• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے گزشتہ کئی کالموں میں پاکستان کے قرضوں میں تیزی سے اضافے پر تشویش کا اظہار کرچکا ہوں۔ وزارتِ خزانہ کی پارلیمنٹ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 15ماہ میں پاکستان کے قرضوں میں 40فیصد اضافہ ہوا ہے جو قرضوں کی حد کے قانون FRDLAسے تجاوز کرگئے ہیں جس کی رو سے حکومت جی ڈی پی کا 60فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی جبکہ ہمارے مجموعی قرضے بڑھ کر جی ڈی پی کا 84.8فیصد اور حکومتی قرضے جی ڈی پی کا ریکارڈ 76.6فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستانی قرضوں کی ادائیگیاں جون 2018ء میں 81فیصد تھیں، جون 2019ء میں بڑھ کر 159فیصد ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف کا آسیب 1960ء کی دہائی میں نازل ہوا تھا اور مارچ 2019ء میں ہمارے بیرونی قرضے تقریباً 105ارب ڈالر تک پہنچ گئے جس میں 11.3 ارب ڈالر پیرس کلب، 27ارب ڈالر دوست ممالک اور دیگر ڈونرز، 5.765 ارب ڈالر آئی ایم ایف اور 12 ارب ڈالر کے بین الاقوامی یورو اور سکوک بانڈز شامل ہیں۔ اس دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے قرضوں میں اضافہ ہوتا گیا جس کو ادا کرنے کیلئے پاکستان کو مزید قرضے لینا پڑے۔

پاکستان کو آئندہ ایک سال میں 15.3ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگیاں کرنی تھیں جس میں زیادہ تر قرضے G-20ممالک کے ہیں جنہوں نے کورونا وائرس کے معاشی بحران کے پیش پاکستان سمیت 77غریب اور ترقی پذیرممالک کے قرضوں کی ادائیگی یکم مئی 2020ء سے ایک سال کیلئے موخر کردی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج لیا تھا جس کی ہمیں 991.4ملین ڈالر کی پہلی اور 452 ملین ڈالر کی دوسری قسط دسمبر 2019ء میں مل چکی ہے جبکہ کورونا وائرس کی وجہ سے مارچ 2020ء میں 450ملین ڈالر کی تیسری قسط روک لی گئی ہے۔ کورونا وائرس کے لاک ڈائون سے صنعتی و معاشی سرگرمیوں کی معطلی کی وجہ سے حکومت کو اس سال 895ارب روپے کم ریونیو ملنے کی توقع ہے جس کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے 2020ء میں پاکستان کی 1.5 فیصد منفی گروتھ کی پیش گوئی کی ہے اور موجودہ حالات میں آئی ایم ایف نے پاکستان سے اپنے EFFپروگرام کو روک دیا ہے۔

آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق پاکستان کو فوری طور پر اس سال 2ارب ڈالر اور آئندہ مالی سال 1.6ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی جسکے پیش نظر آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک قسط میں 1.4ارب ڈالر کی ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ (RFI) کی مالی امداد ہنگامی بنیادوں پر فراہم کی ہے۔ اُمید کی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف کی فنانسنگ کے بعد دیگر مالی ادارے اس سال پاکستان کومجموعی 2ارب ڈالر اور آئندہ مالی سال 1.6ارب ڈالر کی بقایا مالی امداد بھی فراہم کریں گے جبکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے آج ہی 1.7ارب ڈالر بجٹ سپورٹ کیلئے دینے کا اعلان کیا ہے جس میں سے 800ملین ڈالر جون اور 900ملین ڈالر دسمبر 2020ء تک متوقع ہیں تاکہ پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگیاں بروقت کرکے ڈیفالٹ ہونےسے بچ سکے۔

میں نے اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بتایا تھا کہ کورونا وائرس سے تباہ کن معاشی نقصانات کو کنٹرول کرنے کیلئے دنیا کے بڑے مرکزی بینکوں نے اپنے پالیسی یا ڈسکائونٹ ریٹ کم کرکے صفر یا منفی کردیئے ہیں جس میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کا فیڈرل ریزرو بینک بھی شامل ہے۔ موجودہ مندی میں پاکستان میں اسٹیٹ بینک کا 13.25فیصد پالیسی ریٹ صنعتوں کو دیوالیہ کی طرف لے جارہا تھا اور میں نے اپنی ہر ملاقات میں وزیراعظم، مشیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک سے اصرار کیا کہ وہ معاشی بحالی کیلئے پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ کریں۔ مجھے خوشی ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک نے میری تجویز پر عمل کرتے ہوئے مسلسل چوتھی بار اپنے پالیسی ریٹ 13.25سے کم کرکے 9فیصد پر لے آئے جس سے حکومت کو تقریباً ایک ہزار ارب روپے سالانہ قرضوں اور ٹریژری بلز پر سود کی کم ادائیگی کرنا پڑے گی جو کمرشل بینک حکومت سے منافع کی صورت میں کمارہے تھے۔

اسٹیٹ بینک کے سنگل ڈیجٹ پالیسی ریٹ اور آئی ایم ایف کی 1.4ارب ڈالر کی ہنگامی فنانسنگ کے نتیجے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ایک دن میں 1502پوائنٹس یعنی 4.8فیصد کی ریکارڈ تیزی دیکھنے میں آئی اور انڈیکس 32832کی سطح پر پہنچ گیا۔ اس تاریخی تیزی میں اسٹاک ایکسچینج کو 60منٹ تک بند رکھا گیا کیونکہ اسٹاک ایکسچینج ایک دن میں 5فیصد یعنی 2ہزار پوائنٹس سے زیادہ بڑھ گیا تھا ، ان مثبت خبروں سے انٹربینک میں ڈالر 8روپے کی کمی سے 160روپے کی سطح پر آگیا اور پاکستان کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 17.3ارب ڈالر تک پہنچ گئے جس میں اسٹیٹ بینک کے 10.9ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے 6.4ارب ڈالر شامل ہیں۔ کالم کے اختتام پر میں ایف بی آر کی نئی چیئرمین نوشین امجد، ممبر آئی آر سیما شکیل اور ان کی ٹیم کا مشکور ہوں کہ انہوں نے تعطیل کے دنوں میں بھی دن رات کام کرکے ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس اور DLTLریفنڈز نہایت شفافیت کیساتھ براہ راست اُنکے اکائونٹس میں کریڈٹ کئے جس کی وجہ سے پاکستان کی افریقہ ایکسپورٹ میں 10فیصد اور چاول کی ایکسپورٹ میں 20فیصد اضافہ ہوا جو خوش آئند بات ہے۔

تازہ ترین