• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی ڈاکٹرز اور عالمی ادارۂ صحت حکومتِ پاکستان کو بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ آنے والے چند دنوں میں کورونا وبا تیزی کے ساتھ پھیلنے کا خدشہ ہے، حکومت احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرے لیکن وفاقی حکومت اِن بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔

نام نہاد لاک ڈائون کو اب اسمارٹ لاک ڈائون میں تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت نے مساجد کے لئے علماء کے ساتھ ایک بیس نکاتی معاہدہ کیا ہے جس پر شہروں کی بڑی مساجد پر تو شاید کسی حد تک عملدرآمد ہو جائے لیکن چھوٹی مساجد، چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات کی مساجد میں اس معاہدے پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ممالک نے اس جان لیوا وبا کے باوجود لاک ڈائون میں نرمی شروع کر دی ہے لیکن حکومتِ پاکستان سمیت لاک ڈائون میں نرمی کرنے والی حکومتیں آنیوالے دنوں میں اس عالمی وبا کے پھیلائو کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہیں یا وہ عوامی دبائو کو برداشت کرنے کی اہل نہیں ہیں۔

پاکستان میں اب حکومت نے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے علاوہ علماء اور عوام سے توقعات وابستہ کر لی ہیں کہ یہ طبقات اپنی ذمہ داریاں پوری کر لیں تو اس وبا پر قابو پایا جا سکے گا۔ جہاں تک ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا تعلق ہے تو وہ بےچارے تو اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر حفاظتی سامان کی کمی کے باوجود مصروفِ عمل ہیں۔

علمائے کرام میں اس معاملے پر یگانگی میں فرق محسوس ہوتا ہے۔ ایک طبقہ حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر من و عن عمل کرنے کا حامی ہے جبکہ دوسرا طبقہ ان پابندیوں کو مساجد اور عبادات پر قدغن تصور کرتا ہے۔

پھر بھی امید کی جا سکتی ہے کہ علمائے کرام کی کوشش ہوگی کہ حکومت کی طرف سے عائد کردہ شرائط پر عملدرآمد کو ممکن بنایا جا سکے لیکن کئی جگہوں اور کئی مساجد میں اس معاملہ میں شاید وہ بےبس ہوں۔ تقریباً ہر مسجد کی ایک کمیٹی ہوتی ہے جو وہاں کے معززین پر مشتمل ہوتی ہے۔ مسجد کے انتظامی معاملات کی نگرانی کمیٹی کرتی ہے۔

امام مسجد، خطیب اور خادمین کی تنخواہوں جیسی ذمہ داری بھی اس کمیٹی کی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں امام مسجد اور خطیب حضرات حکومتی شرائط اور کورونا کے خطرات سے محض آگاہی ہی دے سکتے ہیں، زبردستی لاگو نہیں کر سکتے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو لاک ڈائون میں نرمی کے دوران دیکھا گیا کہ وہ ڈاکٹروں اور حکومتی ہدایات پر کہاں تک عمل کرتے ہیں۔

حکومت نے لاک ڈائون کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنایا ہوا ہے۔ درزی کو دکان کھولنے کی اجازت دیدی ہے لیکن کپڑے کی دکانیں بند ہیں۔ پلمبر اور الیکٹریشن کو کام کرنے کی اجازت دی گئی لیکن سینٹری اور الیکٹرک سامان کی دکانیں اور مارکٹیں بند ہیں۔ جن ساعتوں میں بعض دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے وہاں احتیاطی انتظامات کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔

ریل اور بسیں بند ہیں، ہول سیل کی مارکٹیں بند ہیں تو پرچون کی دکانوں کو کھولنے کا کیا فائدہ ہے۔ مقررہ اوقات کے دوران جس کا جو دل چاہے وہ کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو یہ معلوم ہے کہ دن میں کتنے بجے سے کتنے بجے تک کورونا وائرس کسی کو متاثر نہیں کرتا۔

وزیراعظم ایک طرف آنے والے دنوں میں وبا میں مزید شدت سے عوام کو خبردار کرتے ہیں تودوسری طرف خود لاک ڈائون کی شدید مخالفت بھی کرتے ہیں۔

یہ معلوم نہیں کہ وزیراعظم کے پاس وہ کون سا خفیہ فارمولا ہے جس پر وہ جب بھی عملدرآمد کریں گے تو نہ کاروبار اور مزدور طبقہ متاثر ہوگا نہ کورونا وائرس کسی پر حملہ آور ہو سکے گا۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر ایسا فارمولا ہے تو اس پر عملدرآمد کا مناسب وقت کون سا ہے۔

جہاں تک مزدوروں اور غریبوں کی مدد کی بات ہے تو نقد رقم کے علاوہ روز مرہ اشیاء کی تقسیم میں جس طرح غریب کی عزتِ نفس کو مجروح کیا جاتا ہے وہ بس وہی جانتا ہے۔

ان میں خواتین بھی شامل ہیں اور یتیم بچے بھی۔ ایک ایک پیکٹ کیلئے غریب، مزدور اور لاچار کو اس وقت تک کیمرے کے سامنے رکھا جاتا ہے جب تک تصویر نہ بن جائے۔

سفید پوش طبقہ کا تو پوچھیں مت کیا حال ہے، چھوٹے دکانداروں کا حال بھی اب مزدوروں جیسا ہے، روزگار بند ہیں اور اخراجات جاری ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ کچھ عرصہ کے لئے سخت لاک ڈائون کرے۔ ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

غریبوں، مزدوروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے دکانداروں کی بھی مالی مدد اس طرح کرے کہ ان کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو۔

یہ بھی ایک تماشا ہے کہ ٹیلی تھون اور اپیلوں کے ذریعے چندے تو اکٹھے کئے جا رہے ہیں لیکن حکومتی جماعت کے کسی وزیر، مشیر اور ارکانِ پارلیمنٹ کے بارے میں نہیں سنا کہ اس کارِ خیر میں کوئی معقول حصہ ڈالا ہو۔ اپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی جگہ کچھ کام کر رہی ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر۔

پھر یہ تماشا نہیں تو اور کیا ہے کہ کورونا کی روک تھام کی ذمہ داری فوج، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور علماء پر ڈالی جائے۔ جیسے بغیر اسلحہ اور حفاظت کے فوج کو میدانِ جنگ میں بھیجا جائے اور فتح کی آس لگا کر بیٹھ جائیں۔

تازہ ترین