• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ مَیں ایف سی پی ایس پارٹ ٹو کی ایک ٹرینی ڈاکٹر ہوں اور میری روٹیشن پر آئی سی یو میں ڈیوٹی لگتی رہتی ہے۔ کورونا سے مجھے بھی اُسی طرح ڈر لگتا ہے، جیسے عام لڑکیوں کو، لیکن فرق یہ ہے کہ میری ہم عُمر لڑکیاں گھروں میں ہیں اور شاید اپنے بچّوں کو زیادہ وقت بھی دے رہی ہوں گی۔ یہ دو رات پہلے کی بات ہے۔ آئی سی یو میں نرسنگ اسسٹنٹ اور ایک جوان عورت کی تیز بخار اور سانس کی تکلیف کی وجہ سے، وینٹی لیٹر پر ہونے کے باوجود، موت ہو گئی، تو مَیں خُوب روئی۔ 

اِس قدر روئی، جیسے خود مرگئی ہوں اور اپنی موت پر خود ہی رو رہی ہوں۔ مَیں اِن دنوں تین بار رات کی ڈیوٹی کر چُکی ہوں اور سب کہتے ہیں کہ اُن مرنے والوں میں کورونا انفیکشن کا شک تھا۔ اگر یہ سچ ہے، تو پھر یقیناً مَیں بھی کورونا کا شکار ہو چُکی ہوں۔ یہاں ٹیسٹ کروانے کا کوئی بندوبست نہیں۔ ڈر کے مارے گھر نہیں جا رہی کہ وہاں پہنچنے پر جب میرا دو سال کا اکلوتا بیٹا بھاگتا ہوا مجھ سے لپٹے گا، تب کیا کروں گی؟ تین دن سے اسپتال میں ہوں۔ میاں سے کپڑے منگوا لیے ہیں اور وہ بھی دُور ہی سے لیے تاکہ میاں اور بیٹا محفوظ رہیں۔ کبھی خیال آتا ہے کہ آخر ڈاکٹر ہی کیوں بنی؟

 کتنے سکون میں ہیں وہ لڑکیاں، جو بی اے کرکے شادی کر لیتی ہیں اور میاں کی خدمت کرکے خوش رہتی ہیں۔ خُوب فیشن کرتی ہیں، گھومتی پِھرتی ہیں اور اپنے بچّوں کو بھی توجّہ سے پالتی ہیں۔دوسری طرف مجھ جیسی لیڈی ڈاکٹرز ہیں، جن سے گھر والے خوش ہوتے ہیں اور نہ ہی لوگ وہ عزّت دیتے ہیں، جس کے خواب ہم نے ڈاکٹر بننے سے پہلے دیکھے تھے۔ اپنے کے لیے وقت کہاں سے لائیں کہ ہم تو اپنے بچّوں کو بھی وقت نہیں دے پاتیں۔اب کورونا نے قیامت ڈھائی ہے، تو وہ لوگ جو ہمیں’’ قسائی ڈاکٹر‘‘ کہتے تھے،’’ ڈاکٹر سپاہی‘‘ کہہ رہے ہیں۔ ہمیں کسی سے کوئی گلہ نہیں، مگر جس طرح قوم اپنے فوجی سپاہیوں کو بندوق دے کر سرحد پر حفاظت کے لیے کھڑا کرتی ہے، پلیز! ہمارے لیے بھی کچھ ضروری حفاظتی اشیاء کا بندوبست کردیں۔ ہم تو ایسے بے یارومددگار سپاہی ہیں کہ جو دشمن کے وار سے خود کو بھی نہیں بچا پا رہے۔ کوئی مورچہ ہے، نہ کوئی بندوق۔ غازی بنیں نہ بنیں، شہادت تو مل ہی جائے گی۔اللہ کا شُکر ہے کہ اسمارٹ فون اور واٹس ایپ کی سہولت حاصل ہے، ورنہ تو اپنے بچّے کو بھی نہ دیکھ پاتی۔ 

بیٹا پوچھتا ہے’’ ممّا گھر کب آئیں گی…؟؟‘‘ تو دوسری طرف منہ کر لیتی ہوں کہ وہ آنسو نہ دیکھ لے۔مجھے کورونا نہ ہوا، تو 15 دن بعد ضرور گھر جاؤں گی۔اس یقین کے ساتھ ڈیوٹی کر رہی ہوں کہ اگر ڈر کر بھاگ جانے سے کسی مریض کو طبّی امداد نہ ملی، تو میری ڈاکٹری کا کیا فائدہ؟ اسپتال میں پڑے رہنے کا ایک فائدہ یہ ضرور ہے کہ اگر مجھے کورونا انفیکشن ہو چُکا ہے، تو دُور رہنے سے میرا بیٹا اور میاں تو محفوظ ہیں۔بیٹے کو گلے لگانے کو بہت دِل مچلتا ہے، مگر آئی سی یو میں پڑے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑ سکتی کہ اب تو آپ ہم ینگ ڈاکٹرز کو’’ قوم کے سپاہی‘‘ کہنے لگے ہیں۔ اب ہم سب نے لڑنا ہے یا مرنا ہے۔ نہ رہی، تو فیصلہ آپ ہی کر لینا کہ مَیں ماں اچھی تھی یا ڈاکٹر سپاہی …!!!‘‘سوشل میڈیا پر وائرل یہ کہانی، کسی لیڈی ڈاکٹر کی حقیقی آپ بیتی ہے یا ڈاکٹرز کے مسائل علامتی انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش، حقیقت خواہ کچھ بھی ہو، لیکن سچ یہی ہے کہ ڈاکٹرز اِن دنوں اس سے بھی بُرے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹرز کی دہائیاں

پا کستا ن میں کورونا وائر س کا پہلا کیس26فروری کو ایرا ن سے کراچی آنے والے 22سالہ نوجوان ،یحییٰ جعفری میں رپورٹ ہوا، جس کے بعد سے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تادمِ تحریر (24اپریل تک) 237افراد اس وائرس کی لپیٹ میں آکر جاں بحق ہوچُکے ہیں۔ دوسری طرف، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف متاثرہ افراد کے علاج معالجے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ قرنطینہ مراکز میں ہزاروں مشتبہ مریضوں کے ساتھ معالجین بھی موجود ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو کورونا وائرس کے خلاف لڑی جانے والی اِس جنگ میں طبّی عملہ فرنٹ لائن کے سپاہی کا کردار ادا کر رہا ہے، مگر ایک ایسا سپاہی، جو چاروں طرف سے خونخوار دشمن کے نشانے پر ہونے کے باوجود نہتّا ہے۔ 

اس کے پاس دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے کوئی آڑ ہے اور نہ ہی بُلٹ پروف جیکٹ سمیت دیگر حفاظتی اشیاء۔ کس قدر حیرت انگیز، افسوس ناک اور شرم ناک بات ہے کہ دو ماہ گزر جانے کے باوجود طبّی عملے کو حفاظتی کِٹس کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ لاہور کے ینگ ڈاکٹرز نے اِس صُورتِ حال کے خلاف احتجاج کیا، خیبر پختون خوا کے کئی اسپتالوں سے ڈاکٹرز کی پلاسٹک کی تھیلیاں پہنے تصاویر سامنے آئیں۔ سندھ کے ڈاکٹرز چیخ پکار کر رہے ہیں، بلوچستان میں ڈاکٹرز نے اپنی جان کی حفاظت کا سوال اُٹھایا، تو اُن پر ڈنڈے برسائے گئے اور ریوڑ کی شکل میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔

معاملہ کتنا سنجیدہ ہے؟

ڈاکٹرز کے احتجاج اور مطالبات کے جواب میں ایک طرف تو شانِ بے نیازی ہے اور دوسری طرف، ایسی باتیں بھی سُننے میں آرہی ہیں ”ڈاکٹرز تو کچھ زیادہ ہی ڈرپوک نکلے“ اور یہ بھی کہ ”یہ اِتنا سنجیدہ معاملہ نہیں، جتنا ڈاکٹرز نے شور مچا رکھا ہے۔“ آیا یہ معاملہ واقعی بہادری اور بزدلی کا ہے؟ اور اِسے زیادہ سنجیدہ لینے کی بھی ضرورت نہیں؟ نہیں، ہرگز ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں 100 سے زاید ڈاکٹرز طبّی عملہ حفاظتی لباس نہ ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس کا شکار ہو چُکا ہے، جب کہ اب تک دو ڈاکٹرز اور ایک نرس مریضوں کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ اِس وقت ایک، دو نہیں، کئی درجن ڈاکٹرز قرنطینہ میں ہیں۔ 

اِس معاملے کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ کورونا سے متاثرہ طبّی عملے کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن مردان کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ اُنہوں نے حفاظتی کِٹس نہ ہونے پر میڈیا سے گفتگو کی، تو حکّام نے مسئلہ حل کرنے کی بجائے اُنہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ چند روز بعد پتا چلا کہ ڈاکٹر ضیاءکے خدشات درست تھے، بدقسمتی سے وہ کوروناوائرس کا شکار ہوگئے۔ 

اسلام آباد کے پولی کلینک اسپتال کے 28 ڈاکٹرز اُس وقت قرنطینہ میں چلے گئے، جب اُن کے ایک ساتھی ڈاکٹر میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ جنوبی پنجاب کے ایک بڑے اسپتال، نشتر اسپتال ملتان کے 20 ڈاکٹرز اِس موذی مرض میں مبتلا ہو چُکے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے قرنطینہ مرکز میں خدمات انجام دینے والے 18 ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملے کے 12 ارکان میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔ پنجاب کے دیگر شہروں لاہور، گجرات، راول پنڈی اور فیصل آباد میں بھی کئی ڈاکٹرز اس وائرس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ 

کراچی کے دو بڑے سرکاری اسپتالوں، جناح اسپتال اور عبّاسی شہید اسپتال کے کئی ڈاکٹرز میں کورونا کی تصدیق ہو چُکی ہے، جب کہ دو بڑے معروف نجی اسپتالوں کے بھی کم از کم 5 ڈاکٹرز اس کا نشانہ بنے ہیں۔ بلوچستان سے بھی اِسی طرح کی رپورٹس آرہی ہیں، بلکہ وہاں سے تو یہ تشویش ناک خبر سامنے آئی کہ 4 ایسے ڈاکٹرز میں بھی یہ وائرس پایا گیا، جوکسی کورونا وارڈ یا قرنطینہ مرکز سے وابستہ نہیں تھے، بلکہ دیگر شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے تھے، جس کے بعد کہا جارہا ہے کہ عام وارڈز اور اسپتالوں میں کام کرنے والوں کو بھی حفاظتی کِٹس دی جانی چاہئیں۔ گلگت بلتستان کاماجرا بھی ایسا ہی ہے۔ وہاں قرنطینہ مرکز میں ڈیوٹی پر مامور جواں سال، ڈاکٹر اسامہ ریاض کورونا کا شکار ہو کر انتقال کرگئے۔ 

ڈی آئی خان کے ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتال کے آئسولیشن وارڈز میں کام کرنے والے دو ڈاکٹرز بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ بہت سے ڈاکٹرز، بالخصوص نوجوان ڈاکٹرز گھر والوں کی روک ٹوک کے باوجود محض انسانیت کی خدمت کے پیشِ نظر کورونا وارڈز اور قرنطینہ مراکز میں خدمات انجام دے رہے ہیں، لہٰذا اِن پر بزدلی کی پھبتی کسنا سنگ دِلی کے سوا کچھ نہیں۔ 

پھر وہ والدین بھی داد کے مستحق ہیں، جو اِس قدر سنگین صُورتِ حال کے باوجود اپنے جگر پاروں کو انسانیت کی خدمت کی ترغیب دے رہے ہیں۔ پشاور کے فخر الاسلام تو میڈیا کی نظروں میں آگئے، جو ہر صبح اپنی دو ڈاکٹر بیٹیوں کو اِس محاذ پر روانہ کرتے ہیں، مگر نہ جانے اور کتنے ایسے والدین ہوں گے، جو اپنے ڈاکٹر بچّے، بچّیوں کو خود دروازے تک چھوڑنے جاتے ہیں، حالاں کہ اِس دوران اُن پر جو قیامت گزرتی ہے، کوئی دوسرا اُس کا تصوّر تک نہیں کر سکتا۔

حکومتی سنجیدگی کا یہ عالم

پاکستان میں کورونا وائرس پھیلا، تو ڈاکٹرز کی جانب سے حفاظتی کِٹس کا مطالبہ سامنے آیا۔ اِس ضمن میں لاہور کے ینگ ڈاکٹرز نے احتجاج کیا، مگرحکومت نے اُسے اُن کی بلیک میلنگ اور ڈیوٹی سے فرار کا حربہ قرار دیا۔ اس کے بعد بھی مُلک کے مختلف حصّوں سے ڈاکٹرز اور اُن کی تنظیموں نے اِس معاملے پر آواز بلند رکھی، جس کی نہ صرف پاکستان، بلکہ عالمی میڈیا میں بھی گونج رہی ،مگر حکومت اس پر بھی ٹس سے مَس نہ ہوئی۔ جب مُلک میں کورونا کی تباہ کاریاں بڑھیں، متاثرہ ڈاکٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا، احتجاج کا سلسلہ دراز ہونے لگا اور عدالتِ عظمیٰ نے حکومت کو کٹہرے میں کھڑاکیا، تب کچھ سنجیدگی دِکھائی گئی اور بھاگم بھاگ حفاظتی کِٹس منگوانے کے لیے آرڈرز دے دیے گئے۔ 

چوں کہ اِس حکومتی خراٹے بازی کے دَوران بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو چُکا تھا، اِس لیے سامان پہنچنے میں تاخیر ہوئی ۔ دوسری طرف جو حفاظتی اشیاءمارکیٹ میں موجود تھیں، وہ بھی حکومت کی کم زور گرفت کے سبب مافیا نے غائب کردیں۔ اِن حالات میں ڈاکٹرز کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت بھی حفاظتی کِٹس کی خریداری ممکن نہیں رہی۔ حکومت کے لیے کس قدر شرم کی بات ہے کہ ڈاکٹرز کو حفاظتی کِٹس کی فراہمی کے لیے مخیّر افراد تک سے اپیل کرنی پڑی۔ اطلاعات کے مطابق، کراچی کے جناح اسپتال میں فلاحی اداروں نے حفاظتی کِٹس تقسیم کیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت شہر میں کئی اسپتال کام کر رہے ہیں، جن میں شہر کا تیسرا بڑا اسپتال، عبّاسی شہید اسپتال بھی شامل ہے۔کے ایم سی کی سینئر ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسز، ڈاکٹر سلمیٰ کوثر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا ”ہمیں وفاق یا صوبائی حکومت کی جانب سے ابھی تک کچھ نہیں ملا، البتہ میئر وسیم اختر نے اپنے وسائل اور مختلف سماجی تنظیموں کے تعاون سے 15 سو ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو حفاظتی کِٹس فراہم کی ہیں۔“ اِس معاملے کا یہ پہلو بھی کم سنگین نہیں، جس کی جانب بعض ڈاکٹرز نے اشارہ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے جو حفاظتی کِٹس اسپتالوں کی انتظامیہ کو فراہم کی گئیں، اُن کی تقسیم میں شفّافیت کے تقاضے مدّ ِنظر نہیں رکھے جارہے ، جس کے سبب طبّی عملہ ان کِٹس سے محروم ہے یا اُسے اِن کے حصول میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حفاظتی کِٹس کیا ہیں؟

”پرسنل پروٹیکٹیو ایکوئپمینٹ“ (پی پی ای) یعنی ذاتی حفاظتی آلات میں این 95 ماسک، گاؤنز، دستانے، جوتوں کے کور، فیس شیلڈ اور آنکھوں کے حفاظتی گاگلز وغیرہ شامل ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے طبّی عملے کو سختی سے یہ مخصوص لباس پہننے کی ہدایت کی ہے۔ چوں کہ اِس لباس کا بنیادی مقصد وائرس سے بچاؤ ہے، لہٰذا اسے ایسے میٹریل سے تیار کیا جاتا ہے، جس سے جراثیم نہ گزر پائیں۔ طبی نقطۂ نظر سے یہ اشیاءایک بار استعمال کے بعد ضائع کرنی ہوتی ہیں، لیکن ان کی قلّت کے پیشِ نظر بعض مقامات پر ڈاکٹرز کو بار بار یا پھر مقرّرہ مدّت سے زیادہ دیر تک یہ حفاظتی لباس استعمال کرنے پڑ رہے ہیں۔

حفاظتی لباس کے فوائد

اگر ڈاکٹرز حفاظتی کِٹس استعمال کرتے ہیں، تو وہ اس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ خود وائرس سے محفوظ رہتے ہیں، بلکہ دوسروں کی بھی حفاظت کا سبب بنتے ہیں۔ کورونا وائرس کے بارے میں یہ تو معلوم ہی ہے کہ یہ انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے، لہٰذا اگر کوئی ڈاکٹر حفاظتی لباس پہنے بغیر مشتبہ مر یضوں کا معاینہ کر رہا ہو، تو اگر اُن میں سے کوئی کورونا کا مریض ہے، تو اُس سے یہ مرض ڈاکٹر اور پھر ڈاکٹر سے دیگر مریضوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ نیز، جب تک کسی مریض میں کورونا کی تصدیق ہوتی ہے، تب تک وہ ڈاکٹر اپنے ساتھی اسٹاف تک بھی یہ وائرس منتقل کر چُکا ہوتا ہے۔اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حفاظتی لباس نہ صرف یہ کہ ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملے بلکہ عام مریضوں کو بھی کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے اور اس معاملے میں ذرا سی کوتاہی بڑے انسانی المیے کا سبب بن سکتی ہے۔

ڈاکٹر معالج بھی، امام بھی…

خیبر پختون خوا کے ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام کے سرکاری اسپتال میں ایک ضعیف العمر شخص کورونا وائرس کے سبب انتقال کر گیا۔ اسپتال انتظامیہ نے ایک مقامی عالم دین سے رابطہ کرکے نمازِ جنازہ پڑھانے کی درخواست کی، تو اُنہوں نے جواب دیا ”مجھے ایسے حالات میں خوف آتا ہے، اِس لیے اِس معاملے میں نہیں پڑنا چاہتا، خود ہی نمازِ جنازہ پڑھا دیں۔“ ڈاکٹر حافظ ثنا ء اللہ آگے بڑھے، تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ میّت کو غسل دیا، پلاسٹک میں بند کرکے کفن پہنایا، اُسے تابوت میں رکھا اور پھر اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائی ، جس میں اسپتال کا عملہ شریک ہوا۔ بعد ازاں اُنہوں نے میّت قبر میں بھی خود اُتاری۔ڈاکٹرز کا یہ رُوپ اُن بہت سے سوالات کا جواب ہے، جو اکثر ان کے پیشے اور شخصیت کو حوالے سے اُٹھائے جاتے ہیں۔

وفاق کی خوش خبریاں، تو صوبائی حکومتیں بھی مطمئن

13 اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس گل زار احمد کے پہلے ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی، جس میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔اس دوران حفاظتی کِٹس کا معاملہ بھی زیرِ غور آیا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیرِ اعظم کے مشیرِ صحت، ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی سے متعلق سخت ریمارکس دیے۔بعدازاں اُسی روز وزیرِ اعظم کے مشیرِ صحت، ڈاکٹر ظفر مرزا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’’جن اسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریض زیادہ ہیں، وہاں کے طبّی عملے کو براہِ راست حفاظتی کِٹس پہنچائی جا رہی ہیں۔نیز، طبّی عملے کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اُن میں سے کن کو اِن کِٹس کی ضرورت ہے اور کن کو نہیں۔‘‘اُنھوں نے یہ خوش خبری بھی سُنائی کہ’’ اگلے چند ہفتوں میں این 95 کے علاوہ باقی تمام حفاظتی آلات میں پاکستان خود کفیل ہوجائے گا، جب کہ این 95 بھی مقامی طور پر بنانے کی تیاریاں مکمل ہیں اور جلد ہی اس کی یومیہ ایک لاکھ پروڈکشن شروع ہوجائے گی۔‘‘بلوچستان حکومت کے ترجمان، لیاقت شاہوانی کا اِس ضمن میں میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ’’ ڈاکٹرز کو پچاس ہزار سے زاید این 95 ماسک اور دیگر حفاظتی آلات پہلے ہی فراہم کردیے گئے تھے، صرف گاگلز کا مسئلہ ہے، وہ بھی چند دنوں میں حل ہوجائے۔‘‘ 

اُدھر پنجاب کی وزیرِ صحت، ڈاکٹر یاسمین راشد اور وزیرِ صحت کے پی کے، تیمور خان جھگڑا نے بھی مختلف مواقع پر میڈیا سے گفتگو میں اِس امر کا اظہار کیا کہ’’ اب حفاظتی کِٹس کی کمی پر بہت حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ کورونا متاثرین کے علاج معالجے میں مصروف عملے تک ضرورت کے مطابق حفاظتی سامان پہنچادیا گیا ہے۔‘‘محکمۂ صحت سندھ کے رابطہ افسر، عاطف حسین نے مختلف سوالات کے جواب میں بتایا’’ سندھ حکومت نے اسپتالوں کے ایم ایس صاحبان سے اُن کی ضروریات کا پوچھا اور جس نے جتنی حفاظتی کِٹس طلب کیں، اُتنی فراہم کردی گئیں۔اِس وقت تمام ایسے اسپتالوں میں جہاں کورونا کا علاج ہو رہا ہے اور تمام تر قرنطینہ مراکز میں بھی، ڈیوٹی دینے والوں کو مسلسل حفاظتی کِٹس مل رہی ہیں۔البتہ یہ ضرور ہے کہ اسپتالوں کے پورے عملے کو حفاظتی لباس فراہم نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی اِس کی ضرورت ہے۔‘‘

’’حکومتی پالیسیز ناقص ، افسران سہمے ہوئے ہیں‘‘، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پاکستان

”دو ماہ گزرنے کے باوجود ڈاکٹرز کو ضرورت کے مطابق حفاظتی کِٹس کیوں نہیں مل پا رہیں؟“ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان کے سیکرٹری، ڈاکٹر سلمان کاظمی کا اِس سوال کے جواب میں کہنا تھا ”حکومت کے پاس تو حفاظتی کِٹس تھیں ہی نہیں، جب دباؤ بڑھا ،تو چین سے منگوائی گئیں، لہٰذا اِس کی وجہ سے بھی تاخیر ہوئی۔ پھر یہ ہوا کہ وہ اشیاء این ڈی ایم اے اور پھر مختلف اداروں سے ہوتی ہوئیں صوبوں کے ڈی جیز ہیلتھ کے پاس پہنچیں۔ اُنہوں نے اسپتالوں کو ہدایت کی کہ وہ مطلوبہ اشیاءکے لیے خط لکھیں۔ اب کسی نے خط لکھا، کسی نے نہیں اور جس نے خط لکھا، اُسے بھی ضرورت سے کم کِٹس تھما دی گئیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف نے بلوچستان وغیرہ میں براہِ راست اسپتالوں تک کِٹس پہنچائیں اور اب این ڈی ایم اے بھی یہی کر رہا ہے، جس سے صُورتِ حال میں بہتری آئی ہے۔“ اُنہوں نے اِس معاملے کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”حکومت نے اسپتالوں کو حفاظتی کِٹس خریدنے کے لیے بجٹ دیا ہے، مگر ایم ایس صاحبان ایسا کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں یہ اشیاء بلیک میں اور منہگے داموں مل رہی ہیں، لہٰذا افسران اپنی گردن بچانے کے چکر میں کہ کل کلاں نیب یا آڈٹ سے متعلق ادارے خریداری کی رسیدوں پر اعتراض کر سکتے ہیں۔اگر حکومت خود مرکزی طور پر خریداری کرتی، تو صُورتِ حال اتنی خراب نہ ہوتی۔ تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود اب بھی این 95 ماسکس کی شدید قلّت ہے۔“

مراعاتی پیکیج، صرف اعلانات اور وعدے

چین میں کورونا وائرس نے وار شروع کیے، تو حکومت نے ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملے کو اُس کے خلاف میدان میں اُتارا، لیکن وہ ڈاکٹرز نہتے نہیں تھے، بلکہ ایک طرف تو اُنھیں مکمل حفاظتی سامان مہیا کیا گیا، تو دوسری طرف، حکومت نے اُن کے اہلِ خانہ کی مکمل کفالت کی ذمّے داری بھی اُٹھائی تاکہ وہ مکمل یک سوئی سے اپنا کام کرسکیں۔ اِدھر پاکستان میں ایک تو حفاظتی سامان کی قلّت کے سبب ڈاکٹرز کے لیے خود کو بچانا بھی کسی امتحان سے کم نہیں، اوپر سے اُن کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی بڑا مراعاتی پیکیج بھی سامنے نہ آسکا۔ 

پنجاب حکومت نے ایک ماہ کی تن خواہ اور کچھ الاؤنس دینے کا اعلان کیا، تو سندھ نے بھی انگڑائی لی اور اسی طرح کا اعلان کردیا، حالاں کہ سندھ حکومت اِس سے قبل دیگر سرکاری ملازمین کے ساتھ ڈاکٹرز کی تن خواہوں میں بھی کٹوتی کر چُکی تھی، جو واپس کردی گئی۔ باقی صوبوں کی جانب سے بھی ایک آدھ تن خواہ پر مشتمل پیکیجز کے اعلانات ہوئے۔ تاہم، قوم کے مسیحا فی الحال کوئی بڑی خوش خبری سُننے سے محروم ہی ہیں۔

تازہ ترین