• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک تقریباً گزشتہ دو دہائیوں سے ملک میں جس قدر دھجیاں تعلیمی نظام کی بکھیری گئی ہیں، شاید ہی کسی دوسرے شعبہ میں اس قسم کی اکھاڑ پچھاڑ کی گئی ہو ، ایک کلیدی کردار شعبۂ تعلیم کی زبوں حالی میں پاکستان بھر میں چلنے والے انواع و اقسام کے تعلیمی نظام اور گلی محلوں میں کھمبیوں کی طرح اُگنے والے نام نہاد انگریزی میڈیم کے تعلیمی اداروں نے بھی کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ’’جنگ‘‘ کے انہی کالمز میں ملک کے معروف صحافی جناب واصف ناگی نے بڑے دردمندانہ انداز میں مدلل دلائل دیتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ملکی تاریخ میں ہم بارہ تیرہ ایجوکیشن پالیسیاں لے کر آئے، سینکڑوں ایجوکیشن کانفرنسز ہوئیں، ہر وزیر تعلیم نے اپنے اپنے ادوار میں تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کئی کئی غیرملکی دورے بھی کیے لیکن بدقسمتی سے یہ تمام تجربے ناکام ہوئے۔ ناگی صاحب کے کالم کا سب سے ’’تشویشناک‘‘ نکتہ یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی سے ہر سال سوا دو لاکھ طالبعلم پرائیویٹ بی اے کا امتحان دیتے ہیں۔ اب اگر حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے تحت طلبہ سے یہ سہولت چھیننے جا رہی ہے تو لاکھوں طلبہ کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک خوفناک قدم یہ بھی ہے کہ سرکاری کالجوں سے ایم اے اور ایم ایس سی کی ڈگریوں کو ختم کیا جا رہا ہے جو یقیناً ایک تعلیم دشمن قدم ہے۔ انہوں نے بیرونِ ملک جانے والے طلبہ کی مشکلات پر بھی بات کی ہے۔

میری دانست میں تو تعلیمی بدحالی کی ایک بڑی وجہ ملک کا سیاسی عدم استحکام بھی ہے اور ہمہ وقت بڑھتی ہوئی کرپشن بھی، جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان کے لیے تعلیم کا مقصد علم حاصل کرنا رہا ہی نہیں بلکہ تعلیمی اداروں، تعلیمی سرگرمیوں کو ڈگری کا حصول اور محض تن آسانی و تن پروری ہی سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے طالبعلم کے دماغ میں بیٹھ چکا ہے کہ ڈگری فقط مال و دولت جمع کرنے کا ایک ٹول ہے اس لئے وہ ہر اس تعلیمی سسٹم کا حصہ بن کے اندھا دھند اس کے پیچھے لگ جاتا ہے جس میں اسے ملازمت کے مواقع اور دولت اکٹھی کرنے کے آسان ذرائع نظر آتے ہیں۔ تہذیب و شرافت، اسلامی اقدار، حق و باطل میں تمیز، دانش و بینش اور خدمتِ خلق وغیرہ سے ہمارے طلبہ کو اب کوئی معانقہ نہیں رہا۔ ہمارے لایعنی تعلیمی تجربات نے ایک اور بڑا نقصان یہ بھی کیا ہے کہ اپنی ہر آنے والی نسل سے اس کی مادری زبان چھین لی چنانچہ طلبہ کے لیے ماں بولی میں گفتگو کرنا جاہلیت کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ بھانت بھانت کے تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے والے تعلیمی اداروں نے اپنے اپنے نظامِ تعلیم متعارف کروا کے تعلیم کے یکساں نظام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ایک ہی شہر میں اگر دس بچوں نے میٹرک کا امتحان مختلف اسکولوں سے پاس کیا ہے تو ان سب کا نصاب بھی مختلف ہوگا۔

حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ سمجھا جانا چاہئے کہ اگر ہمارے ملک کا لوئر مڈل کلاس یا کوئی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے طبقے کا بچہ بی اے یا ایم اے پرائیویٹ کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ملازمت سے اپنا روزگار بھی کمانا چاہتا ہے تو اس کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا کون سا ذریعہ تجویز کیا گیا ہے؟ ہمارے معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں جو اعلیٰ صلاحیتیں ہونے کے باوجود معاشرتی یا معاشی مسائل کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ تعلیم کا حصول تو ہر شہری کا حق ہے خواہ وہ امیر ہے یا غریب اور مرد ہے یا عورت چنانچہ یہ فرض حکومت کا ہے کہ بلاامتیاز اپنے شہریوں کی سہولت کے مطابق انہیں مواقع مہیا کرے۔ وفاقی وزیر تعلیم بتائیں کہ وہ جو اڑھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر تھے اور جو آپ کی جماعت کا انتخابی نعرہ بھی تھا تو آج کیا یہ بچے اسکولوں کے اندر پہنچ چکے ہیں؟ اور وہ جو اسلام آباد جیسے شہر میں 27ہزار بچے اسکول سے باہر تھے، کیا اُن کی انرولمنٹ ہو چکی؟ یہ وہ سوال ہیں جو موجودہ حکومت سے کیے جاتے رہیں گے۔

’’فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز آف اسٹاف ایسوسی ایشنز‘‘ (فیواسا) پنجاب کے صدر ڈاکٹر ممتاز انور اور پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جاوید سمیع نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسیز کو تعلیم دشمن قرار دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ تحقیقی مجلات کی نئی پالیسی ملک میں تحقیق کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے کیونکہ اس پالیسی کے تحت مقامی تحقیقی جرنلز بند ہو جائیں گے اور ہمارے طالبعلم صرف تین بین الاقوامی جرنلز کے محتاج ہو کر رہ جائیں گے۔ جہاں اپنے تحقیقاتی مقالے شائع کروانے کے لیے ہمارے اسکالرز کو برسوں انتظار کرنا پڑے گا۔ پاکستان ہائر اور مجموعی طور پر ملک کے اثر انداز ہونے والے اداروں اور حکومتی ذمہ داروں سمیت حالیہ وزیر تعلیم جناب شفقت محمود سے بھی گزارش ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان سے کوئی چالیس ہزار طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ممالک میں جاتے ہیں ان ممالک میں برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور ملائشیا سرفہرست ہیں، ان میں سب سے زیادہ پاکستانی طلبہ برطانیہ آتے ہیں۔ میں خود گزشتہ تین دہائیوں سے لندن میں مقیم ہوں اور پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ ان 50ہزار طلبہ میں سے 40ہزار یہاں پہنچ کر اپنے معاشی معاملات میں بری طرح بلکہ پوری طرح اُلجھ جاتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر ان کے حالات ہی ایسے ہیں کہ وہ بیرون ممالک میں اس قدر مہنگی تعلیم کا بوجھ اٹھا سکیں لہٰذا بیرون ملک جانے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد ہےان کے لیے بھی حکومت پاکستان کو ایک مربوط جامع اور ایک ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت ان طلبہ کی کوئی مالی مدد بھی ہو سکے۔

تازہ ترین