• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا اور کورونا سے ڈرانے والوں نے آج کل فقیر کو بہت زیادہ پریشان کردیا ہے، جسمانی طور پر فقیر مجھے ٹھیک ٹھاک لگتا ہے۔ مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ذہنی طور پر فقیر ٹھیک نہیں ہے۔ غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے فقیر دس مرتبہ صابن سے ہاتھ دھوتا ہے۔ غسل خانے سے فارغ ہوکر باہر آنے کے بعد فقیر تین مرتبہ صابن سے ہاتھ ہوتا ہے۔ پوچھنے پر وہ کسی کو کوئی جواب نہیں دیتا کہ غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے اور غسل خانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ اتنی مرتبہ ہاتھ کیوں دھوتا ہے؟ وہ خاموش رہتا ہے۔ ویسے بھی اس نوعیت کے استفسار کا کوئی کیا جواب دے سکتا ہے؟ ویسے بھی کسی کے ذاتی معاملات کے بارے میں پوچھ گچھ اچھی نہیں لگتی۔

فقیر کی پریشانیاں، فقیر کی سوچ سے وابستہ ہیں۔ کورونا سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر صرف گھروں میں بند ہوکر بیٹھنے، بار بار صابن سے ہاتھ دھونے، آپس میں ملنے جلنے سے اجتناب کرنے تک محدود نہیں ہیں۔ احتیاطی تدابیر میں تعلیمی ادارے، دفاتر، دکان، اور ہر طرح کے کاروباری ادارے بند رکھنے کے احکامات صادر کر دیے گئے ہیں۔ ان احکامات پر سختی سے عمل کروانے کے لئے قانون نافذ کرنے والوں کو اضافی اختیار دیے گئے ہیں۔ ان احتیاطی تدابیر نے فقیر کو ابتدا میں پریشان کیا تھا۔ مگر اب فقیر نے ان احتیاطی تدابیر سے سمجھوتا کر لیا ہے۔ سمجھوتا کر لینے سے سوچ کی آمد بند نہیں ہوتی۔ سوچ کی دھارائیں سونامی کی طرح آتی ہیں۔ فقیر کو معلوم ہے کہ احتیاطی تدابیر کے مطابق دنیا بھر میں ریل گاڑیاں، ہوائی جہاز اور پانی کے جہاز نہیں چلتے۔ ہمارے پاکستان جیسے ممالک میں، یورپ اور امریکہ جیسے ممالک کی طرح روڈ راستوں پر گاڑیاں صرف اشد ضرورت کے تحت چلتی ہیں۔ کراچی میں آئے دن، دن ہو یا رات، بجری، ریتی، روڑی اور سریے سے لدے ہوئے ٹرک بے ہنگم دوڑتے ہوئے نظر آتے تھے۔ ان میں پانی کے ٹینکر کراچی کی سڑکوں پر دکھائی نہیں دیتے۔ دیگر لوگ روڈ راستوں سے خاص طور پر پانی کے ٹینکر غائب دیکھ کر کیا سوچتے ہیں اس کے بارے میں مَیں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ باقی فقیر اس بارے میں کیا سوچتا ہے، وہ میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔ یہ فقیر کے مشاہدے کی بات ہے۔ فقیر کراچی کے جس علاقے میں رہتا ہے، وہاں کورونا کے آنے سے پہلے پانی کی قلت رہتی تھی۔ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس منٹ کےلئے ٹونٹیوں سے پانی آتا تھا۔ باقی تیئس گھنٹے چھتیس منٹ ٹونٹیوں سے ہوا نکلتی رہتی تھی۔ ہر ماہ پابندی سے بل آتا تھا۔ اور فقیر اچھے شہری کی طرح پابندی سے بل دیتا تھا۔ مگر کورونا آنے کے بعد جب سے ٹینکر روڈ راستوں سے غائب ہورہے ہیں تب سے لگاتار چوبیس گھنٹے ٹونٹیوں سے پانی آتا رہتا ہے۔کورونا جیسے کرائسس میں وہ جب چاہے فیکٹریاں اور کارخانے بند کرا سکتا ہے۔ آج کل پاکستان میں فیکٹریاں اور کارخانے بند ہیں۔ سردست زمینداروں نے کاٹ کاٹ کر گنوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ چینی بنانے کے کارخانے بند ہیں۔ گنوں کے ڈھیر، پہاڑوں میں بدلتے جارہے ہیں۔ کورونا کے آنے سے پہلے ٹنوں کے حساب سے تازہ سبزیاں مارکیٹ میں لائی جاتی تھیں۔ مارکیٹ بند ہیں۔ مگر تازہ سبزیاں قدرتی قانون کے مطابق پیدا ہورہی ہیں۔ کہاں جارہی ہیں تازہ سبزیاں اور پھل؟ یہ بات فقیر کی سمجھ میں نہیں آتی۔ تجریدی سوچ نے فقیر کو پریشان کر دیا ہے۔ کورونا کی پابندیوں کی وجہ سے تازہ پھل اور سبزیوں کے لئے مانگ یعنی طلب بہت کم ہو گئی ہے۔ تازہ پھل اور سبزیوں کی پیداوار اور رسد یعنی سپلائی بڑھ گئی ہے۔ اقتصادیات کے بنیادی اصولوں کے مطابق پھل اور سبزیوں کی قیمت، موجودہ صورتحال میں بہت کم ہو جانی چاہئے مگر مستند اقتصادی اصولوں کے برعکس پھل اور تازہ سبزیوں کی قیمت بے انتہا بڑھ گئی ہے۔

فقیر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کرائسس یعنی نازک اور آزمائش کی گھڑی میں حکومتیں کھسیانی بلی کیوں بن جاتی ہیں۔ سرکاری تنخواہ بردار لوگ پھر چاہے ان کا تعلق کسی شعبہ اور محکمہ سے ہو، اپنے فرائض اور ڈیوٹی کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ آگ بجھانے والے محکمہ میں کام کرنے والے تنخواہ بردار جانتے ہیں کہ آگ بجھانا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ آگ بجھانے کے دوران آپ کے ساتھ کبھی کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے۔ یہ انہونی بات نہیں ہے۔ پولیس کے محکمہ میں کام کرنے والے جانتے ہیں کہ قاتلوں، ڈاکوئوں، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ مجرموں کا قلع قمع کرنا ان کی ڈیوٹی، ان کےفرائض میں شامل ہے۔ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی فی سبیل اللہ نہیں کرتے۔ ہر مہینہ وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے ان کی جان بھی جاسکتی ہے۔ وہ یہ بات ملازمت میں آنے کے پہلے دن سے جانتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی ڈیوٹی میں شامل ہے کہ وہ مریضوں کی صحت یابی کیلئے کام کریں۔ پھر وہ مریض تپ دق کے ہوں یا ہارٹ اٹیک کے۔ کورونا وائرس مرض ہے، بیماری ہے، وہ علاج کررہے ہیں۔ ان کو اپنے فرائض پورے کرنے کے عوض تنخواہ ملتی ہے۔ فرائض کی سرانجامی میں سلامی دینا، اور گارڈ آف آنر پیش کرنا صرف ہمارے ہاں پاکستان میں مروج ہے۔ کورونا وائرس کے دنوں میں اگر کسی کو سلامی دینی ہے تو جمعداروں کو سلامی پیش کریں جو غیر معمولی حالت میں ہمارے گھر، اسپتال، گلی کوچے صاف ستھرے رکھ رہے ہیں اور تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ بھی نہیں کرتے۔ فقیر ان کو سلام پیش کرتا ہے۔

تازہ ترین