• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کورونا کی نادیدہ عالمی بلا، اپنے عروج پر پہنچی عالمگیر انسانیت سے ہی نکلے ابلیسی غلبے پر رب ذوالجلال کی مہلت میں لپٹا انتباہ ہے؟ یا یہ منقسم انسانوں کی کسی طاقتور قوم کے مقابل کسی ظہور پذیر قوت کے بڑھتے اثر کو روکنے اور اس سے نپٹنے کی ہلاکت خیز، مگر مانند کرامات جنگی تیاری کا ایسا بگاڑ ہے جو بے قابو ہو کر تیاری پکڑنے والے کو بھی چمٹ کر عالمگیر ہو گیا؟

یا کورونا کریہہ حرام خوراک کے استعمال سے پیدا ہونے والا عذابِ عظیم تو نہیں؟ قرآن کریم کے مطابق ایسے عذاب تو مختلف النوع کے گناہ ہائے کبیرہ کی مرتکب اقوام تک ہی محدود رہے۔

صدر ٹرمپ نے ایک میڈیا ٹاک میں کورونا کو ’’میڈ اِن چائنہ‘‘ قرار دیا تو ایک خاتون صحافی نے تڑتڑ کتنے ہی چبھتے سوالات کر دیے اور بلا تخصیص پورا میڈیا ہی ٹرمپ صاحب کے تبرے کی زد میں آ گیا۔ چین نے کورونا کو اپنے ملک میں فوجی مشقوں کے بہانے چھوڑا مہلک شر قرار دیا۔ کورونا بذریعہ شیطانی سائنسی دریافت تو نہیں؟

جس کا مقصد اس کا علاج نکال کر اِس پر کمرشل اجارہ داری سے 21ویں صدی کا قارون بننا ہے۔ جس کے وارد ہونے کے کھلے اشارے بلا کے وارد ہونے سے کئی سال قبل دیے گئے، اور تو اور سوشل میڈیا کے مطابق ڈیووس کے ورلڈ اکنامک فورم پر ایک اطرافی محفل مشاورت میں انسدادِ کورونا کے ناگزیر عالمی علاج پر بھی بات ہوئی۔

تو کیا یہ کورونا کی بلا نظام سرمایہ داری کی بے رحمانہ جادوگری کی انتہا ہے؟ انٹرنیشنل مین اسٹریم میڈیا کی معتبر پبلی کیشن ’’اکانومسٹ‘‘ کے ٹائٹل کا کھلا پیغام ہے کہ دنیا پر بیڈ گورننس کے غلبے سے ایک ہی عالمی قیادت میں ایک عالمی حکومت کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے، کورونا کے علاج سے ہی اسے ممکن بنایا جائے گا اور عالمی حکومت، اقوام متحدہ کی تشکیل نو کی شکل میں ہو گی۔

یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کورونا ہوسِ ملک گیری کے انتہائی درجے کے ماڈل کی تیاری اور تسلط کے لئے مین میڈ حربہ ہے؟ ہم مسلمانوں میں ایک بڑا سوال یہ بھی کہ یہ بلا مظلوم اقوام خصوصاً نیم غلام مسلمانوں پر ظلم مسلسل سے جیتی جاگتی دنیا کی مکمل اور مسلسل بے اعتنائی کا شاخسانہ تو نہیں؟

جن کا ایک حصہ مذہبی جنونیوں اور نسل پرستوں کے کوہِ گراں میں نیم غلامی کی زندگی بسر کرتا دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا، اور تو اور اپنے بھی اِس ظلم عظیم پر ’’داخلی معاملے‘‘ کا پردہ ڈالتے رہے، تو پھر پوری دنیا خود ہی اپنی اسیر بن گئی، ایسے میں یہ دنیا کی بے حسی پر عذاب الٰہی نہیں؟ کورونا گہری عالمی سازش تو نہیں؟

یا اِس کے پس پردہ انسانی دماغ سے نکلی کوئی سازش یا شیطانیت ہے؟ یا بس یہ ہونا تھا سو ہو گیا۔ اب سنبھالنے پر توجہ دو۔ یہ وہ سوالات ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر کورونا پر خبروں اور تجزیوں کے طوفان سے برآمد ہوئے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ کورونا کے خلاف نہ دنیا متحد ہوتی نظر آ رہی ہے نہ ممالک خود اپنے اندر کوئی تبدیلی لا رہے ہیں۔

پاکستان میں بھی اس نازک ترین صورتحال میں اعتدال اور درمیان کی راہ ’’اسمارٹ لاک ڈائون‘‘ پر تنقید مسلسل کے ناقدین، ماہرین، صوبائی حکومتوں، سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امریکہ کی سائنٹفک سوسائٹی بھی عالمی وبا کے خلاف اب تک کے واحد عالمی علاج ’’زیادہ سے زیادہ لاک ڈائون اور اس کی زیادہ سے زیادہ پابندی‘‘ کے خلاف پھٹ پڑی ہے۔

کتنی ہی امریکی ریاستوں میں لوگ ’’سماجی فاصلے‘‘ کی پابندی کو توڑتے ہوئے باہر نکل آئے۔ ان کا احتجاج مین اسٹریم میڈیا میں تو رپورٹ نہیں ہو رہا اور خبریں بہت لو پروفائل میں دی جا رہی ہیں لیکن ٹیکساس، مشی گن، منی سوٹا، ایری زونا، آئی ڈاہو، نویڈا، ورجینیا، کولو ریڈو اور کئی دوسری ریاستوں میں لاک ڈائون کو توڑ کر عام لوگوں نے احتجاجی ریلیاں نکالیں اور لاک ڈائون ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

لاس ویگاس میں ایک احتجاجی فقط پلے کارڈ اٹھانے پر اکتفا نہیں کر رہا تھا، وہ چیخ چیخ کر کہہ ر ہا تھا، ہم کسی کمیونسٹ ملک یا آمرانہ معاشرے کے شہری نہیں‘‘۔ کورونا کی وبا بے احتیاطی سے پھیلنے کے مقابل ترقی پذیر دنیا میں بہت بڑا سوال سخت اور مکمل لاک ڈائون سے ہونے والی قومی معیشت کی تباہی سے پیدا ہونبوالے بھوکوں کی وہ فوج ہے جو جتھوں میں خوراک کے ختم ہوتے ذخائر پر حملہ آور ہونگے۔

منطق بالکل واضح ہے کہ احتیاط اور ممکنہ معاشی سرگرمیوں کی اجازت میں توازن پیدا کرنے والا اسمارٹ لاک ڈائون ہی ممکنہ بہتر حل ہے۔ جیسا کہ پاکستان نے اختیار کر لیا ہے، وگرنہ سخت ترین اور مکمل لاک ڈائون کے باوجود، امریکہ، اٹلی، فرانس، اسپین اور انگلینڈ میں وبا کے متعلقہ اعداد و شمار بڑھنے کی رفتار کیوں تیز ہوتی جا رہی ہے۔ پھر ہر ملک کے اپنے اپنے لوکل ویری ایبلز (مخصوص مقامی حالات) بھی تو ہوتے ہیں، اس سارے تناظر میں ’’اسمارٹ لاک ڈائون‘‘ کے لئے پاکستان فوری درج ذیل اقدامات کرے۔

-1اگرچہ ملک بھر میں بجلی کی پیداوار اور پینے کے پانی کی سپلائی بخوبی کام کر رہی ہے، لیکن اسے ہرحال میں جاری رکھنے کے لئے فاضل تیاری کرنا ہو گی۔ اسے ہر حال میں جاری رکھنا یقینی بنانا ہے۔

-2نظام زراعت کو معمول کے مطابق ہی نہیں بلکہ خوراک کی پیداوار بڑھانے والے اقدامات کو اسمارٹ لاک ڈائون کا فوری حصہ بنایا جائے۔ اس کے لئے موجودہ زیر کاشت رقبے کے علاوہ مزید کی نشاندہی کی جائے اور انہیں جلد سے جلد پیداواری اراضی میں (خواہ عارضی عرصے کے لئے ہی سہی) تبدیل کیا جائے۔ جیسے ہائوسنگ اسکیموں میں پڑے خالی پلاٹس (ملکیت کے مکمل تحفظ اور گارنٹی کے ساتھ) ان کو فوراً استعمال میں لایا جائے۔

-3بے شمار گھرانے ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘ اور نیٹ سے حاصل نالج کی بنیاد پر کورونا کے علاج نہیں بلکہ اس سے بچے رہنے کے دیسی اور آزمودہ نسخے استعمال میں لا چکے ہیں، ان کے منظم انداز میں ماہرین غذائیت اور میڈیکل ڈاکٹروں کے مشوروں کے ساتھ ایجوکیشن کے پیکیجز تیار کئے جائیں۔

-4حکومت، میڈیا اپنے تعلقات کو بہتر اور بڑھا کر احتیاطی تدابیر کی پیغام سازی کو موثر بنانے کے لئے فوری کام کرے۔

-5وفاق اور صوبوں، فوج اور سول سوسائٹی میں باہمی، فوری اور زیادہ سے زیادہ بامقصد تعاون و اشتراک اور ایکشن کے لئے ماہرین اور پوٹینشل شہریوں سے تجاویز طلب کی جائیں۔ اور انہیں شارٹ لسٹ کر کے، اِن پر جلد سے جلد عمل درآمد کیا جائے۔

-6انتہائی مستحق گھرانوں کی نشاندہی کا کام ابھی تک نہیں ہوا، یہ جلد سے جلد مکمل کر کے ان کی رجسٹریشن اور انہیں راشن ڈیلیوری کا سہل طریقہ اختیار کیا جائے۔

تازہ ترین