• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری صحافت کے ہم سفر جناب نجم سیٹھی خوش گفتار بھی ہیں اور وضع دار بھی اور قسمت کے دھنی بھی۔ اُن کی چڑیا اُن کے لیے ہما ثابت ہوئی جسے کچھ ”رازدان“ امریکی چڑیا بھی کہتے ہیں۔ دیرینہ تعلقات کی بنیاد پر میں سیٹھی صاحب کی تقریب ِحلف وفاداری میں خاص طور پر گیا کہ میں خوشی کے مناظر اپنے حافظے کی کتاب میں پوری طرح محفوظ کر لینا چاہتا تھا۔ دربار ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جگنو محسن بہت خوش نظر آ رہی تھیں اور اپنے شوہر کے نگران وزیراعلیٰ بن جانے پر تمکنت کے بجائے ملنساری کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ وہ خود بھی دریائے صحافت کی ایک اچھی پیراک ہیں۔ ہمارے دوست امتیاز عالم کی فرطِ مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ بلند آواز میں کہہ رہے تھے کہ ایک سیکولر ، لبرل اور ترقی پسند شخص پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا حلف اُٹھانے والا ہے۔ اُن کا نام چونکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے آیا تھا  اِس لیے تقریب میں اِسی کا رنگ غالب نظر آیا۔ مسلم لیگ نون کے جناب رانا ثناء الله اور جناب مجتبیٰ شجاع الرحمن پہلی قطار میں تشریف فرما تھے۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ چھ رکنی پارلیمانی کمیٹی نے اتفاقِ رائے سے جناب نجم سیٹھی کا انتخاب کیا تھا اور اندرونی کہانی یہ ہے کہ جناب نواز شریف نے اُن کی حمایت میں آ کر ماضی کی غلطی کا کفارہ ادا کیا ہے اور ایک طرح سے وسعت ِقلبی کا ثبوت دیا ہے اور یہی وسعت ِقلبی ہمارے سیاسی معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔ ہمارا حُسنِ ظن یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کو اِس امر کا شدید احساس ہو گیا ہے کہ پارٹی کے اندر فیصلہ سازی کا ادارہ کس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ اِس میں اگر ضعف پیدا ہو جائے تو زبردست عوامی حمایت کے باوجود شکست مقدر بن جاتی ہے۔
حلف اُٹھاتے ہوئے جناب نجم سیٹھی نے جب یہ عہد کیا کہ میں اسلامی نظریہ جو تخلیقِ پاکستان کی بنیاد ہے  اُس کی حفاظت کے لیے کوشاں رہوں گا  تو ہمارے قریبی دوست امتیاز عالم کی پیشانی پر پسینہ آ گیا اور کچھ اور احباب بھی پہلو بدلتے نظر آئے  کیونکہ اُن کے نام نہاد تصور سیکولر ازم کی نفی ہو رہی تھی  مگر سیٹھی صاحب کے لہجے میں بڑی توانائی اور گرم جوشی تھی کہ وہ آدابِ حکمرانی سے پوری طرح واقف ہیں اور اعتدال کی راہ اختیار کرنا جانتے ہیں۔ وہ اِس تاریخی حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ اسلام کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کی بے پناہ عقیدت اور محبت نے ایک آزاد وطن کی تحریک میں جان ڈالی تھی اور اِس عقیدے نے بیسویں صدی کا سب سے بڑا معجزہ تخلیق کیا تھا کہ اسلام ہر عہد کا ایک زندہٴ جاوید اور پوری انسانیت کی فلاح کا دین ہے اور اِس کے آفاقی اصولوں اور بنیادی تعلیمات کی بنیاد پر امن قائم ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کو اسلام کی جدید تجربہ گاہ قرار دیا تھا۔حلف اُٹھانے کے بعد نگران وزیر اعلیٰ نے پہلی پریس کانفرنس میں جو گفتگو کی  وہ بڑی ایقان افروز اور عام روش سے ہٹ کر تھی۔ اُن سے پہلے ہمیں نگران وزیر اعظم جناب میر ہزار خاں کھوسو کی پہلوٹی کی گفتگو سننے کا شرف حاصل ہوا تھا اور دل ڈوبنے لگا تھا کہ نہایت اہم اور نازک موڑ پر ہمارے ملکی معاملات ایک عمر رسیدہ شخص کے سپرد کر دیے گئے ہیں جو ایک صوبے کے سوا کسی گورنر کا نام جانتے ہیں  نہ اِس امر سے واقف ہیں کہ کس صوبے میں کس نگران وزیر اعلیٰ نے حلف اُٹھا لیا ہے۔ اُن کے مقابلے میں جناب نجم سیٹھی کی باتوں سے گہرائی  دانش مندی اور عملی فراست ٹپک رہی تھی۔ لگا کہ اُن کی آواز میں وہی توانائی موجود ہے جو میاں شہباز شریف کے ہاں پائی جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ نگران حکومت کا مینڈیٹ بہت اہم  لیکن بڑی حد تک محدود ہے جس کا بنیادی فریضہ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کی ایک غیر جانب دار انتظامیہ کے ذریعے اعانت فراہم کرنا ہے۔ اُن کا واضح موقف یہ تھا کہ سیاسی فیصلے منتخب نمائندوں کی امانت ہے جو ہم اُنہیں پوری حفاظت کے ساتھ لوٹا دیں گے۔ اُن کی اِس وارننگ میں بڑی جان تھی کہ بیوروکریسی کو انتخابات پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور غلط راہ پر چلنے والے افسروں کو عبرت کا نمونہ بنا دیا جائے گا۔ اُن کی گفتگو کا منفرد اور بلند آہنگ حصہ وہ تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جب تک میں ذمے داری کے اِس منصب پر فائز ہوں  میرا کوئی رشتے دار یا دوست اور کوئی بھی ناجائز فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ قول اور فعل کے درمیان رشتہ کس قدر مضبوط ثابت ہو گا اور وہ منہ زور لہروں کے درمیان کتنا توازن قائم رکھ سکیں گے۔ اُنہوں نے میڈیا پر غیر معمولی اعتماد کا اظہار کیا ہے جو ایک خوش آئند بات اور صحت مند ذہن کی علامت ہے۔ باشعور شہری کی حیثیت سے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ شفاف انتخابات کے لیے مثبت اور پُرجوش کردار ادا کریں اور اِن قوتوں کو طاقت فراہم کریں جو پاکستان میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی اور اسلام کے عظیم تصورات کی پاسدار ہیں۔ جناب نجم سیٹھی کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے۔ اُن سے اتفاق اور اختلاف کرنے والے اہلِ نظر پائے جاتے ہیں  مگر ہمیں بڑے فیصلے مفروضوں اور بدگمانیوں پر نہیں کرنے چاہئیں۔ جناب نجم سیٹھی کی شخصیت کس قدر طرح دار اور دلکش ہے کہ اُن کی باتوں پر بے اختیار یقین کرنے کو دل چاہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمارے انتخابات کی تاریخ میں ایک اچھے باب کا اضافہ کریں گے اور اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو اہم ترین ملکی معاملات پر اثر انداز ہونے نہیں دیں گے۔ وہ ہماری صحافت کی ایک معروف شخصیت ہیں اور وہ اپنی شہرت کا یقینا خیال رکھیں گے اور اپنی برادری کے اعتماد پر پورا اُتریں گے۔
تازہ ترین