپنی کے کچھ ملازم چین کے جنگل میں درختوں کی کٹائی کر رہے ہیں۔ اِس دَوران کچھ چمگادڑیں اپنے گھونسلوں سے اُڑتی ہیں۔اُن میں سے ایک چمگادڑ کیلا کھارہی تھی، جو اُس کے اُڑنے سے نیچے گر پڑا۔ وہاں سے سؤر گزر رہا تھا، جو اُس اَدھ کھائے کیلے کو کھا لیتا ہے۔ بعد ازاں ،ایک ہوٹل کا شیف اُس کے گوشت سے مختلف ڈشز تیار کرتا ہے، اِس دوران وہ بار بار گوشت کو ہاتھ بھی لگاتا جاتا ہے، یہی شیف گیوینتھ پیلٹرو نامی ایک امریکی خاتون سے ہاتھ ملاتا ہے اور یادگاری تصاویر بھی بنواتا ہے۔ خاتون جب واپس امریکا پہنچتی ہیں، تو چند روز بعد پہلے بخار اور پھر مزید طبیعت خراب ہونے پر انتقال کر جاتی ہیں۔ بعد ازاں اُس کا بیٹا بھی اسی طرح کی بیماری کا شکار ہو کر مر جاتا ہے۔ 

دراصل یہ سب اُس وائرس کا نتیجہ ہے، جو کیلے سے سؤر، پھر شیف سے ہوتا ہوا اُس خاتون اور اس سے میل ملاپ رکھنے والوں میں منتقل ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ وائرس لندن، پیرس اور دیگر شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں افراد کے متاثر ہونے اور بڑے پیمانے پر اموات کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اِس صُورتِ حال پر اسے’’ عالمی وبا‘‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ اِس سے نمٹنے کے لیے کوئی دوا ہے اور نہ ہی ویکسین۔ ماہرین گھروں تک محدود رہنے ہی کو اس کا علاج بتا رہے ہیں۔ پوری دنیا میں افراتفری مچی ہوئی ہے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا، طرح طرح کی سازشی تھیوریز سامنے آرہی ہیں، تاہم ایک امریکی خاتون ڈاکٹر ویکسین ایجاد کر لیتی ہیں، جس کا پہلا تجربہ وہ خود پر کرتی ہیں۔ اب اِس عالمی وبا میں کمی آنا شروع ہو چُکی ہے اور دنیا میں معمولاتِ زندگی بھی بحال ہونے لگے ہیں۔“ یہ موجودہ کورونا وائرس کی کہانی نہیں، بلکہ 2011ء میں ریلیز ہونے ہالی وڈ کی فلم’’ Contagion‘‘ کے مناظر ہیں۔ چوں کہ اس فلم کی کہانی اور موجودہ صُورتِ حال میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے، اِس لیے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے ضمن میں اس فلم کا بار بار ذکر ہو رہا ہے۔ 

نیز، یہ فلم سازشی تھیوریز کے فروغ کا بھی ذریعہ بنی ہے اور اسے بطورِ ثبوت پیش کیا جارہا ہے۔ اس فلم میں تو دنیا ہیرو کی محنت اور طب کی بنیاد پر کام یاب ہوجاتی ہے، تاہم دیکھتے ہیں کہ حقیقی دنیا میں ویکسین کی خوش خبری کب ملتی ہے۔ سائنس فِکشن میں اِس طرح کی فلمز بننا معمول کی بات ہے۔ تخلیق کار سائنسی پیش رفت کی بنیاد پر طرح طرح کی کہانیاں لکھتے ہیں، جن میں سے بعض بعد ازاں حقیقت کا رُوپ دھار لیتی ہیں۔ انسان کا چاند پر اُترنا، خلائی تسخیر اور ایٹمی آبدوزوں کی کہانیوں پر مبنی فلمز اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اس حوالے سے ورنز، ایچ جی ویلز اور ساگنا جیسے قلم کاروں نے بہت شہرت پائی۔ فلم ”Contagion“ اسکاٹ برنز نے لکھی، مگر ہالی وڈ نے اپنے طریقۂ کار کے مطابق اسکرپٹ پر طبّی ماہرین سے بھی مشاورت کی۔ یہ کہنا کہ ان لکھاریوں کو سی آئی اے، کے جی بی یا دیگر ممالک کے خفیہ ادارے مواد فراہم کرتے ہیں یا ان کی رہنمائی کرتے ہیں، درست بات نہیں۔ 

آخر ماضی میں بھی بہت سی عالمی آفات آتی رہی ہیں اور ان کے حوالے سے فلمز یا کُتب بھی موجود ہیں۔ درحقیقت، اِس طرح کی تخلیقات ان اقوام کو غور و فکر کا موقع دیتی ہیں کہ اُن کے مُلکوں اور دنیا میں کیا کچھ ممکن ہے؟ کورونا وائرس اور اس سے پیدا شدہ صُورتِ حال کو کسی مُلک کی سازش قرار دینے والوں کی کمی نہیں، مگر حالات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ ہی درست طرزِ فکر ہے۔ یہ سائنسی حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ ماضی میں بھی مختلف وائرسز جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے رہے ہیں، البتہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو اقوام اس طرح کے جانوروں کا گوشت استعمال کرتی ہیں، کیا وہ ضروری احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتی ہیں؟ ہم گلوبلائزیشن کے عہد میں زندگی گزار رہے ہیں، مُلکوں کے باہمی روابط میں مضبوطی اور وسعت آئی ہے، لہٰذا یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مختلف اقوام کے مشترکات کیا ہیں؟ ان کا کلچر اور طرزِ زندگی کیا ہے؟ کیوں کہ کسی کی ذرا سی بے احتیاطی پوری دنیا کو سخت آزمائش سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر انتہائی معنی خیز اشارہ نظر سے گزرا کہ ”چمگادڑیں تو چین والوں نے کھائیں اور ہاتھ پوری دنیا دھوتی پِھر رہی ہے۔“ دنیا کو اب باہمی روابط کے دَوران صرف معاشی معاملات ہی نہیں، دوست مُمالک کے باشندوں کے رہن سہن کو بھی مدّنظر رکھنا ہوگا۔ 

گو کہ ایڈز اور ایبولا جیسے وائرسز بھی قیامت ڈھاتے رہے ہیں، مگر وہ کورونا کی طرح چُھونے یا سانس کے ذریعے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتے تھے، اس لیے ویکسین اور دوا نہ ہونے کے باوجود دنیا نے اُنہیں کسی حد تک برداشت بھی کر لیا، جب کہ اُن کے نتیجے میں ہونے والی اموات کورونا سے کہیں بڑھ کر تھیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشی طور پر مضبوط مُمالک جیسے تیسے عالمی آفات کے وار سہہ لیتے ہیں، مگر جب یہ وبائی امراض غریب مُمالک کا رُخ کرتے ہیں، تو اُن کے پورے نظام کو ہلا ڈالتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں پولیو، ٹی بی، ملیریا، ایڈز، ڈینگی اور حد تو یہ کہ عام فلو بھی ہزاروں افراد کی جانیں لے لیتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس طرح کے امراض کے باوجود زندگی کا پہیہ چلتا ہی رہتا ہے، کسی لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں پڑتی، اگر جنازے اُٹھتے ہیں، تو ڈولیاں بھی سجتی رہتی ہیں۔ تہوار بھی پورے اہتمام سے منائے جاتے ہیں۔ تاہم، کورونا جیسی آفات سے نمٹنا غریب ممالک کے بس کی بات نہیں، یہی سبب ہے کہ وزیرِ اعظم، عمران خان کو کہنا پڑا”ہمارے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی صحت کا نظام اس قدر مضبوط کہ کورونا کا مقابلہ کر سکیں۔“ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے فخریہ طور پر کہا کہ’’ غریب ممالک کی امداد اور قرضوں کی معافی میں وزیرِ اعظم، عمران خان نے قائدانہ کردار ادا کیا۔‘‘ بات بھی درست ہی ہے کہ حکومت امداد اور وسائل کی فراہمی کے لیے اِدھر اُدھر دستک دیتی پِھر رہی ہے۔ یقیناً کورونا وائرس نے ایک آئینے کی مانند ہمیں یہ حقیقت دِکھا دی کہ ہم جس قوم اور ترقّی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے، اس کی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت اور استعداد کیا ہے؟ قوم کے صبر اور قوّتِ برداشت کا بھی اندازہ ہو گیا۔ نیز یہ بھی کہ ہم مذہبی، سماجی اور اقتصادی معاملات میں کس قدر متوازن سوچ کے حامل ہیں۔

کووڈ19 نے دنیا کے درمیان روابط اور تعلقات کے معاملات بھی یک سَر تبدیل کر دیے ہیں۔ ان معاملات کی مستقبل میں کیا نوعیت ہوگی؟ اس پر ماہرین کے درمیان خاصی بحث ہو رہی ہے۔ خارجہ اُمور کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات سامنے آرہے ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دَوران کئی مذہبی معاملات پر مسلم ممالک اور ہمارے ہاں پائی جانے والی سوچ میں خاصا فرق دیکھا گیا، مستقبل میں اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ پاکستان کے لیے یہ سوال بھی اہم ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں اور امیر مُمالک کی تنظیموں نے امداد کی فراہمی اور قرضوں میں رعایتوں کے ضمن میں غیر معمولی اقدامات کیے، جو ضروری بھی تھے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کا جو نقشہ کھینچا ہے ، وہ معاشی لحاظ سے مضبوط ممالک کے لیے بھی کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ رواں برس کو عالمی معیشت کے لیے اُمید افزا سال کے طور پر دیکھا جارہا تھا، لیکن کورونا کے ایک ہی جھٹکے نے سب کچھ دھڑام سے گرا دیا۔ لاک ڈاؤن نے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر دیا، مگر ایسا کرنا ضروری تھا کہ انسانی جان ترقّی اور عالمی پروگرام پر فوقیت رکھتی ہے۔ 

عُمرے کا سلسلہ بند ہے، ایسٹر کا تہوار خاموشی سے گزر گیا، اولمپکس کھیل ملتوی کر دیے گئے، عالمی سیّاحت ٹھپ ہو گئی، یہ اور ان جیسی دیگر بہت سے سرگرمیاں معاشی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، ان کی معطّلی سے اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ معاشی سرگرمیاں رُکنے سے بے روزگاری کے عفریت نے جنم لیا، جو بذاتِ خود دنیا کے لیے ایک بڑا دردِ سَر ہے۔ بہت سے ممالک پر جنگوں یا کسی قدرتی آفت کے سبب اس طرح کا بُرا وقت آتا رہا ہے، مگر یوں ایک ساتھ پوری دنیا کا معاشی پہیہ رُک جانا، اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اِن حالات میں پاکستان کو سوچنا ہوگا کہ آخر کب تک امداد اور قرضوں پر کام چلایا جاسکتا ہے؟ ابھی تو ہمیں بیل آؤٹ پیکجز مل گئے، جن کے ذریعے وقتی سہارا بھی ملا ہے، مگر یہ ہمارے معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں۔ اگر ہم معاشی ترقّی اور اپنے شہریوں کو روزگار کی فراہمی میں واقعی سنجیدہ ہیں، تو پھر کم از کم اِس مرحلے پر خارجہ پالیسی ازسرِنو ترتیب دینی ہوگی۔ ہمیں اِس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ خارجہ پالیسی میں کن امور کو اولیت دی جائے۔ درحقیقت، خارجہ پالیسی محض قرضوں یا امداد کے حصول کا نام نہیں، بلکہ مُلک کو مضبوط بنانے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ 

اِس ضمن میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا کورونا کی تباہ کاریوں کے بعد ہم کسی علاقائی یا عالمی تنازعے کا حصّہ بننے کے قابل رہے ہیں؟ ان دونوں عوام، حکومت اور ریاست سے دبی دبی زبان میں بہت کچھ کہہ رہے ہیں، مگر چوں کہ اِس وقت جان بچانا زیادہ اہم ہے، اِس لیے وہ کچھ خاموش سے ہیں، لیکن یہ خاموشی زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہے گی۔ تاہم، بہت جلد یہ سوال پوچھا جائے گا کہ آخر حکومت اور ریاست ہر بار عوام ہی کو آزمائش سے کیوں گزارتی ہیں؟ یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ کورونا وائرس آیا ہے، تو اس کی ویکسین بھی آہی جائے گی، مگر اس معاشی ویکسین کا کیا ہوگا، جو ہمیں مشکلات میں اپنے پیروں پرکھڑا رہنے کے قابل کر سکے؟ اقتصادی پالیسی کو ہر چیز پر مقدّم رکھ کر ہی یہ مقام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مکمل امن چاہیے، ہم سائیوں، بڑی طاقتوں اور اُن ممالک کے ساتھ بھی جن سے ہمارے اختلافات دشمنی کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔ اب غلطی کی گنجائش نہیں رہی، ذرا سی بُھول چُوک بھی ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کے لیے ان نقصانات کا ازالہ آسان نہ ہوگا۔

نئے عالمی منظر نامے میں فضائی سفر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ پہلے ہی دہشت گردی کی وجہ سے اِس طرح کے سفر سخت پابندیوں اور چھان بین کی زَد میں ہیں۔ اب کم از کم کورونا کی ویکسین آنے تک بیرونِ مُلک سفر کرنے والوں کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یورپ اور امریکا کے وہ شہر، جہاں عوام کی آمدورفت زیادہ رہتی ہے، کورونا وائرس کا بُری طرح نشانہ بنے۔ اِس ضمن میں لندن، پیرس، اٹلی اور نیویارک کی مثال دی جارہی ہے۔ دوسری طرف وہ مُلک قدرے محفوظ رہے، جہاں باہر سے آنا جانا کم رہتا ہے اور پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔ لگتا یہی ہے کہ سفری پابندیاں لگیں گی تو، مگر ان کا طویل عرصے تک جاری رہنا ممکن نہیں، کیوں کہ ان ممالک کی معیشت میں سیّاحت خون کا درجہ رکھتی ہے، اسے محدود کرنا غیر معموملی اقتصادی نقصانات کا سبب ہوگا، مگر پھر بھی کچھ عرصے تک عوام کو سفری پابندیاں برداشت کرنی ہی پڑیں گی۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں بیرونِ مُلک مقیم 90 لاکھ پاکستانیوں کو بھی اہمیت دینی ہوگی کہ مستقبل میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ 

اسی طرح بیرونِ مُلک تعلیم کے معاملات ہیں، جو کئی ممالک کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے۔ لاکھوں پاکستانی طلبہ مختلف مُمالک میں زیرِ تعلیم ہیں، اُن کا کیا بنے گا؟ یہ ہمارے پالیسی سازوں کے لیے اہم سوال ہونا چاہیے۔کورونا وائرس کے دَوران تیل کی قیمتیں بھی شدید اُتار چڑھاؤ کی زَد میں ہیں۔ روز گراوٹ کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ یہ صُورتِ حال سعودی عرب اور روس کی کش مکش کا نتیجہ ہے، جس نے اُن دونوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ سعودی عرب نے اوپیک کے ساتھ مل کر تیل کی پیداوار میں 10 فی صد کمی کر دی۔دوسری طرف، دنیا بھر میں لاک ڈاؤن نے تیل کی مانگ اس قدر کم کر دی، جس کا تصوّر تک نہیں کیا جاسکتا تھا، اِس سے تیل کے حامل ممالک کو شدید دھچکا لگا۔ امریکی تیل کی قیمت تو ایک وقت میں منفی اعشاریوں تک جا پہنچی۔ ہم عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب اور یو اے ای سے اپنی تیل کی ضروریات پوری کرتے ہیں، جو 14 بلین ڈالر سالانہ ہے۔ 

اب قیمتوں میں کمی کے بعد یہ چھے ارب ڈالرز تک آگئی ہیں، جو ہماری معیشت کے لیے ایک اچھی خبر ہے، لیکن دسری جانب، تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان ممالک میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، اُنہیں بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے ایک طرف تو زرِمبادلہ میں کمی کا خدشہ ہے، تو دوسری طرف، یہ لاکھوں افراد کے روزگار کا بھی معاملہ ہے، جن کے بھجوائے گئے پیسوں سے پاکستان میں ان کے گھروں کے چولھے جلتے ہیں۔ خارجہ امور میں اس مسئلے کو بھی اولیت دینی ہوگی۔

تازہ ترین