• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ سالوں میں پاکستان اور بھارت کے سابق عہدیداران اور اسکالروں کے درمیان ٹریک ٹو طرز کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا مقصد دوطرفہ تنازعات پر باضابطہ مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھا۔ ان ملاقاتوں میں سے زیادہ تر ملاقاتوں کو مغرب کا مالی تعاون حاصل تھا۔گزشتہ ہفتے اسی طرز کی ایک سہ فریقی گول میز کانفرنس کا انعقاد دبئی میں ہوا جس میں پاکستان، بھارت اور چین کے تزویری امور کے ماہرین نے شرکت کی۔
ان سہ فریقی سیکورٹی مذاکرات میں ایران میں ہونے والی پیشرفت سے درپیش چیلنجوں، اس کے علاوہ عالمی سطح پر ترک اسلحہ کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس بات چیتمیں تینوں ممالک کے تزویراتی نظریات پر بحث ہوئی جس میں مشترکہ تزویری لغت ابہام کا شکار نظر آئی۔ کانفرنس کی کارروائی میں یہ نکتہ اجاگر کیا گیا کہ پہلے تو تزویری استحکام سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی راہ ہموار کرنے والے عوامل کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور پھر فریقین ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں یا پھر اسے آسانی کے ساتھ جوہری ریاستوں کے مابین عسکری تنازعات کی عدم موجودگی گردانا جاسکتا ہے۔ گفتگو سے سامنے آیا کہ کم از کم قابل اعتماد مزاحمت کے نظرئیے کے حوالے سے تینوں ممالک کے تصورات مختلف تھے تاہم کئی امور پر اتفاق بھی پایا جاتا ہے جس میں خطے میں دیرپا امن قائم کرنے کی خواہش بھی شامل ہے، خاص طور پر اس وقت جب خطے میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی طاقت افغانستان سے نکل رہی ہے۔
اس موقع پر ایک اسپیکر کا کہنا تھا کہ ایشیاء اس وقت ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، یہ صورتحال تینوں ممالک سے بحرانی فیصلوں کی متقاضی ہے۔ بے اعتمادی کو کم کرکے باہمی اعتماد کو بڑھانا ہر ملک کیلئے اہم سمجھا گیا۔ تینوں ممالک کے شرکاء نے اس بات پراتفاق کیا کہ آنے والے برسوں میں انہیں اندرونی چیلنجوں کا سامنا ہو گا۔ ایک چینی مندوب کا کہنا تھا کہ مشرقی ایشیاء میں حالیہ شورش باوجود دنیا کے دوسریخطوں کے مقابلے میں زیادہ پُرامن رہا اور یہاں معاشی ترقی اور تعاون میں بھی استحکام رہا۔ جوہری نظریات کے حوالے سے سیر حاصل بحث ہوئی اگرچہ اس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا، یہ نکتہ زیر بحث رہا کہ کس حد تک ٹیکنالوجی تزویری نظریات کو تبدیل کر سکتی ہے لیکن زیادہ اہمیت کے ساتھ اس نکتے پر روشنی ڈالی گئی کہ خطے سمیت عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں کس طرح جوہری پالیسی کے خدوخال تراش رہی ہیں۔ تینوں ممالک کی جوہری تزویر میں جوہری حملے کے جواب میں التواء کی قدر مشترک نظر آئی جسے فریقین کی جانب سے مزاحمت کے توازن اور استحکام کے طور دیکھا گیا۔ اس وضع سے سرد جنگ جیسی کیفیت سے تو چھٹکارا ملا ہے لیکن اس کے لئے فریقین کی جانب سے جوہری مقابلے کو ترک کرنے اور ہتھیاروں کی دوڑ اور گزرے وقت کی دیگر باقیات سے علیحدگی کے عزم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس میں چینی اور پاکستانی شرکاء نے بھارت اور امریکہ کے تعاون سے ایشیاء اور بحرالکاہل کے نام پر ایشیاء میں میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ پیشرفت چین کے جوہری جدت کے منصوبوں پر اثر انداز ہوگی۔ اہم ترین حاصلِ کانفرنس یہ تھا جوہری اعتماد سازی کے اقدامات قوموں کے درمیان غیر حل شدہ تنازعات اور اعتماد کے فقدان کے باعث تقویت حاصل نہیں کرپاتے، جس کی وجہ ممالک کے درمیان تناوٴ کی فضا متواتر قائم ہوتی رہتی ہے۔
ایک چینی مقرر کا کہنا تھا کہ جب تک تزویری امور کو مذاکرات کا باضابطہ جزو نہیں بنایا جاتا تب تک مسائل کا بامعنی حل نکلنا مشکل ہے۔ بھارتی شرکاء نے سہ فریقی کانفرنس کے ایجنڈے کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ دوسرے شرکاء نے جوہری اعتماد اور تذویری استحکام کے لئے مضبوط سیاسی بنیاد کا قیام عمل میں لا کر ممالک کے مابین تناوٴ کی بنیادی وجوہات کا احاطہ کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ امریکہ کی ایشیائی اور بحر الکاہل کے خطوں کے مابین دوبارہ توازن کے قیام پر مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے ایک چینی مقرر کا کہنا تھا کہ ہاں چین کو یقینا امریکہ اور بھارت کے مابین جوہری تعاون کے عمل سے تشویش لاحق ہے اور وہ صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے بند باندھنے کی پالیسی پر کاربند ہے لیکن امریکی صدر اوباما کی دوسری مدت صدارت میں چین کے ساتھ تعاون بڑھانے کی سنجیدگی کیلئے امریکہ کی جانب سے کئی مثبت اشارے ملے جس میں وزرائے خارجہ کا انتخاب شامل ہے۔ حالانکہ پچھلے کئی سالوں میں امریکہ کا ایشیائی خطے میں عسکری ذرائع کی جگہوں میں تبدیلی سے چین کے شکوک میں اضافہ ہوا ہے پھر بھی چین نے ٹھہرو اور انتظار کرو کا نظریہ اختیار کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ چین میں اندرونی طور پر یہ بحث جاری تھی کہ امریکہ کی جانب سے10 2009-ء کے دوران بیجنگ کے ساتھ اپنے تنازعات میں کچھ ازسرنو توازن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اکتوبر2011ء سے قبل 15ماہ کے لئے جنوبی چین کے سمندر کے معاملے پر چین کا سرکاری طور پر خاموشی کا حوالہ دیا جب بیجنگ نے بالآخر واضح کیا کہ ان پانیوں پر اپنا دعویٰ دائر نہیں کرتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی ملک چین کے تمام جنوبی چین پر کنٹرول کے حق کے موقف کی تائید نہیں کرسکتا۔ انہوں نے چین کے حوالے سے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے 18مارچ کے آرٹیکل میں چین کی خارجہ پالیسی پر اٹھائے گئے سوالات کا جوابات آرٹیکل میں پیش کئے جانے والے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ چین اپنے اندرونی معاملات میں اس قدر الجھا ہوا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں مستقل نہیں سوچ سکتا، آج کے حالات میں معاشی اور تجارتی پہلوچین کی خارجہ پالیسی ترتیب دے رہے ہیں۔ انہوں نے چینی خارجہ پالیسی کو موقع پرستی پر مبنی گردانا، صرف پاک چین تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ چین کے ساتھ کھڑا رہا اورایشیاء میں پاکستان، چین کیلئے تزویری توازن کا آلہ کار رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ معاشی طور پر کمزور ہونے کے باوجود بھی دنیا میں وہ واحد عالمی طاقت ہے۔ چین اب تک دوسری عالمی طاقت نہیں بنا کیونکہ وہ اب بھی بین الاقوامی دنیا کا بوجھ سہارنے کیلئے رضامند نظر نہیں آتا۔ کیا مغرب کی یہ نکتہ چینی صحیح ہے کہ چین بین الاقوامی ذمہ داریاں اٹھائے بغیر عالمی طاقت بننے کا رتبہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے کانفرنس میں شریک چینی مندوب کا کہنا تھا امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اپنے بنائے گئے قواعدکی دنیا کے دوسرے ملکوں سے پاسداری کی امید رکھتے ہیں، چین اس پاسداری کیلئے تیار نہیں اور وہ کسی ایسے قاعدے کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا جو اس کے مفادات کو نقصان پہنچائے۔ چین سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ مساوی سلوک روا نہیں رکھا جا رہا اگر اس پر کوئی ذمہ داری عائد کرنی ہے تو پہلے اسے حقوق بھی دیئے جائیں کیونکہ ذمہ داری سے پہلے حقوق دیئے جانے کی باری آتی۔ جس طرح اسکالروں کی جانب سے چینی خارجہ پالیسی پر اندرونی عوامل کے دباوٴ کے حوالے سے تنقید کی جارہی ہے یہی صورتحال امریکہ میں بھی ہے۔ امریکی اسکالر ڈیوڈ روٹکاف نے فارن پالیسی نامی جریدے میں لکھے گئے آرٹیکل میں صدر اوباما کی ’لائٹ فٹ پرنٹ ڈپلومیسی‘ کی پالیسی پرکڑی نکتہ چینی کا ہدف بناتے ہوئے اسے کل مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے اوباما کی بین الاقوامی حکمت عملیکو تزویر اور دنیا کے دوسرے حصوں میں خطرات مول لینے کی سیاسی نیت سے محروم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے اس طرز عمل سے بین الاقوامی سطح پر اس کی عدم موجودگی وقوع پذیر ہوئی ہے اور اس نے عالمی مسائل کے حل کیلئے کم ترین کردار ادا کیا۔اس کی جھلک ایک مشہور مقولے میں نظر آتی ہے جو کہ پردے کے پیچھے سے اثرانداز ہونے کے معنی دیتا ہے۔ اس سے ایین بریمر کے تصور کو تقویت پہنچتی ہے کہ موجودہ دور میں دنیا کی کوئی عالمی طاقت یا اتحادایسا نہیں جو کہ بین الاقوامی رہنمائی کے امتحان پر اتر سکے۔
تازہ ترین