• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرونا وائرس ان دنوں دنیا کے ہر موضوع کو ہڑپ کرچکا ہے۔اب ہر طرف ملک اور قوم کی بقا کا سوال سر اٹھائے کھڑا ہے۔دنیا بھر کی معیشت ڈوب چکی ہے اور طاقت ور سیاسی مہرے بھی لڑ کھڑا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو سنگین بحران کے باعث ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچا ہے۔ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں تو اس نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ کئی برس انہیں اپنے پیروں پرکھڑے ہونے کے لیے درکار ہوں گے ۔صاف نظر آرہا ہے کہ اس سے عالمی اقتصادی شرح نمو بری طرح متاثر ہو گی جس سے غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔تیل کے نرخ اب منفی ہوچکے ہیں۔دنیا بھر کے بازازِ حصص میں زلزلے کی سی کیفیت ہے۔

چین اور امریکا ایک دوسرے کو حالات کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔کروانا وائرس ایک طرف تو دنیا بھر کے انسانوں کی جانوں کے لیے خطرہ بنا ہواہے تو دوسری طرف اس نے اقتصادی اور سیاسی میدان میں دنیا کی سپر پاورز کو آمنے سامنے لا کھڑا کیاہے۔ ماہرین سیاسیات کے مطابق اس وبا سے طبقاتی جدوجہد پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔زیادہ تر ماہرینِ سیاسیات اس نکتے پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ اس وبا کے بعد عالمی سیاست میں بہت اہم تبدیلیاں نظر آئیں گی۔

نیا ورلڈ آرڈر

سابق امریکی وزیر خارجہ اور امریکی پالیسیوں کے ماہر ہنری کسنجر نے خبردار کیا ہے کہ کرونا کی وبا عارضی نہیں بلکہ اس کے تباہ کن اقتصادی اور معاشرتی اثرات آنے والی نسلوں میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے اثرات کی بناء پر کرونا کی وبا ایک نیا ورلڈ آرڈر ثابت ہوگی۔ سابق امریکی صدورنکسن اور فورڈ کے دور میں امریکا کے وزیر خارجہ رہنے والے ہنری کسنجر نے کرونا کے منفی اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا کربالخصوص امریکا اور بالعموم پوری دنیا کو بے دار کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے خبر دار کیاہےکہ اس وبا سے عمرانی معاہدوں کا شیرازہ بکھرتا دکھائی دے رہا ہے۔کرونا کے بعد کی دنیا اس سے پہلے کی دنیا سے مختلف ہوگی اور ان کی نگاہ میں کرونا اپنے اثرات کی وجہ سے آنے والے دور میں ایک نیاورلڈ آرڈر ثابت ہوگا۔انہوں نے امریکا اور پوری دنیا میں اقتصادی افراتفری پھیلنے اور بڑے پیمانے پراقتصادی تبدیلیوں کا بھی عندیہ دیا ہے۔ان کے بہ قول کرونا کی شکل میں ایک نیا عالمی آرڈر تشکیل پا رہا ہے۔ انہوں نے کرونا کے نتیجے میں پوری دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کے لیے تمام ممالک اور اقوام سےتیار رہنے پر زور دیا ہے۔

ممتاز امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں شایع ہونے والے اپنے مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ میںکووِڈ ۔19کی وبا کوبلیگ کی جنگ کے مماثل سمجھتا ہوں۔ میں نے جوکچھ اس جنگ میں محسوس کیا وہ آج بھی محسوس کررہا ہوں۔ اس جنگ کے دوران میں 84 ویں انفنٹری ڈویژن میں ایک نوجوان افسر تھا۔وہ لکھتے ہیں کہ جیسے 1944 کے آخر میں ابھرتے ہوئے خطرے کا احساس تھا مگر اس خطرے کو اپنی آنکھ سے کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا، آج بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ مگر اس دور اور آج کے دور میں بہت فرق ہے۔ فی الحال امریکا ایک منقسم ملک ہے۔ 

عالمی سطح اور دائرہ کار میں غیر معمولی رکاوٹیں دورکرنے کے لیے ایک موثر اور دور اندیش حکومت ضروری ہے۔ عوامی اعتماد کو برقرار رکھنا،معاشرتی یک جہتی ، معاشروں کا ایک دوسرے سے رشتہ اور عالمی امن و استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کرونا کے بعد دنیا کی ایک نئی صف بندی ہوگی۔ خوش حالی لوٹے گی، استحکام بحال ہوگا، مگرکووِڈ ۔19 کا خاتمہ ہو گا تو بہت سے ممالک کے ادارے ناکام ہوتے نظر آئیں گے۔ایسے میں کرونا کے بعد کی دنیااس سے پہلے کی دنیاسے مختلف ہوگی۔

بہت کچھ نیا ہورہا ہے اور ہوگا

ان دنوںہر ملک اس وبا سےاپنی معیشت،نظام اور اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے سرگرم ہے۔ چین، اٹلی، فرانس، امریکا، اسپین ، امریکا اور یورپ کے متعدد ممالک نے بہت سخت تدابیر پر عمل درآمدکیا ہے۔زیادہ تر ممالک فضائی رابطے تقریباً پوری طرح منقطع کرچکے ہیں۔یورپ نے تمام برّی سرحدیں آمدورفت کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا تو برطانیہ یورپ اور پوری دنیا سے ہٹ کر ایک مختلف طرز کی حکمتِ عملی پر عمل پیراہوا۔ تا ہم برطانوی عوام میں ہر گزرتے دن کے ساتھ افراتفری کا ماحول پیدا ہونے کا مظاہرہ ہوا۔ دوسری جانب فرانس نے بلدیاتی انتخابات کادوسرامرحلہ موخر کر دیا ہے تو اسپین نے نجی اسپتالوںکے انتظامی امور سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا ہے۔ 

ہالینڈ میں 1973کے تیل کے بحران کے بعد پہلی بار کسی وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا ہے ۔ امریکا میں وائرس کے پھیلاو کے بعد سے انفرادی طور پر اسلحہ خریدنےمیںتیزی سےاضافہ دیکھنےمیں آر ہا ہے ۔اگریہ حالات جاری رہے تو افراتفری کا ماحول پہلے قومی سلامتی کے مسائل پیدا کرسکتا ہے اور بعد میں ملکوں کے اندر اور بین الاقوامی نوعیت کے دیگر مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔

اس وبا نے عالمی اقتصادی اور سلامتی کے دو بنیادی ستونوں کو ہلادیا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ دونوں ستون عالمی نظام کے مستقبل کا کون سا رخ اختیار کرنے کا تعین کریں گے۔بہ ظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب کے بعد رونما ہونے والے حالات تمام ترعالمی اداکاروں کوان کی قوتِ مدافعت کی پیمائش کی آزمائش کے مرحلے میں داخل کریں گے۔

یہ وباختم ہونے کے بعد پہلی مزاحمت انفرادی سطح پر ملکی معیشت میںنظر آئے گی۔ مضبوط اقتصادیات وباکے ضمن میںاٹھائےجانےوالے اقدامات کےلیےمالی مشکلات سے دو چار نہیں ہوں گی، تا ہم منظر عام پر آنے والے اتار چڑھاو سے آخر کار یہ بڑی اقتصادیات وسیع پیمانے کی مشکلات سے نبرد ِ آزما ہونے پر مجبور ہو جائیں گی۔کم زور اقتصادیات کے پاس مزید کھونے کو کچھ باقی نہیں بچے گا ۔ دوسرا مزاحمتی ٹیسٹ سماجی و انفرادی نفسیات کا ہو گا۔ افراتفری اور کشمکش کا شکار ہونے والے انسانوں کی تعداد میں اضافہ سماجی نفسیات اور رویّوں پر اثرِ انداز ہوگا جو سیاسی افراتفری کا موجب بننے والے نتائج کو جنم دے گا۔

اس بناپرسماجی مزاحمت قوی ہونےوالے معاشرے کم نقصانات کے ساتھ اس دور سے نکلنے میں کام یاب رہیں گے۔تیسرا ٹیسٹ حکومتوںکاہوگا۔ معیاری عمل درآمد اور لائحہ عمل پر عمل پیرا ہونے والی حکومتیں اس وبا سے کم سے کم سطح پر متاثر ہوں گی۔کم زور ریاستیں مزید لاغر ہوسکتی ہیںاور شاید انتہائی سنگین حالات کا سامنا کریں گی۔

اس وبا کے اختتام پر ہم سب کوملبے کا سامنا ہو نے کا قوی احتمال ہے۔ یہ ملبہ کسی نئے عالمی نظام کے قیام کے لیے کس طرح کی زمین ہم وار کرے گا، ہم سب اس کا مشاہدہ کریں گے۔فی الحال کرونا وائرس کے معاشی و سیاسی اثرات خام شکل میں سامنے آنے لگے ہیں۔امریکا کے بعد ایک اور ملک یعنی لبنان میں لاک ڈاون کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق لبنانی دارالحکومت اور دیگر شہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے لاک ڈاون اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کے خلاف احتجاج کیا۔مظاہرین لاک ڈاون سےمعمولات زندگی منجمد ہونے، منہگائی میں اضافہ ہونے اور بے روزگاری بڑھنے پر برہم ہیں ۔ انہوں نے گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں احتجاج کیا۔واضح رہے کہ لبنان میں ستّائیس اپریل تک چوبیس افراد اس وائرس سےہلاک اور707متاثر ہوچکےتھے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے سبب بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،چناں چہ لوگوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔دنیا کی مضبوط ترین معیشت رکھنے والے ملک، امریکا میں بھی بے روزگاری کی شرح بہت بڑھ چکی ہےاور عوام لاک ڈاؤن کے باوجود حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

امریکا میں کرونا نے شعبہ سیاحت سے وابستہ لوگوں سے بھی روز گار چھین لیا ہے اور اب تک اسی لاکھ امریکی بےروزگار ہو چکے ہیں۔امریکامیں مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ حکومت گھر پر رہنے کی پالیسی اور لاک ڈاؤن ختم کرے۔ امریکا کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے مظاہروں میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف نعری بازی بھی کی گئی۔

امریکی ریاست نیویارک کورونا وائرس سےشدید متاثر ہوئی ہے،جہاں اٹھارہ ہزار سے زاید اموات ہوچکی ہیں اور دو لاکھ سینتالیس ہزار سے زاید افراد بیمار ہیں۔ امریکا میںتادمِ تحریر مجموعی طور پرپچپن ہزار سے زاید اموات ہو چکی ہیں اورنو لاکھ ستّاسی ہزار سے زایدکرونا کے مریض ہیں۔تاہم وہاں لاک ڈاون کے باعث بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے شہریوں کی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوںواشنگٹن، مونٹانا، ایریزونا اور کولاراڈو میں شہریوں نے لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے کیے تھے جن میں اسلحے کی حامی تنظیموں نے بھرپور شرکت کی تھی۔

سیاسی کش مکش

ماہرین سیاسیات متنبہ کررہے ہیں کہ یہ وبادنیا بھر میں انسانی اموات میں اضافے اور معیشتوں پر منفی اثرات کے ساتھ عالمی سیاست پر بھی دور رس اثرات مرتب کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینیئر نائب صدر جان آلٹرمین نے کہاہے کہ کرونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہ کن شکل اختیار کر لی ہے جس کے باعث امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جانب سے اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے یورپ کے لیے پروازوں کی منسوخی سے یورپی اتحادیوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، کیوں کہ امریکی صدر نے یورپ پر الزام عاید کیا ہےکہ اس نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے۔ جان آلٹرمین نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کرونا وائرس کے باعث حکومتیں متاثر ہوں گی کیونکہ شہری اس سے بچاؤ کے لیے حکومتی اقدامات کو جانچتے ہیں اوریہ ہی نہیں بلکہ کرونا وائرس کے باعث کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونےسے معیشت بھی متاثر ہو گی اور بعض ممالک میں معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔

ادہر سینٹر فار امریکن پراگریس میں قومی سلامتی اور بین الاقوامی پالیسی کی نائب صدر کیلی میگس مین نے کہا ہےکہ ٹرمپ کے یورپ کے لیے پروازوں کی منسوخی کے اقدام سے امریکی سیاسی قیادت کے کردار سے متعلق بہت سے سوالات پیدا ہوں گے اور بہت سے شراکت دار اور اتحادی شبہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کیا ماحولیاتی تبدیلیوں کے عالمی معاہدے ، جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے یا عالم گیر وبا جیسے اہم مسائل پر امریکاکی قیادت پر انحصار کیا جاسکتا ہے ۔کیلی کے مطابق کرونا وائرس سے ہمارے تعلقات کی دیگر جہتوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ 

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان زاؤ لیجیان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ چین کے صوبے ووہان میں کرونا وائرس پھیلنے کی ذمے دار امریکی فوج ہو سکتی ہے۔ بعدازاں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کرونا وائرس کو ”ووہان وائرس “ کا نام دیا۔ امریکی ری پبلیکن سینیٹر ٹام کاٹن نے زور دیا کہ امریکا ان کا احتساب کرے گا جنہوں نے دنیا کو اس وائرس سے متاثر کیا ہے۔یہ تعلقات کے بدلتے ہوئے زاویے ہیںجو مستقبل میں سیاست کو بھی متاثر کریں گے۔

مشرقِ وسطی کا بڑھتا ہوا بحران

مشرقِ وسطیٰ، بالخصوص خلیجی ممالک ایشیائی محنت کشوں کی آماج گاہ ہیں۔ اس وبا نے یہاں بھی تباہی اور بربادی پھیلارکھی ہے اور معاشی بحران نے محنت کشوں کی زندگیاں الگ اجیرن کی ہوئی ہیں۔ 2019ء اس خطے میں سرمایہ داروں کے لیے اچھے دن نہیں چھوڑ کر گیا تھا۔ ڈوبتے سرمائے کی فکر میں بیٹھے سرمایہ دار وں کو حادثاتی جھٹکا کرونا نے دے دیاہے۔ مگر اس نے پوری دنیا سمیت مشرق و سطیٰ میں سب سے زیادہ متاثر محنت کش طبقے کو کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی دلدل میں پھنسے یہ محنت کش پہلے ہی نہ ختم ہونے والے مسائل کا شکار رہتے ہیں، اب جب اس وبا نے سرمایہ دارانہ نظام کے پہیے کو جام کیا ہوا ہے تو سرمایہ دار کا سارا غم و غصہ محنت کشوں پر نکل رہا ہے۔ 

چھوٹے موٹے سرمایہ دار تو 2019ء کے اختتام کے ساتھ ہی بچا کھچا سرمایہ جمع کر کے اپنے ملکوں کی راہ لے چکےتھے، باقی بچنے والے سرمایہ داریا تو اب راہ فرار اختیار کر رہے ہیں یا اپنے محنت کشوں کو بے آسرا چھوڑ کر قرنطینہ میں بیٹھ گئے ہیں۔وہاں اگرچہ کرونا وائرس سے قبل ہی بڑے پیمانوں پر ملازمین کی چھانٹی کا سلسلہ جاری تھا،لیکن اب اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔اس کے ساتھ بے شمار چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیز اور کاروباردیوالیہ ہونے کی جانب جائیں گے جس سے بے روزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا۔ اس کے اثرات نہ صرف عرب امارات بلکہ ایشیائی ملکوں پر بھی پڑیں گے۔اس کے ساتھ تیل کی قیمتوں میں بہت کمی بھی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ 

ریاست دبئی کا فلیگ شپ پراجیکٹ ایکسپو 2020ء، جس سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں، پرواز سے قبل ہی بیٹھ چکا ہے۔حصص بازار اور مالیاتی کمپنیز کچے دھاگے سے لٹک رہی ہیں۔ اس کے ناگزیر طور پر سیاسی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ بلند وبالا عمارات اور انفرااسٹرکچر کی چکا چوند کے پیچھے چھپا نسبتاً سیاسی استحکام بھی ٹوٹنا شروع ہو چکاہے ۔ اس کا سب سے پہلا اظہار اس وقت ہوا جب سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد دبئی سمیت دیگر چھوٹی ریاستوں نے ابوظبی پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ یمن میں جاری جارحیت سے باہر نکلے کیوں کہ عرب امارات کے وجود کو کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔بعض سیاسی مبصرین کے مطابق ترقی کے عہد میں ترتیب دیا گیا یہ سیاسی اتحاد اور استحکام اپنی عمر پوری کرچکا ہے۔کرونا وبا نے سطح کے نیچے ایک لمبے عرصے سے موجود تضادات کو عیاں کردیا ہے۔ کرونا وبا ختم ہونے کے بعدپہلے والا معمول واپس نہیں آسکے گا۔

امریکا اور یورپ کی لرزش

عالمی سطح پر ایک بہت بڑے اقتصادی بحران کا درحقیقت آغاز ہو چکاہے، لیکن زیادہ اہم طوفانی واقعات مزید کچھ عرصے میں نظر آئیں گے۔یہ بحران آنے سے پہلے ہی دنیا بہت بڑی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی اور 2008ء کے بحران کے اثرات سے اب تک باہر نہیں نکل سکی ہے۔اقتصادی اثرات کے ساتھ ایک دہائی قبل کے اس بحران کے سیاسی اور سماجی اثرات بھی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں اور عرب انقلابات سے لے کر ہانگ کانگ کی حالیہ تحریک اور بریگزٹ کی پہیلی تک مختلف شکلوں میں دنیا کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں عالمی سطح پر ایک نیا مالیاتی بحران جو پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ گہرا ہوگا کس قسم کے اثرات مرتب کرے گااس کے متعلق جتنی گفتگو کی جائے کم ہے۔ 

سائنس اور ٹیکنالوجی سے لے کر فنون تک اور سیاست سے لے کر سماجیات تک، دنیا کا ہر ملک اور اس کرۂ ارض پر بسنے والا ہر شخص ناگزیر طور پر اس کے اثرات محسوس کرے گا اور دنیا مکمل طور پر تیزی سے تبدیل ہونے کی جانب بڑھے گی۔اس تبدیلی کے دوران بہت سے ادارے ، ریاستیں ، اصول و ضوابط اور قاعدے قوانین ہوا میں بکھر جائیں گے اور ماضی کے ملبے سے نئی ر دنیا کی کونپلیں پھوٹتی نظر آئیں گی۔

آج دنیا پر نظر دوڑائیں تو ہر جانب سماج کی بنیادوں کو ہلا دینے والے معاشی بحران کے ساتھ ایک سیاسی اتھل پتھل بھی بڑی واضح اور پوری شدت سے نظر آتی ہے۔ برطانوی سماج میں چار سو سال بعد دیوہیکل سیاسی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں اور بہت سے سنجیدہ ماہرین انگلستان کی 1641ء کی خانہ جنگی سے اسباق سیکھنے کے مشورے دیتے نظر آتے ہیں۔ فرانس، اٹلی اور جرمنی سمیت دنیا کا کوئی ملک بھی ان اہم ترین سیاسی تبدیلیوں سے بچا ہو انہیں اور سماجی زلزلے ہر جانب دہائیوں سے چلے آ رہے جو اسٹیٹس کو کو توڑرہے ہیں اور اس نظام کے بوسیدہ اداروں، نام نہاد جمہوریتوں اورمالیاتی اداروں کو زمین بوس کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خود امریکا میں، جو اس نظام کا رکھوالا اور سب سے مضبوط ستون ہے، وہاں بھی پورا سماج بہت گہری تبدیلی سے گزر رہا ہے اور سیاسی اور معاشی میدانوں میں اس تبدیلی کا اظہار مختلف واقعات کی شکل میں ہو رہا ہے۔

یورپ کو شدید دھچکے کا سامنا ہے۔ خاص طور پر اٹلی کو جو یورو زون کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ یورپی یونین نے سوائے 25 بلین یورو کا فنڈ قائم کرنے کے اور کچھ نہیں کیا، جو پہلے سے ہی موجود تھا۔ تمام ممالک پر سے بجٹ کی پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں یعنی اب ہر ملک اپنے رحم وکرم پر ہے۔ اٹلی کے صدر نے بھی یورپی یونین کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اٹلی کو یورپ سے زیادہ تو چین سے امداد آ رہی ہے۔ 

مختلف ممالک نے اٹلی کے ساتھ سفری رابطے ختم کر لیے ہیں۔ فرانس، جرمنی اور دوسرے ممالک نے طبّی ساز و سامان برآمد کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ بالکل 2008ء کے اقتصادی بحران اور پناہ گزینوں کے بحران والی صورت حال محسوس ہوتی ہے جس سے یورپی یونین کے تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس سے یورپی یونین کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

کرونا وائرس کی وبا کا مرکز یورپ منتقل ہونے کے ساتھ ہی خطے کو دوسری عالمی جنگ کے بعدسے اب تک کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اس دباؤ کے تحت یورپی اتحاد کے تمام برج ٹوٹنے کے قریب ہیں۔ ایک ایسے وقت میں، جب بین الاقوامی یک جہتی اور تعاون کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، یورپی ریاستیں اپنی سرحدیں بند کرچکی ہیں اور امداد روک رہی ہیں ۔ دوسری جانب موجودہ بحران کے بارے میں کہا جارہاہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف یورو کے بلکہ یورپی یونین کے ٹوٹنے کے امکانات مزیدبڑھ جائیں گے۔

ماہرین کے مطابق ماضی کے کسی بھی بحران نے عالمی نظم کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا،لیکن آج کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے صحت، سلامتی، معاشی اور معاشرتی شعبوں میں بین الاقوامی ڈھانچے کو بہت ُسست بنادیا ہے اور اس عالم گیر واقعے کے سامنے بین الاقوامی نظام کی کم زوریوں کو پہلے سے کہیں زیادہ بے نقاب کردیا ہے۔

تازہ ترین