• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا خیا ل ہے کہ پاکستان کے افق پر چھائے مایوسی کے سیاہ بادل کسی حد تک چھٹنا شروع ہو گئے ہیں اور ماضی کے کسی بھی دور سے زیادہ امید کا سورج روشن دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلطیاں کرنے کی بے مثال صلاحیت کے باوجود پاکستان ان انتخابات کی طرف درست انداز میں قدم رکھ رہا ہے۔ الحمدلله، قنوطی افراد متحیر و پریشاں ہیں، خلاف ِ توقع سازشی عناصرہاتھ پہ ہاتھ دھرے بے کار بیٹھے ہیں اور ہر چیز، بشمول موسم، بہتر ی کی طرف جارہی ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے اتنا خوشگوار اور پرسکون مارچ کبھی دیکھا ہو جبکہ اٹھکیلیاں کرتی ہوائیں اور روشن سورج گندم کی بہت زیادہ فصل کے امکانات بڑھا رہا ہے ۔اسی دوران پی پی پی کی حکومت یاد رفتہ کا حصہ بن چکی ہے… گیلانی، اشرف اور بہت سے دیگر اب کہاں ہیں ؟مسٹر بلاول کے بارے میں شنید ہے کہ پارٹی کے معاملات پر ناراض ہو کر مبینہ طور پردبئی کے راستے لندن جا چکے ہیں۔ اگر اس معاملے میں سامنے آنے والی خبریں درست ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ نوجوان میں زندگی کی کچھ رمق موجود ہے اور یہ اس پارٹی کے لئے اچھی خبر ہے کیونکہ اگر پی پی پی نے مستقبل میں قد م رکھنا ہے، تو ضروری ہے کہ اس پر زرداری صاحب کا برگد نما سایہ نہ ہو اور اگر گزشتہ پانچ سال پر نظر جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ”پاکستان اور زرداری“ ایک ڈراؤنے سپنے کا نام تھا جو اب ختم ہونے کو ہے۔
درست ہے کہ ابھی زمینی حقائق نہیں بدلے ہیں اور نہ ہی بہت سے پیران ِ تسمہ پاسے ہماری گردنیں آزاد ہوئی ہیں… افغانستان کا مسئلہ اپنی جگہ پر ہے، طالبان اپنے مقبوضہ علاقوں پر اپنی ریاست قائم کیے ہوئے ہیں، کراچی ایک رستا ہوا ناسور بن چکا ہے، بلوچستان میں شدید کشیدگی ہے، معیشت دیوالیہ پن کے کنارے پر پہنچ چکی ہے، افغانستان دھمکیاں دے رہا ہے جبکہ ہمارا روپیہ بھی ”افغانی “ بن چکا ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود، صورت ِ حال حوصلہ افزا نظر آرہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ہر نئی چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کو یہ دیکھ کر مایوسی کا سامنا ہے کہ ابھی آسمان ٹوٹنے میں خاصی تاخیر معلوم ہوتی ہے۔
پاکستان کو معجزانہ تبدیلیوں کی بجائے معمول کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ بہت دیر سے اس کے معمولات غیر یقینی صورت ِ حال کا شکار رہے ہیں، چنانچہ ضروری ہے کہ ہم تبدیلی کے لئے طے شدہ راستہ اختیار کریں ۔ اگرچہ اس کائنات میں تغیر کو ہی ثبات حاصل ہے لیکن یہ تغیر فطری عوامل سے طے پاتا ہے ، شورش اور شر پسندی کے گھوڑوں پر سوار نہیں رہتا۔ اب یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری، سب سے بھاری ذمہ داری اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کندھوں پر آن پڑی ہے کیونکہ حالات نے اس کے لئے بہت سے ہما تخلیق کر لئے ہیں جو اس کے سر پر سایہ فگن ہونے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ اگر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی طرف دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ ”تندی ِ باد مخالف “ کے باوجود (یا شاید کی وجہ سے ؟) یہ جماعت اپنے مخالفین سے بہت بلندی پر ہے۔ یہ مخالف ہوائیں کیا تھیں ؟پی پی پی کی نااہل حکومت یا ”یقینی “ بوکھلاہٹ کا شکار عمران خان جو کسی ”غنچہ ٴ ناشگفتہ “ کے آسرے پر اپنے لئے بہار کی آمد کی نوید خود کو سنا سنا کر فتح سے سرشا ر ہیں۔ چنانچہ اپنے مخالفین کی ٹھوس نااہلی اور نرگسی سرشاری کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا میں پی ایم ایل (ن) کو قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ تاہم انتخابات میں کامیابی سفر کا اختتام نہیں ہوتی، یہ تو اس سمت میں بڑھنے کا نکتہ ِ آغاز ہے۔ فی الحال ان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے نواز لیگ کو اسی طرح جیت کے جذبے کو قائم رکھنا ہے ۔
اب سیاست دانوں کو داؤ پیچ سیکھنے کے لئے کسی شاطر کے اشاروں پرناچنے کی ضرورت نہیں ہے… اور آج کل یہ ” سہولت “ میسر بھی نہیں ہے۔ ہمارے مسائل، جیسا کہ معاشی بحران، دہشت گردی اور انتہا پسندی، پر قابو پایاجانا ضروری ہے، لیکن اس کے لئے صاحب ِ اختیار ہونے کی ضرورت ہے۔ محض نیک تمنائیں رکھنے سے معاملات نہیں سدھریں گے۔ اس کے لئے مربوط کوشش اور فعال منصوبہ بنا کر ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ لینن نے نومبر1917 میں ، ”بولشوکس “( Bolsheviks)، جو کہ روس کی مارکسی نظریات کی حامل سوشل ڈیموکریٹ لیبر پارٹی تھی، کی فتح کے بعد کہا تھا …”اب ہم اشتراکی نظام کی طرف پیش رفت کریں گے “۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھی انتخابات میں کامیابی کے بعد، جب جوشیلے جذبات بیٹھ جائیں تو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے بعد کہنا چاہئے کہ اب ہم پاکستان کی تعمیر کا آغاز کریں گے۔ اس کے لئے ہمیں کسی انقلابی معرکے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے کوئی نیا جہاں تخلیق کرنا ہے۔ ہم نے اس وطن کی تعمیر کی طرف بڑھنا ہے اور ہمیں اس ” انقلابی “ ذہنیت سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے کہ ہر مرتبہ گاڑی بنانے سے پہلے ایک نیا پہیہ ضرور ایجاد کیا جانا چاہئے۔ اب ماضی وقت کی دھول میں گم ہو چکا ہے جبکہ مستقبل کی روشنی واضح امکانات کے ساتھ ہمیں بلارہی ہے۔ اب ہمیں پوری ثابت قدمی ، حوصلے اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے تاکہ ہم دوسری دنیا کے ہم قدم ہو سکیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کی زنجیروں کو توڑنے کی ہمت کون کرے گا؟کون ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟کون نعرہ ِ مستانہ لگاکر خرد کو غلامی سے آزاد کرانے کی سعی کرے گا؟ان انتخابات میں اسی بات کا فیصلہ ہونا ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان مفاہمت رچرڈ نکسن ، جن کی اشتراکی نظام کی مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی، کے دور میں ہوئی۔ جب وہ چین سے مفاہمت کے لئے قدم بڑھا رہے تھے تو رپبلکن پارٹی کے کسی رہنما نے اُن پر اعتراض نہ کیا۔ آج ہمارے ہاں اس پالیسی کو کون آگے بڑھائے گا؟کیا ہمارے ہاں انتہا پسندی کی قوتوں، جنھوں نے ملک کے سماجی خدوخال کو دھندلا دیا ہے، کے خلاف کمر بستہ ہونے والوں پر دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے اسلام مخالف یا پاکستان مخالف ہونے کا فتوی تو نہیں لگایا جائے گا؟اس بات پر غور کیجیے۔
اس ماحول میں جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو اُ ن کی سوچ کا دھارا ایک سمت سادہ سا بہاؤ لئے ہوئے ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ بدعنوانی کے خلاف بولتے ہیں … اور یہ ہمارے ملک میں سب کا من پسند مشغلہ ہے، کوئی بھی ایسا کرسکتا ہے، تاہم پاکستان کے مسائل کہیں زیادہ گمبھیر اور پیچیدہ ہیں، جیسا کہ تنگ نظری اور کج فہمی،جس کی وجہ سے ہم غلط فیصلے کرجاتے ہیں۔ ان فیصلوں کے نتائج ہمارے ہر طرف آویزاں ہیں۔ نواز شریف اب تک کافی سیاسی دانائی حاصل کر تے ہوئے نئی منزل کی جانب قدم بڑھا چکے ہیں ، جبکہ عمران خان ابھی ”قیدِ مقام “ سے بھی نہیں گزرے ہیں(کیا میرے دوست شفقت محمود، خان صاحب کو مطالعہ کے لئے کچھ کتابیں تجویز کرنا چاہیں گے تاکہ وہ ذہنی بلوغت حاصل کر سکیں)۔اس وقت فکری رہنمائی کے لئے پارٹی کو محترمہ شیریں مزاری کی بھی ضرورت ہے۔ بہرحال پاکستان تحریک ِ انصاف کچھ معاملات میں دیگر جماعتوں سے بہتر ہے ، چنانچہ میں گاہے بگاہے ا س کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ آنے والے چند ہفتے بہت ہنگامہ خیز ہوں گے۔ اس مرتبہ انتخابی میدان2008 کے انتخابات سے زیادہ تنوع رکھتا ہے۔ بہت سی جماعتیں جو انتخابی اکھاڑے میں کود پڑی ہیں، کے درمیان پی پی پی کو اپنی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی کا بوجھ اٹھا کر میدان میں آنا ہے…اور یہ یقیناً کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہے۔ دوسری طرف اس کی انتخابی حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے سازگار ہوا چل رہی ہے۔ یہاں، اس ماحول میں ساٹھ سالہ عمران خان ”طفل ِ مکتب “ دکھائی دیتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی انتخابی میدان میں قدم رکھتے ہوئے وفاق کے دھارے میں شامل ہورہی ہیں۔ پاکستان کو اور کیا چاہئے! جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو وہ تباہی اور بربادی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں تحفظ کی ذمہ داری فوج پر تھی۔ موجودہ انتخابات میں بھی سیکورٹی کے لئے دفاعی اداروں کی خدمات حاصل ہوں گی لیکن نفسیاتی تحفظ بنیادی طور پر سپریم کورٹ اور بااختیار الیکشن کمیشن کی طرف سے ہے۔ یہ ان انتخابات میں ہونے والی ایک نئی چیز ہے کیونکہ عوام کو ان اداروں اور ان کے سربراہان پر اعتماد ہے۔ کیا اس سے یہ محسوس نہیں ہوتا ہے کہ ہماری تیرہ بختی ختم ہونے کو ہے اور ہمارے قلب و نظر پر لگا زنگ اترنے کو ہے؟ کون کہتا ہے کہ چیف الیکشن کمیشن جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم ایک ضعیف شخص ہیں؟میرا خیال ہے کہ اُن کی تاب و تواں بہت سے نوجوانوں سے بہتر ہے۔ جتنی دیر تک وہ کام کرتے ہیں، ہم میں سے بہت سے اتنا عرصہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح نگراں وزیر اعظم میرہزار خان کھوسو بھی زندہ دل شخص ہیں، چنانچہ بڑھاپے سے کوسوں دور ہیں۔ جس پر سکون طریقے سے وہ آرمی چیف سے بات کررہے تھے،وہ مجھے بہت اچھا لگا۔ یونان کے سا بقہ وزیر اعظم اندریس پیپن دریاس (Andreas Papandreous)نے چھیاسی سال کی عمر میں نہایت نوجوان ائیر ہوسٹس سے شادی کرلی اور یہ ”تجربہ “ اُن کے لیے بہت طمانیت بخش ثابت ہوا۔ انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی کے سابقہ صدر مسٹر ایوری برانڈیج نے پچاسی سال کی عمر میں ایک چھتیس سالہ پر کشش لڑکی سے شادی کی۔ آسٹریلوی نژاد امریکی میڈیا گرو ، روپرٹ مڈروچ نے دوسری شادی کافی تاخیر سے کی۔ ہمارے ہر دل عزیز مرحوم پیر پگارا صاحب بھی طویل عمری کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان روشن مثالوں میں بہت سوں کے لئے ”راہ ِ ہدایت “ ہے، چنانچہ فخرو بھائی پر اعتراض نہ کریں۔
حرف ِ آخر : اب جب کہ ہم ماضی کو خیرباد کہہ چکے ہیں، کیا نگراں وزیراعظم یو ٹیوب پر لگی پابندی کھولنے کی طرف قدم بڑھائیں گے کیونکہ اس پابندی نے ہمیں ایک احمق قوم کے طور پر مشہورکر دیا ہے۔ ذرا سوچیں کہ جب کوئی انتخابی مہم سے واپس آئے اور لیپ ٹاپ سے چھیڑخانی کرتے ہوئے دل بہلانے کی کوشش کرے تو یوٹیوب ندارد۔ میرے دوست رحمن ملک نے بارہا یقین دلایا کہ ” جانے “ سے پہلے وہ اسے کھول دیں گے ، لیکن پی پی پی حکومت اس کی ہمت نہ کر سکی، تاہم نگراں سیٹ اپ سے ہمیں بہتر توقعات ہیں۔ آخر میں، مسٹر نجم سیٹھی، مبارک ہو… سیاسی جماعتوں نے بہت عمدہ انتخاب کیا ہے۔ یقیناً ذہین افراد کی خدمات سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ شفقت محمود صاحب، کچھ اچھی سے کتابوں کی فہرست خان صاحب کے حوالے کردیں، ان کے مطالعہ کے دن قریب آرہے ہیں۔
تازہ ترین