• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان تاریخ ساز دنوں میں ہم سب، سانس تھامے، ایک نئی صبح یا ایک نئے منظر کا انتظار کررہے ہیں۔ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے خواہ اس کا حوالہ باہر کا موسم ہو یا اجتماعی ذہنی کیفیت… انتخابی سیاست کا تقاضہ ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے عمل کا حساب بھی کریں اور جو نئے عہدوپیماں کئے جارہے ہیں ان کو اپنے اعتبار اور اپنی بے یقینی کے بدلتے ہوئے پیمانے سے پرکھنے کی کوشش بھی کریں۔ مشکل یہ ہے کہ ہماری زندگی محض سیاست کی اسیر نہیں ہے۔ معاشرے کی جو مجموعی صورت حال ہے اس کا گہرا تعلق معاشی اور معاشرتی صورت حال سے بھی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ جمہوریت اگر برداشت، رواداری اور اختلاف رائے قبول کرنے کا نام ہے تو اس کی گنجائش ، موجودہ حالات میں کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر جمہوری نظام انسانی حقوق اور سماجی انصاف کی ضمانت دیتا ہے تو اس محاذ پر بھی ہمیں پسپائی کا سامنا رہا ہے۔ قرون وسطیٰ کی وحشتیں مسلسل ہمارے تعاقب میں ہیں۔ کراچی کے ایک محلے لیاری میں جو کچھ ہوا ، یعنی جس طرح لاشوں کی بے حرمتی کی گئی اور کٹے ہوئے سر سے فٹ بال کھیلنے کی خبر آئی، اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس بربریت کی ایک دھندلی وڈیو انٹرنیٹ کی فضا میں گردش بھی کررہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی وارداتوں میں اضافے پر اپنی تشویش کا اظہار کررہی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ میں بی بی سی نے یہ بتایا کہ کراچی کے غریب اور خاص طور پر پشتون آبادی والے علاقوں میں طالبان کا اثرورسوخ خوفناک حد تک بڑھتا جارہا ہے۔ مختصر یہ کہ انتخابات کی بساط بچھائے جانے سے امید کا جو دیا روشن ہوا ہے اس کی لو آندھیوں کی زد میں ہے۔
ان حالات میں کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم ٹھنڈے دل سے اور علم و دانش کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے۔ کیا وہ راستہ جس پر ہم چلتے رہے ہیں، غلط تھا۔ یا کوئی ایسا دوراہا آیا کہ جس پر رکنے اور غور کرنے کے بجائے ہم آنکھیں بند کرکے کسی ایک طرف چل پڑے۔ ہم اس حکمرانی کا رونا بہت روچکے ہیں کہ جس کا تعلق سرکاری اور انتظامی معاملات سے ہے۔ اب ان خیالات اور نظریات کا جائزہ بھی لے لیں کہ جنہوں نے ہم پر اور ہمارے ملک کی پالیسیوں پر حکمرانی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مشق کے لئے ہمیں اپنی تاریخ کو غور سے دیکھنا اور سمجھنا پڑے گا۔ گزری ہوئی تاریخ کو تو ہم تبدیل نہیں کرسکتے لیکن اس سے سبق سیکھ کر ہم ایک نئی تاریخ بنا تو سکتے ہیں۔ کسی حد تک ، انتخابات کے عمل سے ایک نئی سمت کا تعین کیا جاسکتا ہے اور انتخابی مہم میں ایسے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں جو ہمیں ایک بے رحم خودنگری کا موقع فراہم کریں۔
اب فرض کیجئے کہ تاریخ کی اپنی ایک عدالت ہے اور یہ عدالت از خود نوٹس لے کر، پاکستان کو طلب کرے اور اس کی بازپرس کرے کہ تم نے تاریخ، یعنی اس عدالت کے آئین کی خلاف ورزی کیوں کی تو پھر یہ ساری کارروائی کس نوعیت کی ہوگی؟ جو پاکستان کے حکمران رہے ہیں۔ وہ اپنی صفائی میں کیا کہیں گے؟ آپ اپنے ذہن میں اس عدالت کو سجا کر دیکھیں۔ یہ فیصلہ کریں کہ وہ کیا حالات اور واقعات تھے جنہوں نے پاکستان کے ذہن ، اس کردار اور اس کے عمل کو متاثر کیا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ پاکستان کے تاریخی تجزیئے کا آغاز کہاں سے ہو۔ آزادی کی تحریک کب اور کہاں شروع ہوئی، اس کا فیصلہ شاید مشکل ہو۔ عدالت اگر چاہے تو 23/مارچ 1940ء سے بات شروع کی جاسکتی ہے۔ یہ حوالہ ابتدائی سالوں میں تو اہم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ 1956ء کے آئین کے نفاذ کی وجہ سے اس دن کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوئی۔ وہ آئین تو منسوخ ہوگیا لیکن قومی تعطیل جاری رہی۔ پھر صوبائی خودمختاری کے مسئلے نے قرارداد لاہور کے الفاظ کو ایک نئی جہت سے نوازا۔ پچھلے ہفتے، اسی دن کی مناسبت سے ، عمران خان نے مینار پاکستان کے سائے میں اپنی سونامی کا دوسرا ایڈیشن جاری کیا۔ سونامی یوں تو موسم کی برہمی کا ایک تباہ کن اظہار ہے لیکن ایک انقلابی تبدیلی کی علامت کے طور پر تحریک انصاف کا نعرہ بن گیا ہے۔ کیا یہ اس نعرے کی بازگشت تھی کہ تیز ہواؤں اور بارش نے بھی اپنا رنگ جمایا ؟ خیر اسے تو آپ ایک جملہ معترضہ سمجھیں۔ بات یہ ہورہی تھی کہ تاریخ کی عدالت میں، پاکستان کی سرگزشت کہاں سے شروع ہو۔ شاید آئین کا تقاضا یہ ہو کہ ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے پاکستان کا محاسبہ 14/اگست 1947ء سے کیا جائے۔ جب اسے اب تک جو کچھ ہوا ، جو فیصلے کئے گئے جو معرکے سر ہوئے، جو کوتاہیاں سرزد ہوئیں، ان سب کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جائے کہ پاکستان نے اس جدید عہد میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لئے تاریخ سے کیا سیکھا۔
تاریخ کی عدالت کی اس تمثیل کو آپ محض ایک شاعرانہ انحراف سمجھ لیں۔ کہنے کی بات دراصل یہ ہے کہ انتخابات کی اس مہم کے دوران ان سوالات کا اٹھایا جانا ضروری ہے جن کو مسلسل ٹالتے رہنے سے ہم بظاہر ایک بندگلی میں آپہنچے ہیں۔ مثلاً یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ کیا پاکستان ایک قومی سلامتی کی ریاست ہے یا ایک فلاحی مملکت جس میں عوام کی خوشحالی کو مقدم سمجھا جائے۔ ایک بہت نازک مسئلہ مذہب کا سیاست میں عمل دخل ہے۔ اس تضاد کا کوئی کیا کرے کہ ہم اتنے مذہبی ہیں اور ہمارا معاشرہ بے راہ روی ، بے ایمانی اور اخلاقی لغزشوں سے معمور بھی ہے۔ قائداعظم نے 11/ اگست 1947ء کو جو تقریر کی تھی کیا اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ اگر ہم ترکی کے موجودہ وزیراعظم کو تاریخ کی عدالت میں ایک گواہ کی حیثیت سے بلائیں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ خود مذہب سے کتنا لگاؤ رکھتے ہیں تو شاید ہمیں غوروفکر کے لئے خاصا مواد مل جائے۔ وہ کہیں گے کہ فرد کے لئے مناسب ہے کہ وہ مذہبی ہو۔ ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے۔ اس دلیل سے قطع نظر ترکی ایک اچھی مثال ہے کہ آج کے زمانے میں ایک مسلمان ملک جمہوریت کے راستے پر چل کر کتنی ترقی کرسکتا ہے۔ دوسرے کئی ایسے سبق ہیں تاریخ کے جن کو نظرانداز کرکے ہم نے گویا اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ عام تعلیم کی خاص اہمیت کو ہم نے مسلسل رد کیا۔ میرٹ کا فلسفہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا اور کئی ایسے قوانین جو تاریخ کے سماجی انقلابات نے نافذ کئے تھے ہم نے ان پر عمل نہیں کیا۔
جیسا کہ ہر بڑی عدالت کے اہم مقدمے میں ہوتا ہے، ذہین اور نکتہ داں وکیل تاریخ کی عدالت میں بھی متضاد نظریوں کو صحیح اور جائز ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات کیا تھیں؟ اس پر بحث ہوگی۔ مذہبی انتہا پسندی کی ذمہ داری کن حکمرانوں اور کن پالیسیوں پر ڈالی جانی چاہئے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی تفتیش کے لئے جنرل ضیاء الحق کے حامیوں اور مخالفین میں مکالمہ ہوگا۔ یہ تو ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ جو کچھ ہوچکا اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن عہد حاضر کی سچائیاں یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگی جائے اور ان کا ازالہ کیا جائے۔ جس طرح بھی ممکن ہو۔ انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے، ہمیں معلوم نہیں۔ تبدیلی آئے گی یا نہیں۔ ہمیں معلوم نہیں۔ لیکن یہ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ تاریخ،کی عدالت کا فیصلہ ہمارے لئے کیا ہوسکتا ہے۔ شاید وہ اپنے فیصلے میں یہ کہے کہ جو سوچ مسائل کی بنیاد بنی ہے وہ مسائل کے حل کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ ہوسکتا ہے کہ عدالت پاکستان کو کوئی سزا بھی سنادے۔ ایک الزام تو توہین عدالت کا بھی ہوسکتا ہے۔ پتہ نہیں ، کوئی فاضل جج یہ نہ کہہ دے کہ پاکستان خود کو ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا ہے۔ اسلام آباد اور حکمرانوں کی عیاشی سے اس عمل کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بہرحال فیصلہ کچھ بھی ہو یہ تو واضح ہے کہ پاکستان کو اپنا راستہ تبدیل کرنا ہے یعنی عدالت پاکستان سے یہ عہد لے سکتی ہے کہ وہ اب تاریخ کے آئین کی پاسداری کرے گا۔ اب تک کے حالات یہ گواہی دے رہے ہیں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
تازہ ترین