• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں کورونا کے تباہ کن بحران کے بعد حالا ت معمول پر آرہے ہیں یہ اس امر کی علامت ہے کہ ان ممالک میں رواں نظام پائیدار نتائج کا حامل ہے اور ان ممالک کے عوام بجا طور اپنے ملکوں کے نظام پر اعتماد کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں تاحال کورونا وبا سے افراتفری و ہیجان ہے، ہم ابھی تک یہ جان ہی نہیں سکے کہ حقائق کیا ہیں اور ہمارے شور و غل کےنتائج کیا رنگ لارہے ہیں۔

کوئی یکسو نہیں، نہ علاج کا اطمینان اور نہ ہی اعلان کردہ حفاظتی اور امداد سے متعلق اعلانات پر اعتبار، صاف نظر آرہا ہے کہ ملکی نظام ایسے کسی بھی بحران میں ایسے اقدامات کے جوہر نہیں رکھتا جو شہریوں کے دکھوں کا فوری مداوا کر سکے۔

ملک میں فعال و دورس نتائج کا حامل نظام نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہاں کا طویل سیاسی عدم استحکام اور نظام کش آمریتیں ہیں۔ تاریخ کا نوحہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقات کبھی بھی نظام کے استحکام کیلئے سنجیدہ ہی نہ ہوئے، بلکہ ذاتی، گروہی اور شخصی اقتدار کیلئے ہی بروئے کار آتے رہے، انہی کارستانیوں کے نتیجے میں بالآخر ہمیں ملک کا توانا بازو مشرقی پاکستان کھونا پڑا۔

المیہ یہ بھی ہے کہ ملک دولخت ہو جانے کے بعد خدا خدا کرکے جب 1973ءمیں ایک متفقہ آئین بنا تو اس آئین کے خالق ہی نے اس سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی، پھر ضیاءالحق کے دور میں 8ویں ترمیم کی تاریخ ساز بدعت نے اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔

الغر ض یہ 18ویں ترمیم ہی ہے جس سے اس آئین کی حقیقی صورت کا بڑی حد تک احیا ہو سکا ہے۔ یہ اس لئے بھی قومی یکجہتی کی علامت ہے کہ اس ترمیم کے خدوخال وضع کرنےکیلئے حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف سمیت تمام جماعتوں کی مشاورت سے قائم آئینی اصلاحات کمیٹی نے طویل مشق کی۔

یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ تحریک انصاف کے موجودہ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت بھی اُسی پارلیمنٹ میں موجود تھی یہ الگ بات ہےکہ اُس وقت ان کا تعلق تحریک انصاف سےنہ تھا۔ 18ویں ترمیم کے تحت 1973کے آئین میں تقریباً 100کے قریب تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

فوجی آمر ضیاء الحق کے دور کی گئی ترامیم کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے، اُنہوں نے 8ویں ترمیم کے تحت 1973کے وفاقی آئین میں 90سے زیادہ آرٹیکلز کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔

18ویں ترمیم کے ذریعے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کی گئی 17ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کو بھی قریب قریب ختم کر دیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کے وزرا نے اگرچہ 18ویں ترمیم میں ردو بدل یا خاتمے کا شوشہ چھوڑ دیا ہے لیکن اس سلسلے میں درکار دو تہائی اکثریت اُس کے پاس نہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت محض تین ووٹوں کی اکثریت سے برسراقتدار آئی ہے لیکن اسکے باوجود وہ اس طرح کے شوشے چھوڑ کر یا تو ملک کو درپیش چینی آٹا جیسے میگا اسکینڈل سمیت کورونا وبا سے متعلق وفاق کی ناکامی کو عوام کی نظروں سے دور رکھنا چاہتی ہے یا پھر اُسے یہ زعم ہے کہ پارلیمنٹ عین اُس کی منشا کے مطابق وہی کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جائے گی جیسے ماضی قریب میں دو تین مواقع پر ہوا۔

سینیٹ انتخابات کے موقع پر جناب صادق سنجرانی کا بطور چیئرمین انتخاب جہاں حیران کن تھا تو وہاں اس سے بھی چشم انس کو ششدر رکھنے والا وہ منظر تھا جب چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک اعتماد کے دوران بقول شہباز شریف اپوزیشن کے 14ووٹ پیسے کی چمک کی نذر ہو گئے، جس سے اپوزیشن کی اپنی ہی لائی ہوئی تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی۔

تاریخ یہ ہے کہ جب جب جمہوری استحکام کا موقع آیا تو موقع پرست سیاستدان سستے داموں نیلام ہوئے۔ یہ بھی تاریخ ہے کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں عوامی خزانے کی لوٹ مار سے اس لئے بھی صرف نظر کیا جاتا رہا کہ بوقتِ ضرورت ڈیل اور ڈھیل کےنام ہر لٹیرے سیاستدانوں کو اپنے کام میں لایا جا سکے۔ شاید اب بھی کچھ ایسا ہی سوچا جا رہا ہے۔

اصل محتسب بھی اُسی طرح شباب میں ہیں اور 18ترمیم میں مبینہ ردوبدل کی راہ میں مزاحمت کی قوت رکھنے والوں کے پائوں میں بھی اُسی طرح مجبوریوں کی بیڑیاں ہیں۔ یہی وہ سیاستدان تھے جو ایسے مواقع پر کہتے رہے ہیں کہ مفاہمت نہیں کریں گے اور پھر دنیا نے ان کی مفاہمت ہوتی دیکھی۔

تو شاید اسی بل بوتے پر کچھ سوچا جا رہاہو لیکن حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیشہ طبلِ جنگ بجانے کے نتائج حسبِ خواہش برآمد نہیں ہوتے۔

ایسےمیں مولانا فضل الرحمٰن کی یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ’’اگر 18ویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو ملک میں بدترین سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہوں گے، ملک مزید نئے تجربوں کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘۔

تازہ ترین