• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہی مُلاّنصیرالدین والی بات … مُلّا نے گوشت بیگم صاحبہ کے سپرد کیا اور اسے پکانے کا کہہ کر باہر نکل گئے۔ بیگم صاحبہ پکانے کے دوران ہی نمک مرچ چکھتے چکھتے سارا گوشت چٹ کر گئیں۔ مُلّا واپس آئے اور دسترخوان پر دال سبزی دیکھ کر گوشت کا پوچھا تو بیگم کا جواب تھا، وہ تو بلی کھا گئی۔ مُلاّ بھی پرلے درجے کے کائیاں تھے، بلی کو پکڑا اور ترازو میں رکھ دیا۔ وزن اتنا ہی نکلا، مُلّاجی جتنا گوشت لائے تھے۔ مُلّا کا سوال تھا، یہ بلی ہے تو گوشت کدھر گیا اور یہ گوشت ہے تو بلی کہاں ہے؟ 23 مارچ کے مینارِ پاکستان کے جلسے کے لئے بے پناہ ”ہائپ“ خود کپتان اور اس کی تحریکِ انصاف نے پیدا کر دی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ جلسہ کپتان کے 30 اکتوبر کے جلسے کا ریکارڈ بھی توڑ دے گا حالانکہ یہ ریکارڈ تو دسمبر 2011 میں دفاعِ پاکستان کونسل کے جلسے نے توڑ دیا تھا۔ بہت سوں کے نزدیک ”شیخ الاسلام“ کا 23 دسمبر کا جلسہ بھی 30 اکتوبر کے جلسے سے بڑا تھا۔ تحریکِ انصاف والے اس جلسے میں کم از کم پانچ لاکھ افراد کی شرکت کا دعویٰ کر رہے تھے۔ خود ہمارا خیال تھا کہ یہ دو، ڈھائی لاکھ تک تو پہنچ ہی جائے گا کہ اس میں ملک بھر سے تحریک کے 80 ہزار منتخب عہدیداروں نے حلف اٹھانا تھا۔ وہ اپنے ساتھ ایک ایک بندہ بھی لاتے تو ایک لاکھ ،ساٹھ ہزارتو یہی ہو جاتے۔ 11 مئی کے الیکشن کے لئے تحریک کے ٹکٹ کے امیدواروں سے بھی کہا گیا تھا کہ ٹکٹ کا فیصلہ 23 مارچ کے جلسے کے حوالے سے ان کی کارکردگی پر کیا جائے گا۔ تحریکِ انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چودھری نے اعلان کیا تھا کہ شہر کے انٹری پوائنٹس پر باقاعدہ وڈیو فلمیں بنائی جائیں گی کہ کون امیدوار کتنی گاڑیاں لایا ہے۔ ظاہر ہے یہ تعداد بھی لاکھ، ڈیڑھ لاکھ تو ہونی ہی چاہیے تھی۔ پھر کپتان کا دعویٰ تھا کہ وہ لاہور کو شریف برادران سے چھین لے گا۔ یہ جلسہ اہل ِ لاہور کی سیاسی وابستگی کے لئے بھی ایک ٹیسٹ تھا۔ کپتان اسے پانی پت کی چوتھی جنگ قرار دے رہا تھا۔ جلسے کی پبلسٹی مہم بھی ”شیخ الاسلام “کی دھرنا پبلسٹی سے کم نہ تھی۔ اس سب کچھ نے اس جلسے کے حوالے سے توقعات بہت بڑھا دی تھیں۔ لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ 30 اکتوبر کے برعکس اس بار لاہور کی فضا نے اس جلسے کے اثرات محسوس نہیں ہو رہے تھے۔ 22 مارچ کی شام تک بھی جو کچھ تھا مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں ہی تھا جہاں جلسے کی تیاریاں آخری مراحل میں تھیں۔ باقی شہر میں اس کے کوئی آثار اور اثرات نہ تھے۔ اگلے روز اکثرو بیشتر غیرجانبدار مبصرین، تجزیہ کار اور تبصرہ نگار یہاں حاضرین کی تعداد کو ایک لاکھ کے لگ بھگ قرار دے رہے تھے۔ 30 اکتوبر کے جلسے کے برعکس جس میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے لوگ آئے تھے۔ اس بار پورے ملک سے تحریک کے وابستگان کو لانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ان میں 80 ہزار تو منتخب عہدیدار ہی تھے۔ وہی مُلّا نصیرالدین والی بات، یہ بلی ہے تو گوشت کدھر گیا اور یہ گوشت ہے تو بلی کہاں ہے؟ خود کپتان کا مدح سرایہ لکھنے پر مجبور تھا ”کیا پانی پت کی چوتھی جنگ عمران خاں نے جیت لی ہے؟ معلوم اور نا معلوم وجوہ کی بنا پر تبصرہ نگاروں کی اکثریت اس کے خلاف ہے“ جبکہ کپتان کے حامی ایک اور کالم نگار کا کہنا تھا کہ جلسے کو ناکام بنانے کے لئے لاہور میں میٹروبس سروس بند کر دی گئی اور جلسہ گاہ کے گردوپیش کنٹینر اور خاردار تاروں کی دیواریں چن دی گئیں۔ ظاہر ہے ان دونوں باتوں میں کوئی صداقت نہ تھی۔ میٹرو بھی سارا دن چلتی رہی اور حکومت پنجاب اور لاہور کی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی طرف سے بھی اس جلسے کے لئے تمام ضروری سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔
اب نظریں دو دن بعد مانسہرہ میں نواز شریف کے جلسے میں لگی ہوئی تھیں۔18 ویں ترمیم میں صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی (خیبر پختونخواہ) پر ہزارے والوں کا ردِعمل بہت شدید تھا۔ ہزارہ تحریک ِ پاکستان کے دنوں سے مسلم لیگ کا گڑھ رہا تھا۔ اہل ِ ہزارہ اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے کہ نواز شریف نے دونوں بار کی وزارتِ عظمیٰ کے لئے ہزارہ والی نشست رکھی اور لاہور والی نشست سے دستبردار ہو گئے لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد ہزارہ صوبے کی تحریک نے یہاں مسلم لیگ ن کے لئے بڑی مشکلات پیدا کر دی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ مسلم لیگ صوبے میں اپنے مضبوط ترین قلعے سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے لیکن مسلم لیگ کی قیادت نے بڑی حکمت کے ساتھ ہزارہ کی کھوئی ہوئی سرزمین واپس لے لی۔ مبصرین کے خیال میں آج مسلم لیگ ن یہاں ہمیشہ سے زیادہ توانا ہے۔ اس کا ایک اظہار نواز شریف کے 25 مارچ کے جلسے کی صورت میں بھی ہوا۔ جس کے لئے پبلسٹی مہم ، جس پر اٹھنے والے اخراجات اور دیگر تیاریاں کپتان کے 23 مارچ کے جلسہ لاہور کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھیں۔ لیکن علاقائی سطح کا نواز شریف کا یہ جلسہ لاہور میں کپتان کے ملک گیر جلسے سے کم نہ تھا۔ ایک بڑے انگریزی اخبار نے اسے Tit for Tat قرار دیا جبکہ کپتان کا مدح سرا بھی یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہا کہ ”مانسہرہ میں میاں محمد نواز شریف کا جلسہ عام یقینا بہت بڑا تھا۔ اخبار نویسوں کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ یہ اس شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا تو یہ بات مان لینی چاہیے“ لیکن اسی روز ایک جلسہ میانوالی میں بھی تھا۔ کپتان کے اپنے شہر میں کپتان کا جلسہ ٹی وی پر حاضرین کی تعداد دیکھ کر لوگوں کو سونامی سے پہلے والی تحریکِ انصاف یاد آگئی جب خود کپتان کے بقول اس کے ساتھ صرف 10 لوگ رہ گئے تھے۔ یہ جلسہ ڈاکٹر شیرافگن مرحوم کے صاحبزادے امجد شیرافگن کی تحریکِ انصاف کی شمولیت پر منعقد کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے اس میں امجد نے بھی اپنی طاقت کے بھرپور مظاہرے کا اہتمام کیا تھا اس کے باوجود یہ ایک بڑی کارنر میٹنگ سے زیادہ نہ تھا۔ ہمارا کالم نگار دوست حفیظ اللہ نیازی اسے کپتان سے اہل ِ میانوالی کا انتقام قرار دے رہا تھا۔
کیا تحریکِ انصاف اور جماعت ِ اسلامی میں انتخابی مفاہمت کی بیل منڈھے چڑھ سکے گی؟ اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ سید منور حسن کا غالب رحجان کپتان کی طرف ہے۔ برسوں بعدبھی وہ نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ کے لئے اپنے دل میں زیادہ گنجائش پیدا نہیں کر سکے۔ کپتان کے 23 اکتوبر کے جلسے کے بعد وہ اسی رات مبارک باد دینے زمان پارک پہنچے تھے۔ اب 23 مارچ کے جلسے کے بعد وہ ایک بار پھر کپتان کے ہاں حاضر ہوئے اور دونوں جماعتوں میں انتخابی مفاہمت کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔ ادھر کپتان اپنی شرائط ڈکٹیٹ کرا رہا ہے، جماعت تحریک کے ساتھ مفاہمت چاہتی ہے تو مسلم لیگ ن اور جے یو آئی وغیرہ کے ساتھ مفاہمت کا خیال دل سے نکال دے۔ سید منور حسن کی پسند نا پسند اپنی جگہ لیکن پنجاب میں جماعتِ اسلامی کے electablesکی ترجیح مختلف ہے۔ وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مفاہمت کے خواہاں ہیں۔ کراچی اور خیبرپختونخواہ میں بھی جماعت اسلامی مسلم لیگ ن اور جے یو آئی (ایف) کے لئے دروازے کھلے رکھنا چاہتی ہے۔ انہی دنوں جماعت ِ اسلامی کے ایک رہنما حافظ سلمان بٹ کا ایک انٹرویو بھی دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ” میں گورنمنٹ کالج لاہور کی ینگ سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکرٹری منتخب ہو گیا۔ گورنمنٹ کالج میں ایک قتل ہو گیا۔ مقتول نوجوان حنیف برکت کا تعلق میاں نواز شریف سے تھا۔ میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نیک اور نمازی آدمی تھے۔ وہ محب وطنِ پاکستان اور پکے مسلمان تھے۔ میاں محمد شریف جماعت ِ اسلامی کو فنانس بھی کرتے تھے۔ انہیں شرح ِصدر سے یہ تسلی اور اطمینان ہو گیا کہ مقتول حنیف برکت کے قتل سے میرا کوئی تعلق نہیں تو ان کی مدداور مداخلت سے مجھے اس مقدمے سے Clear کر دیا گیا“۔ جبکہ نواز شریف کے حوالے سے سلمان بٹ کا کہنا تھا، ”ذاتی طور ان کے ساتھ میرا بڑا احترام کا رشتہ ہے۔ میں نواز شریف کو اچھا، سادہ اور مخلص انسان سمجھتا ہوں۔ ان کی بہنیں بیٹیاں میری بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ ذاتی طور پر بڑے محترم ہیں میاں نواز شریف میرے لئے۔ “ مولانا فضل الرحمن سے جماعت اسلامی اور تحریک ِ انصاف میں ممکنہ انتخابی مفاہمت پر تبصرہ چاہا گیا تو ان کا کہنا تھا، جماعت کو ”جمائما کلچر “ مبارک ہو۔
تازہ ترین