• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل ان غیر معمولی حالات میں بھی ہمارے سیاستدان سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ہیں- وفاق اور سندھ میں چونکہ الگ الگ سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے لہذا سب سے زیادہ یہاں دوطرفہ الزامات کی بارش ہے- جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، اس لئے ان دونوں صوبوں کے بارے میں وفاق کی طرف سے خاموشی ہے۔ جب پورے ملک میں ہی لاک ڈاون ہے تو وفاق کی طرف سے صرف سندھ کے لاک ڈاؤن کو کیوں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے؟ جبکہ سندھ میں بھی لاک ڈاون کی خلاف ورزی کی وہی صورت حال ہے جو کہ اور شہروں اور صوبوں میں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سندھ کے بڑے شہر کراچی جو کہ اقتصادی سرگرمیوں کا حب ہے وہاں سب سے زیادہ کاروباری سرگرمیوں پہ لاک ڈاؤن کا اطلاق ہے۔ جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ خاص طور پر چھوٹے کاروبار والے بڑے پریشان ہیں۔ کیونکہ یہ رمضان کا مہینہ انکی آمدنی میں اضافے کا سب سے اہم مہینہ ہوتا ہے۔ جس میں بکری سب سے زیادہ ہوتی ہے اور منافع بھی ۔ پھر اس کے بعد عید کی تیاری بھی اسی مہینے میں کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد عموما لوگ شادی کی تقاریب بھی عید کے بعد

رکھتے ہیں ۔لہٰذاان کاروباری حضرات میں بےچینی تیزی سے پھیلتی جارہی ہے کہ ان کی اصل آمدنی کا مہینہ نکلے چلا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب سوشل میڈیا پہ سندھ حکومت کے خلاف بہت سی منفی پوسٹ شیئر کی جارہی ہیں۔ جس میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے ہے کہ سندھ حکومت کاروبار کھولنے کے لیے یے کاروباری حضرات سے رشوت یا بھتے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے کاروباری حضرات اپنے کاروبار شروع کر چکے ہیں لیکن چھوٹے تاجر بروقت حکومت کی فرمائش پوری نہ کرنے کی وجہ سے اب تک اپنا کاروبار نہ کھول سکے۔ سندھ حکومت نے جہاں بہت اچھی طرح اس کرونا وائرس کے لیے اقدامات کیے ہیں اور اس کو پھیلنے سے روکا ہے۔ اب ضروری ہے کہ وہ ان الزامات کی نفی کرے تاکہ اس کے اوپر لگے اچھے تاثر کو کو منفی تاثر سے ختم نہ کیا جا سکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کوئی سرکاری نمائندہ حکومت سندھ کے حق میں واضح پالیسی بیان دیے اور دوسری طرف اگر وفاقی حکومت واقعی ایسا سمجھتی ہے کہ سندھ حکومت کی کارکردگی صحیح نہیں ہے تو ثبوت کے ساتھ بات کرے الزامات لگائے سے وہ بھی دو طرف الزامات سے عوام بہت الجھ رہے ہیں اور صحیح صورت حال معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اب بات کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی پالیسیوں کی وفاقی حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمتوں کے باعث اب پاکستان میں بھی تیل کی قیمتوں میں واضح کمی کی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کا ثمر عام آدمی کو ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب ٹرانسپورٹ پر پابندی ہے لاک ڈاؤن ہے تو کیسے ممکن ہے کہ لوگ پیٹرول کو خریدیں اور استعمال کریں۔ بڑا بے وقت حکومت نے یہ قدم اٹھایا ہے ۔ اس سے بہتر تھا کہ تیل کی قیمتیں اپنی جگہ رکھی جاتیں اور ضروری پیداوار والی صنعتوں تو اور بجلی پیدا کرنے والے لے گھروں کو پیٹرول کم قیمت پر مہیا کیا جاتا تا کہ ان کی پیداواری لاگت میں کمی آتی آتی، ان کا اعتماد بحال ہوتا اور وہ پیداوار میں اضافے کے لئے کوشاں رہتے۔ پورے ملک میں تیل کی قیمت میں کمی کر دینے سے ایک طرف تو تو پیٹرول کی طلب میں اضافہ ممکن نہیں تو دوسری طرف حکومتی آمدنی میں مزید کمی واقع ہوگی۔ کیونکہ لاک ڈاون کی وجہ سے بہت سے کاروباری سرگرمیاں روکی میں ہیں جن سے حکومت کو سیلز ٹیکس کی مد میں میں بڑی آمدن ہونی تھی۔ کیونکہ وہ سلسلہ دو مہینے سے روکا ہوا ہے لہٰذا حکومت کی آمدنی میں مزید کمی واقع ہوگی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ حکومت تیل کی قیمتوں میں کمی کرنے کے بجائے اس سے اپنی آمدن حاصل کرتی ۔ غیر ملکی اداروں سے ادھار مانگنے یا قرضہ لینے اور سمندر پار پاکستانیوں سے خیرات مانگنے کے بجائے اپنے وسائل پہ انحصار کرتی اور عوام اور کاروباری حضرات کو اعتماد میں لیتے ہوئے ملکی معیشت کا پیہہ آہستہ آہستہ آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ۔ لیکن آخر میں ایک مثبت عمل کی تعریف نا کرنا بھی زیادتی ہوگی ۔ وفاقی حکومت نے کاروباری اداروں کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے براہراست قرضوں کی فراہمی کا عمل شروع کیا ہے تاکہ وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور دوسرے اخراجات کا بوجھ اٹھا سکیں ۔ اسکا طریقہ کار کیا ہوگا اس پر اگلے کالم میں بات ہوگی۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین