• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے احتیاطی بہادری نہیں!

پاکستان پر کورونا وائرس کا شدید ترین وار ایک ہی دن میں مزید 47اموات، گھر سے باہر نکل کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ کورونا کا نام و نشان نہیں، سڑکوں، محلوں، گلیوں میں وہی چہل پہل، افراد سینہ تان کر اپنی عدم احتیاط کو طرم خانی سمجھ کر یوں محوِ خرام ہیں کہ جیسے وہ سورما ہیں اور یہ زمینی آسمانی آفت تو ان کے سامنے کوئی شے نہیں۔ کورونا خدانخواستہ ہمیں کیا ہوگا ہم اس کو ہو جائیں گے، اور ہم بےاحتیاطی کے مریض شاید اپنی بےتکی بہادری سے اسے شکست دے دیں گے۔ اگر ہر انسان اپنے دائرہ کار میں اپنا قبلہ راست کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ وبا نہیں بلکہ بلا ٹل جائے۔ پوری دنیا میں کیا ہو رہا ہے وہ تو ایک طرف ہم نے اپنے ملک میں اس وائرس سے بچنے کے لئے کس حد تک احتیاط کا دامن تھام رکھا ہے، یہ جان اللہ کی امانت ہے اسی کی دی ہوئی چیز ہے اس کی حفاظت، عبادت ہے یہ ہو گی تو سجدے بھی ہوں گے، دینداری بھی ہو گی مگر ہم تو اس قدر لاپروا ہو چکے ہیں کہ خود کشی کو شہادت سمجھ بیٹھے ہیں۔ اگر کسی گلی محلے میں ایک فرد بھی کورونا لے کر داخل ہو گیا تو وہ گلی وہ محلہ کورونا کی زد میں آ جائے گا، اس وبا کا علاج گھروں میں رہنا ہے۔ میرے علم میں کتنی ہی ایسی جگہیں، گھر اور چوبارے ہیں جہاں ڈولفن بھی آئی مگر نہ جانے کیوں لوٹ گئی پھر نہیں آئی، اب اگر کوئی اعتراض کرے تو اس پر فتویٰ داغ دیا جاتا ہے کہ دیکھو یہ شخص دینی فرائض سے روکتا ہے، اس لئے اب بالخصوص پنجاب حکومت کم از کم لاہور شہر میں تو ایسے اکٹھ روک دے، زبانی حکومتی رٹ ہے عملی رٹ کہیں نظر نہیں آتی، عوام الناس کمال بےاحتیاطی سے کام لے رہے ہیں اور شاید اس کو بہادری گردانتے ہیں، اس بلا سے لڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے، کہ گھروں میں رہیں۔

٭٭٭٭

مطالبے کو سیاست کا نام نہ دو

بلاول بھٹو:وفاق صوبوں کی مدد نہیں کر رہا وزیراعظم استعفیٰ دیں۔

شبلی فراز:سندھ کی نااہلی وفاق پر تھوپنے کی کوشش ہے۔

قبلہ وزیر اطلاعات! یہ جو بلاول کہہ رہے ہیں یہ مطالبہ ہے اور جو آپ فرما رہے ہیں سیاست ہے، سندھ حکومت نے کورونا کے خلاف جنگ میں ہر اول دستے کا کام تنہا کیا، سب نے تعریفیں بھی کیں اور اب یہ سیاست ہو گئی، کیا وفاق اپنے تحت دو بالشت علاقے کا ہی ذمہ دار ہوتا ہے، یا اسے بڑی اماں کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے، اپنے زیر انتظام ہر صوبے کو اس کی ضرورت کے مطابق اتنا کچھ دینا پڑتا ہے کہ وہ صوبہ مالی رکاوٹ اور سازو سامان کی کمی سے دوچار نہ ہو، چہ جائیکہ اس کا دودھ مانگنے کے لئے رونا، سیاست قرار دیا جائے، یہ اندازِ حکومت خانہ بر انداز ہے، یہ ایلیٹ کلاس جو پاکستانی ہے اس کے ذکر کو اچھال کر حکومت کیوں ایسے نازک موقع پر طبقاتی کشمکش پیدا کرنا چاہتی ہے، یہ وہی سرمد کی کہی بات ہو گئی کہ؎

گہے برطارم اعلیٰ نشینم

گہے برپشت پائے خود نہ بینم

(کبھی تو میں عرش کی بلندیوں پر اور کبھی اپنے پائوں کی پشت نہیں دیکھ پاتا)

سندھ میں کورونا زوروں پر ہے اگر اتنا کہہ دیا گیا کہ ہمارے پاس وسائل نہیں، ڈر ہے کہ کراچی کے حالات اٹلی اور نیو یارک جیسے نہ ہو جائیں تو ایسا کیا کہہ دیا کہ ان کی کردار کشی کی جانے لگی یہ وقت متحد ہو کر موت کا راستہ روکنے کا ہے جو اندھی اونٹنی کی طرح گلیوں سڑکوں پر رقص کر رہی ہے۔ مرگِ مفاجات سے بچنے کے لئے احتیاط کے ساتھ وسائل بھی ہر صوبے کو درکار ہیں، یہ رموزِ حکمرانی سے بےخبری ہے کہ ملک کو صوبوں، نفرتوں اور طبقاتی عصبیتوں میں بانٹا جائے۔ وزیراعظم سب کو ساتھ لے کر وسائل سمیت چلیں گے تو کام آگے بڑھے گا ورنہ بلاول کا سچ سر چڑھ کر بولے گا۔

٭٭٭٭

مودی نے انسانیت کھو دی

مودی نے اذانوں پر پابندی عائد کر دی، حیرانی ہے کہ 80لاکھ کشمیری اڑھائی سو دنوں سے ظلم و بربریت کی بھارتی قرنطینہ میں سسک رہے ہیں، انہیں چن چن کر مارا جا رہا ہے، مگر عالمی قوتوں کو اب بھی مودی کو لگام دینے کی توفیق نہیں، شاید انسانیت کا انسانی دنیا میں ظالم کا ہاتھ نہ روکنے کا انجام ہے کہ پوری دنیا قرنطینہ میں تبدیل ہو گئی، جب انسان، انسان کے لئے کورونا بن جائے تو پھر کورونا وائرس کیونکر رکے، کشمیریوں پر جو ظلم و ستم مسلسل ڈھایا جا رہا ہے اس کا وائرس مودی کی سوچ میں کچھ اس کا بھی علاج اے چارہ گراں ہے کہ نہیں، بڑی مغربی قوتیں بالخصوص ٹرمپ کیوں مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں پر جاری ظلم بند نہیں کراتے یہ ظلم بند ہوگا، تو کورونا بھی اپنی راہ لے گا، پچھلی امتوں پر جتنی آفات ٹوٹیں ظلم کے باعث پھر کیوں آج لاعلاج کورونا کو روکنے کے لئے دنیا سے ظلم کا خاتمہ نہیں کیا جاتا۔ کورونا جس کی دوا ہے نہ دارو فقط مختلف سائنس دانوں، یونیورسٹیوں کی تحقیقات، جیسی طفل تسلیوں سے نفسیاتی طور روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے، آخر ہم نے اپنے ماحول اور اردگرد کے انسانوں کے ساتھ ایسا کیا کیا کہ یہ وبا پھوٹ پڑی، نظامِ ہستی کو ہم خود ہی تو خراب کر رہے ہیں، شاید کورونا ماحولیات کی درستی کا خدائی نظام ہے جو بالآخر متحرک ہو گیا اور اوزون کے سارے شگاف بند کر دیے، یہ سزا و جزا کا عمل ابھی جاری ہے، ممکن ہے کوئی بڑی تبدیلی لانا منظور ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، انسان موت سے بہت ڈرتا ہے اسی لئے موت ہی کہیں علاج نہ بن جائے، ہم انسانوں کو ان انسانوں، حکومتوں کو باور کرانا ہو گا کہ مودی اور اس جیسے دیگر حکمرانوں کو ظلم و بربریت سے نہ روکا گیا تو پھر رطب و یابس کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، بااختیار انسانوں نے آخر کیوں بےبس انسانوں کو ظلم کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ کسی عالمی طاقتور حکمران کا دھیان مودی کے مظالم کو روکنے کی طرف کیوں نہیں جاتا شاید یہی ویکسین کام میں لائی جائے تو کرم ہو جائے۔

٭٭٭٭

سچے صحیفے اُترتے رہیں گے

....Oصحافت کو پایہ زنجیر نہ کرو

....Oفردوس عاشق اعوان: بہت سارے لوگوں کو میری وزارت چبھتی تھی،

اقتدار کا نشہ بھی کیا برا نشہ ہے پہلے چڑھتا نہیں، چڑھ جائے تو اُتر کر بھی نہیں اُترتا۔

....O وزیراعظم: لاک ڈائون میں نوجوان اسلامی تہذیب و تاریخ کی کتاب پڑھیں۔

جو کوئی مخصوص کتاب ان کے ہاتھ لگی ہے اس کی مفت تقسیم کا اہتمام فرما دیں ضرور پڑھیں گے، ویسے موجودہ حالات میں بہترین کتاب، کتابِ اللہ ہے، سارا معاملہ ہی سمجھ آ جائے گا۔

....O میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کا حکم نہ دینا خود کو قید میں ڈالنے کے مترادف ہے، ایلیٹ عناد بےپردہ ہو گیا۔ کیس کا سرے سے کوئی فیس (Face)ہی نہیں، پھر بھی جسمانی ریمانڈ کا تسلسل ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، کیا حق گوئی و بیباکی جرم ہے؟ صحیفے اُترتے رہیں گے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین