یہ خیالی داستان ہرگز نہیں بلکہ ایک اکنامک ہٹ مین کی ہڈ بیتی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ کس طرح امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور پینٹا گون ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک کے معاشی اور سیاسی حالات کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں وہ فوجی اور سیاسی آمروں کو کھلی چھٹی دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ داستان گو اکنامک ہٹ مین کی پہلی اسائنمنٹ انڈونیشیا کے صدر سہارتو کو قائل کرنا تھی کہ وہ اسکی کارپوریشن کے ذریعے ایک مہنگا ترین الیکٹریکل سسٹم بنائے۔ تربیت یافتہ ماہرِ ریاضی کی مانند فارمولے کے تحت رپورٹ کے ذریعے صدر سہارتو کو سمجھایا کہ اگر یہ الیکٹریکل سسٹم بن گیا تو انڈونیشیا میں انقلاب آ جائے گا۔ آمر صدر سہارتو نے اسکی پیش کش کو قبول کرنے سے پہلے اقتدار کے تحفظ کیلئے سی آئی اے اور پینٹا گون کا تحفظ طلب کیا۔ جیسے ہی اسے یہ تحفظ ملا اس نے بخوشی یہ پیشکش قبول کرلی۔ انڈونیشیا کو بھاری قرض مل گیا اور اکنامک ہٹ مین کی کارپوریشنز نے بھاری انفراسٹرکچر بنا کر خوب مال سمیٹا اور جس کے بدلے میں اس اکنامک ہٹ مین کو اکانومسٹ سے چیف اکانومسٹ بنا دیا گیا۔ اسے کامیابی کیوں نہ ملتی، وہ تو ایک تربیت یافتہ اکنامک ہٹ مین تھا جس کا کام ہی وسائل سے بھرپور ممالک کے سربراہان کو امریکی پالیسیوں کا ہمنوا بنانا تھا۔ اپنی کتاب اکنامک ہٹ مین کے اعترافات میں وہ اکنامک ہٹ مین جان پرکنز لکھتا ہے ’’سی آئی اے کے پروگرام آپریشن کونڈور کے تحت میں ہمیشہ ڈپلومیٹک الفاظ استعمال کرتا تاہم معانی یہ ہوتے آپ ہماراکھیل کھیلیں، ہم آپ کو ڈالروں میں نہلا دیں گے ورنہ موت آپ کا مقدر ہے‘‘۔ کونڈور کا مطلب ہے کہ بڑا گدھ۔ گدھ کی خاصیت کے تحت سی آئی اے دنیا بھر کے سربراہان کا تختہ الٹ کر یا انہیں قتل کرکے اپنے مقاصد پورے کر رہی ہے۔ ایکواڈور کے صدر جیمی رولڈوس اور سربراہ پانامہ عمر ٹوری جاس نے آپریشن کونڈور کی شدید مخالفت کی۔ جان پرکنز نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ جس کے بعد پہلے جیمی رولڈوس اور بعد ازاں عمر ٹوری جاس بظاہر نجی طیارہ حادثہ میں مارے گئے۔ سی آئی اے کی ویب سائٹ تسلیم کرتی ہے کہ 1953میں ایرانی صدر محمد مسدیغ کا تختہ الٹانے میں امریکی حکومت ملوث تھی۔ سی آئی اے نے صدر چلی سمیت، گوئٹے مالا، ویت نام، عراق اور کانگو سربراہان کے تختے بھی اُلٹے۔ چلی کے صدر ایلندے کی جگہ ظالم آمر جنرل پنوشے کو سربراہ مقرر کیا گیا جو نہ صرف آپریشن کونڈور کا حامی تھا بلکہ اس نے اپنے لاکھوں افراد کے قتل کو بھی نظر انداز کیا۔ وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اسے بہت سراہا اور سرمایہ داری نظام کا حمایتی قرار دیا تھا۔ جان پرکنز کہتا ہے ایسا کرکے امریکی سلامتی کی خدمت نہیں بلکہ اسے خطرے میں ڈالا گیا ہے۔ وکی لیکس ہوں، ایڈورڈ سنوڈن پیپرز یا پانامہ پیپرز یا پھر بلاگرز، اِن کے ذریعے منتخب حکمرانوں کو اقتدار میں لانے یا بیدخل کرنے کیلئےرائے عامہ ہموار کی جاتی رہی ہے۔ عوام کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ جانیں کہ ہر نئی کہانی کے پسِ منظر میں کونسا سچ پنہاں ہے؟ عوام اپنے رہنمائوں سے پالیسی سازی بارے سوال کریں۔ مقامی طاقت کا استعمال کریں تاکہ پالیسیاں اور قوانین بدلے جائیں۔ ہماری کارپوریشنز کو آگاہ کریں کہ عوامی مفاد کو یقینی بنایا جائے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو مسلسل ای میل کریں۔ وہ عوام کی بات سنتی ہیں، اُنہیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ اُنہیں دشمن نہ بنائیں۔ اُنہیں کہیں مجھے آپ اور آپکی پروڈکٹ سے پیار ہے لیکن جب تک ماحول کو آلودہ کرنا بند نہیں کریں گے آپ کی پروڈکٹ نہیں خریدیں گے۔ یہ ای میل اپنے سوشل نیٹ ورک پر بھیجیں اور اُنہیں کہیں کہ وہ اپنے سوشل نیٹ ورک کو بھیجیں۔ اس طرح آپ کارپوریشن کو قائل کر لیں گے کہ وہ عوامی مفاد کو مدِنظر رکھیں۔ اس طریقہ سے ہمیں ناکام کرنے والے معاشی نظام کو بدل سکیں گے۔ 75سالہ امریکی جان پرکنز کا کہنا ہے کہ میں سرمایہ دارانہ نظام کا حمایتی ہوں لیکن موجودہ نظام غارت گر سرمایہ دارانہ نظام ہے جو حقیقی سرمایہ دارانہ نظام کا دشمن ہے۔ اکنامکس میں نوبل انعام یافتہ ملٹن فرائیڈ مین نے 1976میں نظریہ پیش کیا تھا کہ کاروبار کا مقصد ہر قیمت پر زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے۔ اس تھیوری نے ہر نظریہ ہی بدل دیا جو عالمی ناکامی بن گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اس تباہی کی جانب بڑھ گئے جس کا آج سامنا کررہے ہیں۔ ہم اکنامک ہٹ مینوں نے نئی گلوبل اکانومی بنا رکھی ہے۔ میں سعودی سربراہان، شاہِ ایران سمیت پانامہ، ایکواڈور و دیگر سربراہان سے ملا ہوں۔ ہم انہیں ورلڈ بینک اور دیگر اداروں سے بڑے بھاری بھرکم قرضے دلاتے ہیں، یہ پیسہ ان ممالک تک نہیں جاتا بلکہ ہماری کارپوریشنز کو جاتا ہے۔ بیک ٹیل، ہالی برٹن، برائون اینڈ روٹ جیسے جانے پہچانے نام ان ممالک میں بڑے منصوبے کھڑے کرتے ہیں اور بھاری منافع کماتے ہیں۔ وہ پاور پلانٹس اور انڈسٹریل پارکس بناتے ہیں۔ جس سے ان ممالک میں چند امیر خاندانوں کا فائدہ ہوتا ہے جو ان انڈسٹریز کے مالک ہوتے ہیں لیکن ان ممالک کی عوام کی اکثریت شدید تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان ممالک پر قرضوں کا بوجھ اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ وہ ادا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ پھر ہم انکو کہتے ہیں بجلی، پانی، گیس کے ریٹ بڑھائو پھر بھی جب وہ قرضے واپس نہیں کر سکتے تو انہیں کہتے ہیں اپنے اداروں کی نجکاری کرو، یا پھر اپنے وسائل یعنی تیل یا کچھ اور ہماری کارپوریشنز کو ہی سستے داموں بیچو، یا پھر اپنے اثاثوں کو ہماری کارپوریشنز کے پاس گروی رکھو یا بیچ ڈالو۔