• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دور معجزات اور سیاسی معجزات کا نہیں ہے مگر کیا کیا جائے اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سیاسی معجزات نہیں تو کیا کہیں گے؟ سیاسی معجزہ بھی ایک کے بعد دوسرا ہو رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ آج کل پاکستان میں سیاسی معجزات کی بارش ہو رہی ہے۔ کیا کوئی اس بات سے انکار کرے گا کہ پاکستان کی گزشتہ 66 سالہ تاریخ میں جب بھی حکومتیں ختم کی گئیں یا اسمبلیاں توڑی گئیں تو یہ سب کچھ یا تو فوجی آمر کرتے رہے یا ملکی صدور طاقتور حلقوں کے اشاروں پر 58(2)B کے تحت کرتے رہے۔ کیا ہم نے کبھی سنا یا دیکھا کہ پاکستان میں اسمبلیاں اور حکومتیں آئین کے تحت آئینی مدّت پوری ہونے کے بعد توڑی گئیں جیسے اس وقت ہوا ہے۔
جب کچھ عرصہ پہلے بیسویں آئینی ترمیم کے تحت اسمبلیاں توڑی گئیں تو اس وقت ہر طرف سے افواہوں کی یلغار تھی کہ انتخابات نہیں ہو پائیں گے اور یہ کہ نہ صرف مرکز میں بلکہ صوبوں میں بھی نگراں حکومتیں قائم نہیں ہو پائیں گی مگر اس وقت نہ صرف اسمبلیاں ٹوٹ چکی ہیں بلکہ مرکز اور خیبر پختون خوا، سندھ اور بلوچستان میں نگراں حکومتیں بن چکی ہیں بلکہ پنجاب میں بھی اس سلسلے میں آئین کے مطابق فیصلہ ہو چکا ہے۔ یہ سب کچھ پارلیمنٹ سے منظور کی جانے والی 20 /ویں آئینی ترمیم میں طے کیے گئے۔ ایک ایسے ”روڈ میپ“ کے تحت کیا گیا جو واقعی ایک Ticklish نوعیت کا ہے اور شاید دنیا کی جمہوری تاریخ کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا روڈ میپ ہے۔ اس روڈ میپ میں نئے انتخابات کرانے اور انتقال اقتدار کے سلسلے میں قدم قدم پر انتہائی خطرناک موڑ آسکتے ہیں اور ہر موڑ پر کوئی ایسا حادثہ ہونے کا خطرہ ہے جس کے نتیجے میں جمہوریت کی گاڑی ہی پٹری سے اتر سکتی ہے۔ یہ مشکل روڈ میپ ایک ایسے ملک میں روبہٴ عمل ہے جس میں طاقتور حلقوں کا حکومتوں اور اسمبلیوں کو ختم کرنے والا نشہ تو ابھی جوبن پر ہے مگر خود سیاسی قوتوں کو بھی ابھی خود پر اور ایک دوسرے پر مطلوبہ اعتماد پیدا نہیں ہوا۔ جب بیسویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہوئی تھی جس میں انتقال اقتدار کا یہ روڈ میپ طے کیا گیا تھا تو میں نے اصولی طور پر اس آئینی ترمیم اور اس روڈ میپ کی تعریف کی تھی کیونکہ یہ سب کچھ اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں اور باہر خاص طور پر دو بڑی پارلیمنٹری پارٹیوں پی پی اور نواز مسلم لیگ کے درمیان ڈائیلاگ کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اتفاق رائے سے منظور کی گئی تھی حالانکہ یہ آئینی ترمیم منظور کرنے کیلئے پی پی اور نواز لیگ کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ کے دوران پی پی کی طرف سے مذاکرات کرنے والے رہنماؤں اورنواز لیگ کے معتدل رہنماؤں اسحق ڈار وغیرہ کے درمیان ایک دو بار فارمولے طے بھی ہو گئے تھے مگر یہ فارمولے شاید نواز لیگ کے Hawks جن میں خاص طور پر چوہدری نثار شامل تھے، نے منظور نہیں کئے کیونکہ اس وقت پی پی کو ایک اور آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے نواز لیگ کے Hawks کی ضرورت تھی۔ لہٰذا بیسویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ نواز لیگ کے Hawks کی طرف سے عائد کی گئیں کچھ سخت شرائط کی روشنی میں طے کیا گیا اور اس طرح 20/ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی۔ ان ساری باتوں کے باوجود اس آئینی ترمیم کی اس وجہ سے تعریف ضروری تھی کہ یہ سب کچھ پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا اور سب کچھ ڈائیلاگ کے ذریعے طے کیا گیا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ڈائیلاگ جمہوریت کا حسن ہے اور جمہوریت خود بہت خوبصورت ہے اگر جمہوری سوچ اور مزاج سے روگردانی نہ کی جائے تو مشکل سے مشکل مسائل خوش اسلوبی سے ملک کے مفاد میں طے ہو سکتے ہیں۔ اس وقت بھی جب موجودہ جمہوری حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کو آئی تو اکثر سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر دو بڑی جماعتوں پی پی اور نواز لیگ کے درمیان شدیدبداعتمادی اور اختلافات پائے جاتے تھے۔ اس وجہ سے افواہ گرم تھی کہ نہ اسمبلیاں توڑنے پر اتفاق رائے ہو سکے گا نہ نگراں حکومتیں قائم کرنے پر اور نہ ایک دن ساری اسمبلیوں کے انتخابات ہونے پر اتفاق ہو سکے گا۔ ان افواہوں میں اس وقت خاصی تیزی آ گئی جب نواز مسلم لیگ نے قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ایک ہی دن پنجاب اسمبلی توڑنے کے بارے میں اپنے تحفظات ظاہر کیے مگر ہوا کیا؟ پہلے تو معجزانہ طور پر اس بات پر اتفاق ہوا کہ ساری اسمبلیاں ایک ہی دن توڑی جائیں گی، بعد میں یہ بھی طے ہوا کہ ساری اسمبلیوں کے انتخابات بھی ایک ہی دن ہوں گے۔ کیا یہ دونوں فیصلے سیاسی معجزات سے کم ہیں؟ ہمیں اپنی سیاسی قیادت کی اس سیاسی بلوغت کو پورا کریڈٹ دینا چاہئے ۔ جہاں تک مرکز اور صوبوں میں نگراں حکومتوں کے قیام کا تعلق ہے تواس سلسلے میں ٹرافی کے پی کی سیاسی قیادت کو ملنی چاہئے جہاں صوبے کے وزیراعلیٰ اور لیڈر آف اپوزیشن نے ملاقات کر کے اتفاق رائے سے نگراں وزیراعلیٰ کو نامزد کر دیا۔ کاش مرکز میں بھی ایسے ہوتا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے لیڈر آف اپوزیشن آپس میں ملاقات کرتے اور کوئی فیصلہ کرتے مگر یہ ملاقات نہ ہو سکی اور دونوں صاحبان نے ایک دوسرے کو خطوط کے ذریعے اپنی رائے سے آگاہ کرنا مناسب سمجھا۔ کتنا اچھا ہوتا اگر یہ دونوں صاحبان اتفاق رائے سے نگراں وزیراعظم کا فیصلہ کرتے مگر ایسا نہیں ہوا تو کیا ہوا؟احسن بات یہ ہے کہ آئین سے انحراف کرنے کی بجائے دونوں نے اپنے اپنے نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹری کمیٹی تشکیل دے دی۔ کیا اچھا ہوتا اگر اس فورم پر اس سلسلے میں اتفاق رائے سے فیصلہ ہو جاتا مگر کیا ہوا، اگر اس مرحلے پر بھی فیصلہ نہ ہو سکا کیونکہ دونوں اطراف نے کوئی ہنگامہ کھڑا کرنے کی بجائے اب یہ ایشو الیکشن کمیشن کو بھیج دیا اور الیکشن کمیشن نے مذاکرات کے بعد انتہائی شاندار انداز میں فیصلہ کیا اور پی پی کی طرف سے نامزد کیے گئے میر ہزار خان کھوسو کو پاکستان کا نگراں وزیراعظم نامزد کردیا۔ کیا یہ سیاسی معجزہ نہیں کہ اتنا مشکل اور حساس مسئلہ ہماری سیاسی قیادت اور الیکشن کمیشن نے آئین کے مطابق حل کر دیا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جمہوریت پل صراط سے گزرگئی ہے ،اسی دوران سندھ اور بلوچستان میں بھی نگراں وزرائے اعلیٰ نے حلف اٹھا لئے حالانکہ ان کی نامزدگی کے بارے میں کچھ حلقوں کو کافی تحفظات اور اعتراضات ہیں مگر توقع ہے کہ یہ ایشوز بھی جمہوری انداز میں ڈائیلاگ کے ذریعے یا عدالتوں کے ذریعے خوش اسلوبی سے طے کیے جائیں گے۔ اسی طرح ابھی نگراں کابینائیں بننی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ مراحل بھی جمہوری انداز میں طے کردیئے جائیں گے اور ملک انتخابات کی طرف رواں دواں ہو گا۔
یہ مشاہدہ کیا گیا کہ پی پی کی طرف سے نگراں وزیراعظم کے لئے جو تین نام دیئے گئے ہیں ان میں سے دو مضبوط امیدواروں یعنی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور ڈاکٹر عشرت حسین کا تعلق ماضی میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے رہا ہے اور یہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ یہ دونوں نام عالمی بینک کی سفارش پر سامنے لائے گئے ہیں۔ یہ افواہ بھی زیر گردش ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو پاکستان کا نگراں وزیراعظم نہیں بنایا گیا تو مئی اور جون میں بجٹ بناتے وقت عالمی بینک شاید مطلوبہ رقوم فراہم نہ کرے۔ اسی طرح یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ نواز مسلم لیگ کی طرف سے نگراں وزیراعظم کیلئے جو تین نام تجویز کیے گئے ان میں سے دو مضبوط امیدواروں یعنی ریٹائرڈ جسٹس ناصر اسلم زاہد اور ریٹائرڈ جسٹس شاکراللہ جان کا تعلق عدلیہ سے ہے اور یہ اطلاعات بھی زیر گردش رہیں کہ عدلیہ چاہتی ہے کہ ان دو میں سے کسی ایک کو ملک کا نگراں وزیراعظم بنایا جائے مگر جو فیصلہ ہوا ہے اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا جمہوری عمل نہ آئی ایم ایف سے متاثر ہوا اور نہ عدلیہ سے اور جو بھی فیصلہ کیا گیا وہ اکثریت سے کیا گیا۔ اسی دوران ایک اور دلچسپ پوشیدہ چیز بھی نظر سے گزری۔ واضح رہے کہ نواز مسلم لیگ نے جو نام تجویز کیے تھے ان میں تیسرا نام سندھ کے ایک Veteran سیاستدان رسول بخش پلیجو کا تھا۔ سندھ کے اکثر سیاسی مبصرین اور دانشور اس رائے کے حامل تھے کہ نگراں وزیراعظم کیلئے پلیجو سب سے زیادہ موزوں امیدوار تھے۔ ان کے دلائل یہ تھے کہ پلیجو فقط سیاستدان نہیں مگر ایک سیاسی مفکر، ایک سیاسی فلاسفر اور سیاسی نظریہ داں بھی ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی ملک میں جمہوریت کی بحالی اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے جدوجہد کی۔ اس وجہ سے زندگی کا اکثر عرصہ ان کو جیلوں میں گزارنا پڑا۔ ان کا موٴقف یہ تھا کہ جمہوریت اور شفاف انتخابات کا جتنا احساس پلیجو کو ہو سکتا ہے اتنا کسی اور کو شاید نہ ہو۔ اسی دوران ایک اور اہم بات نظر آئی اور وہ یہ کہ نیویارک اور کینیڈا میں Based پنجابی تھنک ٹینک نے ساری دنیا میں مہم چلائی اور نواز شریف سے اپیل کی کہ پاکستان کا نگراں وزیراعظم رسول بخش پلیجو کو بنایا جائے۔ اس مہم کی وجہ سے پلیجو تو ملک کے وزیراعظم نہ بن سکے مگر سندھ اور پنجاب کے قوم پرست اور دانشور ضرور ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔
سندھ کے کچھ دانشوروں نے پنجابی دانشوروں کے اس روئیے کی تعریف کی ہے ۔ عام خیال تھا کہ نواز مسلم لیگ پورا زور لگائے گی کہ نگراں وزیراعظم رسول بخش پلیجو بن جائیں مگر جب الیکشن کمیشن کے اجلاس میں پنجاب سے الیکشن کمیشن کے ممبر نے پلیجو کی حمایت نہیں کی تو سندھ کے دانشوروں میں کسی حد تک مایوسی پیدا ہوئی اور ان کی ایک رائے یہ ہے کہ نواز شریف دائیں بازو کے پنجابی دانشوروں کے خاصے دباؤ میں ہیں۔ بہرحال عام رائے یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم بنانے کا جو فیصلہ کیا وہ اکثریت سے اور جمہوری انداز میں ہوا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک آدھ تجزیہ نگاروں نے ہزار خان کھوسو پر خوا مخواہ شکوک و شبہات پیدا کر کے جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے بھی میر ہزار خان کھوسو کے بارے میں بلاجواز شکوک و شبہات پیدا کیے۔ اسی دوران یہ دلچسپ بات بھی نوٹ کی گئی کہ منورحسن کی باتیں سن کر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بلا سوچے سمجھے منور حسن کے اعتراضات سے اتفاق کیا جس سے اندازہ ہوا کہ عمران خان میں خود فیصلے کی قوت کتنی ہے۔ بہر حال اس مرحلے پر بھی کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے بیان جاری کرکے نگراں وزیراعظم بنانے کے فیصلے کو قبول کیا۔
تازہ ترین