• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کی آمد آمد ہے۔ ہر سیاسی جماعت ایک سے بڑھ کر ایک منشور پیش کر رہی ہے۔ بھانت بھانت کے دعوؤں اور وعدوں کی اس گہما گہمی میں مسلم لیگ (ن) نے فوجی چیفس کے تقرر کے حوالے سے اپنی سوچ واضح کی ہے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں فوجی سربراہوں کا انتخاب صرف اور صرف سینیارٹی کی بنیاد پر ہوگا۔ راقم کو اس ضمن میں بہت سال پہلے واشنگٹن کی معروف زمانہ یونیورسٹی جان ہاپکنز میں ساؤتھ ایشین سیکورٹی پر ہونے والے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ فوجی قیادت کے انتخاب کے حوالے سے برطانوی ہند کے زمانے کے بریگیڈیئر آہلو والیہ (غالباً) کی گفتگو بے حد دلچسپ تھی۔ انہوں نے کہا کہ ”ہمارے ہاں کی سائیکی ، سماجی حالات اور معاشرتی رویوں کا تقاضا ہے کہ برصغیر کی افواج میں چیفس کا تقرر خالصتاً سینیارٹی کی بنیاد پر ہو۔ ہماری افواج میں ہر مرحلے پر چھانٹی کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ صرف اہل ہی اعلیٰ عہدوں تک پہنچ پاتے ہیں اور تھری اسٹار جنرلز کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار کہ کون چیف بننے کے لائق ہے اور کون نہیں، کا مطلب یہ ہوگاکہ ہماری پروموشن پالیسی سرے سے غلط ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سروسز یعنی میڈیکل، انجینئرنگ، سگنلز وغیرہ کے سربراہوں کو اس دوڑ سے الگ رکھا جائے۔ میں تو اس کے بھی خلاف ہوں۔ جنرل، جنرل ہوتا ہے خواہ کسی شعبے سے ہو اور اس میں اتنی صلاحیت ہونی چاہئے کہ وہ سپاہ کی سربراہی سنبھال سکے ورنہ اس کے تھری اسٹار لیول تک اٹھنے کا کوئی جواز نہیں“۔ بریگیڈیئر آہلو والیہ نے مزید کہا کہ ”سینیارٹی“ پر سمجھوتہ کرنے سے مہم جوئی کو فروغ ملتا ہے۔ باری سے ہٹ کر آنے والا چیف احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے کہ مجھ میں ضرور کوئی خوبی تھی جو نیچے سے اوپر لایا گیا۔ اس سے فوج میں ڈسپلن اور کامریڈ شپ کا ستیاناس ہو جاتا ہے، انتخاب کے پیمانے متعین نہ ہونے کے سبب چیف کے عہدے کے امیدواروں کی فہرست طویل ہو جاتی ہے اور ہر کوئی قسمت آزمائی کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے“۔ پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ”آؤٹ آف ٹرن پروموٹ ہونے والے چیف اسے غیب سے ملنے والا چانس سمجھ کر اکثر اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں اور سول معاملات میں دخل اندازی کے مرتکب ہوتے ہیں“۔ آگے چل کر کہا کہ ”اگر سینئرکو سپر سیڈ نہیں ہونا چاہئے تو چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی کوئی جواز نہیں۔ اس سے سینئر رینکس میں مایوسی در آتی ہے“۔
1947ء میں آزادی ملی، افواج تقسیم ہوئیں تو بھارت اور پاکستان دونوں طرف ایک بھی مقامی فوجی، جنرل رینک میں نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ بریگیڈیئر تھے یا اس سے بھی نیچے لہٰذا دونوں جانب انگریز جرنیل افواج کے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔ پاکستان کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان تو آزادی کے وقت فقط کرنل تھے، آزادی کے چند ماہ بعد ہی جنرل قرار پائے اور پھر حیلے وسیلے سینئر نہ ہوتے ہوئے بھی راستے کی رکاوٹوں کو دور کرتے گئے اور1951ء میں کمانڈر انچیف بن گئے۔ اصولی طور پر تین برس کی میعاد پوری کرنے کے بعد انہیں1954ء میں ریٹائر ہو جانا چاہئے تھا مگر توسیع پر توسیع ہوتی رہی جو بالآخر ہماری تاریخ کے پہلے مارشل لاء پر منتج ہوئی۔ اگلے آرمی چیف جنرل موسیٰ کا وقت رخصت آیا تو وہ تین سینئر موسٹ جرنیلوں کی فہرست لیکر صدرایوب کے پاس گئے کہ ان میں سے کسی ایک کو ان کے جانشین کے طور پر منتخب کر لیا جائے۔ ایوب خان نے فہرست پر سرسری سی نظر ڈالی اور اپنے قلم سے لیفٹیننٹ جنرل یحییٰ خان کا نام درج کر کے جنرل موسیٰ کو استفہامیہ نگاہ سے دیکھا، جنرل موسیٰ نے کہا کہ جہاں تک پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا تعلق ہے ، یحییٰ خان یقیناً باقی تینوں کے قریب قریب ہیں لیکن ان کی بشری کمزوریوں اور خامیوں کے مقابلے میں موصوف کی سپہ گری بھی زیرو ہو جاتی ہے۔ صدر ایوب مسکرائے اور بولے ”خیر ایسی بات بھی نہیں“ یوں جنرل موسیٰ کی فہرست دھری کی دھری رہ گئی اورجنرل یحییٰ سپہ سالار مقرر ہوگئے۔ سینیارٹی پر سمجھوتے کی اس کارروائی نے آگے چل کر جو گل کھلائے، وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے۔
ہماری تاریخ کا تیسرا مارشل لاء جنرل ضیاء کا مرہون منت ہے ۔ مارچ1976ء میں ان کے پیشرو جنرل ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو بھٹو ان کی ملازمت میں ایک برس کی توسیع کا فیصلہ کر چکے تھے جو بوجوہ بعد میں بدل دیا گیا۔ نئے چیف کی تلاش ہوئی تو بھٹو نے تقریباً سبھی لیفٹیننٹ جنرلوں کو کھنگالا،جو سینیارٹی میں اس ترتیب سے تھے، لیفٹیننٹ جنرل محمد شریف، لیفٹیننٹ جنرل محمد اکبر خان، لیفٹیننٹ جنرل آفتاب احمد خان، لیفٹیننٹ جنرل عظمت بخش اعوان، لیفٹیننٹ جنرل آغا علی ابراہیم اکرم، لیفٹیننٹ جنرل ملک عبدالمجید، لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان اور لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیاء الحق، ہما آٹھویں نمبر کے جونیئر موسٹ شخص محمد ضیاء الحق کے سر پر بیٹھا اور انہیں چیف مقرر کردیا گیا۔پاکستان کے چوتھے فوجی حکمران پرویز مشرف کا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان ان سے سینئرتھے، سیندھرسٹ کا فارغ التحصیل، جرنیل ابن جرنیل علی قلی خان فوج میں بے حد مقبول اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کا چہیتا بھی تھا۔ جس کی وہ فوج کے آئندہ چیف کے طور پر گرومنگ کر رہے تھے۔ جنرل کرامت کی پیش از وقت ریٹائرمنٹ سے چیف کی جگہ خالی ہوئی تو وزیراعظم نواز شریف شاید علی قلی خان کی ذات کے سحر سے خوفزدہ ہو گئے اور قرعہ فال ڈومیسائل سے پرویز مشرف کے نام نکل آیا، یہی غلطی بھٹو شہید نے بھی کی تھی، انہیں بھی جنرل ضیاء الحق بے حد مودب اور سادہ لگا تھا تبھی تو تہہ میں سے نکال لائے تھے لیکن دونوں کا انتخاب غلط نکلا۔
اس سارے منظر نامے میں ایک چیز کھٹکتی ہے کہ سینئرز کو سپر سیڈ کرتے ہوئے کسی جونیئر کو ہول نہیں اٹھا کہ مجھ سے بہتر لوگ گھر سدھار رہے ہیں۔ سب نے اسے شیر مادر سمجھا، اس کے مقابلے میں انڈیا میں اکثر و بیشتر سینیارٹی کو مقدم رکھا گیا اور کبھی اس سے ہٹ کر فیصلے کی کوشش کی گئی تو پہلا احتجاج، خود جونیئرز نے کیا کہ سینئرز کے ہوتے ہوئے ہمارا حق نہیں بنتا، جنوری 1949ء میں انگریز کمانڈر انچیف کی جگہ مقامی چیف کی بات چلی تو قدرتی طور پر نگاہ سینئر موسٹ انڈین جنرل کے ایم کری آپا پر گئی لیکن بعض مقتدر حلقوں کا خیال تھا کہ موصوف تو گوروں سے بھی بڑھ کر انگریز ہیں۔ ہندی زبان بالکل نہیں جانتے اور مقامی رہن سہن میں بھی سرے سے کورے ہیں۔ جس بنا پر بعض لوگ انہیں براؤن صاحب کے نام سے بھی یاد کرتے تھے۔ آزادی اور قوم پرستی سے لبریز جذباتی ماحول میں یہ تنقید کچھ بے جا بھی نہیں تھی کہ ایک انگریز کو نکال کر دوسرے کو رکھ لینا کہاں کی دانائی ہے؟ ایسے میں جنرل کری آپا کے دو جونیئرز جنرل نتھو سنگھ اور جنرل راجندر کے نام بھی زیر غور آئے کہ جنرل کری آپا کو سپر سیڈ کر کے دونوں میں سے کسی ایک کو انڈین آرمی کا پہلا مقامی کمانڈر انچیف مقرر کردیا جائے، بلاشبہ یہ ایک بڑا اعزازتھا لیکن ان دونوں جرنیلوں کی پیشہ ورانہ اخلاقیات ملاحظہ ہو کہ انہوں نے اپنے سینئر جنرل کو سپر سیڈ کرنے سے انکار کردیا۔ جنرل کری آپا آرمی چیف بنے اور 1952ء تک چلے، جس کے بعد سینئر موسٹ جنرل راجندر نے جگہ لی۔انڈین آرمی کی تاریخ میں اس قسم کا ایک اور واقعہ ساٹھ کی دہائی میں کمانڈر انچیف کی حیثیت سے جنرل تھاپر (Thapar) کا تقرر تھا۔ گو ان کے جونیئر جنرل تھوراٹ (Thorat) کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا بہت شہرہ تھا لیکن سینیارٹی پھر جیت گئی۔ انہیں دنوں جنرل تھوراٹ سے وائس آف امریکہ کے نمائندے نے نیا چیف بننے کے ان کے چانسز کی بات کی، تو موصوف کا جواب تھا:
"General Thapar is my senior and the decision rests with the government"
یعنی فیصلہ حکومت کو کرنا ہے لیکن جنرل تھاپر میرے سینئر ہیں۔ پاکستان آرمی میں تھوک کے حساب سے جرنیلوں کو سپرسیڈ کر کے بظاہر کسی مسکین صورت فطرت جونیئر کو چیف متعین کرنے کی سائیکی کے پیچھے کار فرما عوامل کا ذکر کرتے ہوئے ایک جنرل نے بڑے مزے کی بات کی۔ کہنے لگے، سید صاحب، ہم پاکستانی تو کسی ایسے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے نہیں جاتے، جہاں کے بیرے ویل ڈریسڈ اور اسمارٹ ہوں، ایسے میں ارباب اختیار کا ٹھسّے دار چیفس سے اجتناب عین فطری ہے مگر مسلم لیگ ن کے فیصلے سے لگتا ہے کہ سیاستدان سیانے ہوگئے ہیں اور ذاتی پسند ناپسند کے چکر سے نکلنے میں سنجیدہ ہیں۔
تازہ ترین